رضا ربانی کی نامزدگی سے انکار زرداری پر سیاسی طور پر بھاری پڑسکتا ہے
تجزیہ سہیل چوہدری
پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ غیر فطری اتحادکے نتیجہ میں چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں پر بالآخرنامزدگی سے اسلام آباد میں جاری جوڑ توڑ کی سیاست کا اینٹی کلائیمکس کردیا،چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے اپنے اپنے امیدواران نامزد کرنے کے حوالے سے گزشتہ رات تک تجسس برقرار رہا ، دونوں بڑی اور پرانی سیاسی جماعتوں کے مابین ہفتہ بھر اعصابی جنگ جاری رہی ، پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نوازشریف کی جانب سے پاکستان پیپلزپارٹی کا فیصلہ سامنے آنے تک اپنا امیدوار نامزد کرنے سے گریز کیا ، کیونکہ لگتاہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے اکابرین اور انکے بڑے حمایتی سیاسی رفقاء اپنے تجویز کردہ رضا ربانی کے نام پر اتفاق کیلئے سابق صدر آصف علی زرداری کو آخری حد تک لے جانا چاہتے تھے تاکہ اگر تو سابق صدر زرداری اپنے روایتی حریف سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کی تجویز مان لیتے تو یہ پاکستان مسلم لیگ ن کی اخلاقی ،سیاسی اور اعصابی برتری ہوتی اگر نہیں مانتے جوکہ نہیں مانی گئی تو صدر زرداری کو اپنی اس مفاہمت کی سیاسی قیمت چکانا ہوگی ، سابق وزیراعظم نوازشریف نے عمدہ چال چلتے ہوئے گیند اپنے روایتی حریف سابق صدر زرداری کے کورٹ میں پھینکے رکھی ، ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں نوازشریف نے یہ ترپ کا پتہ پھینکا تھا ،وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ روز اس حوالے سے دلچسپ صورتحال رہی پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی ’’پہلے آپ پہلے آپ‘‘ کے محاورے کے مصداق ایک دوسرے کی جانب دیکھتی رہیں ،اس اعصابی جنگ کی بدولت ملک بھر کے عوام چیئرمین سینیٹ کے امیدوار کی نامزدگی کے عمل میں گزشتہ رات تک متجسس رہے دونوں سیاسی جماعتوں کے اس کھیل کی بناء پر عوام کی چیئرمین سینیٹ کے انتخابی عمل میں مسلسل دلچسپی برقرار رہی ، تاہم کپتان عمران خان نے پی ٹی آئی کے اپنے سینیٹروں کو بلوچستان کے آزاد گروپ سینیٹروں کی جھولی میں ڈالنے کی ’’پہل‘‘کرکے سابق صدر آصف علی زرداری کی مشکل آسان کرنے میں عمدہ چال ثابت ہوئی ، کپتان نے اپنی اس سیاسی پہل سے نہ صرف پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنے ساتھ غیر فطری اتحاد میں شامل ہونے کی ’’دعوت گناہ‘‘دی بلکہ یہ سابق صدر ایک زرداری سب پر بھاری کو فیس سیونگ بھی فراہم کرنے کی بھی کوشش تھی ،تاکہ سابق صدر زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کو باآسانی دباسکیں کیونکہ چیئرمین سینیٹ کیلئے بطور امیدوار نامزدگی کیلئے تمام انتخابی مہم اور جوڑ توڑ کے عمل میں میاں رضا ربانی نہ صرف پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر نظریاتی شخصیات میں بلکہ ملک بھر کے سینئر ترین اکثریتی سیاست دانوں میں’’ہارٹ فیورٹ‘‘شخصیت کے طورپر ابھر کر سامنے آئے، اس طرح کی قدآور اور متفقہ شخصیت کو مسترد کرنا سابق صدر آصف علی زرداری کے لئے سیاسی طورپر ’’بھاری‘‘ثابت ہونے کا امکان ہے ،جبکہ کپتان عمران خان کا مسلسل یہ موقف رہا ہے کہ وہ آصف علی زرداری کے ساتھ کسی اتحاد میں شامل نہیں ہونگے ، اب اگر وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کے ساتھ کسی اتحاد میں شامل ہورہے ہیں تو یہ ان کا ایک بڑا سیاسی یوٹرن ہوگا، جس کی انہیں بھی بہرحال سیاسی قیمت چکانا پڑے گی ، اب پاکستان پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے چیئرمین سینیٹ کیلئے متفقہ امیدوار صادق سنجرانی ہیں جبکہ اب مسلم لیگ ن بھی اپنا امیدوار سامنے لے آئے گی ، جو بھی امیدوار چیئرمین سینیٹ بننے میں کامیاب ہوگا اس کا تقابل ہروقت سابق قدآور چیئرمین رضا ربانی سے ہوگا جوکہ ائندہ منتخب ہونے والے کسی بھی چیئرمین کیلئے کٹھن چیلنج ہوگا ، اب دیکھنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی پٹاری سے کیا نکلتاہے اور وہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدہ پر کن شخصیات کو امیدوار نامزد کرتے ہیں، مریم نواز نے ’’روک سکو تو روک لو‘‘ کا نعرہ تو لگارہی ہیں اگرچہ عوامی مقبولیت کے حوالے سے تو وہ اس چیلنج سے عہدہ برآں ہورہی ہیں لیکن ایسے لگ رہاہے کہ جو قوتیں سینیٹ میں مسلم لیگ ن کو روکنا چاہتی ہیں انہیں پاکستان پیپلزپارٹی اور پی ٹی ٓئی کا اتحاد قائم کرنے میں تو کامیابی ملی ہے،تاہم دونوں جانب سے نمبر گیم پوری ہونے کے دعوے کئے جارہے ہیں ، آج زور دار جوڑ پڑے گا ،دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائیگا۔
تجزیہ سہیل چودھری