تکریمِ نسواں مارچ بمقا بلہ عورت مارچ

تکریمِ نسواں مارچ بمقا بلہ عورت مارچ
تکریمِ نسواں مارچ بمقا بلہ عورت مارچ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


خواتین کے عالمی دن پر جہاں بہت سی خواتین تنظیموں اور این جی اوز نے اپنے اپنے ایجنڈے اور انداز سے خواتین کے حقوق پر آواز بلند کی، وہاں جماعت اسلامی کے شعبہ خواتین نے بھی تکریم نسواں مارچ کے ذریعے پاکستانی خواتین کے مسائل اور مشکلات کو اجاگر کیا، جس میں قابل ستائش بات یہ تھی کہ خواتین کے حقوق کی بات نہایت عمدہ اور بہترین انداز میں پیش کی گئی، جس میں نہ صرف پردے اور حجاب کا خاص خیال رکھا گیا تھا، بلکہ ان خواتین نے اسلامی اقدار، شرم وحیا اور پاکستان کے کلچر کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی، جو امت محمدیؐ کا خاصہ ہے۔ ان خواتین نے دنیا کو ایک بار پھر یہ باور کروا د یا کہ مسلمان خواتین کی مرضی اللہ اور اْس کے رسولؐ کی مرضی میں ہے۔رب ذولجلال کی قا ئم کردہ حدود و قیود ہی مسلمانوں کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔ پوری اْمت اور اس کا تہذ یب و تمدن دنیا بھر میں ان حدود و قیود کا پابند ہے۔ اسلام کے ان درخشاں اصولوں کی پاسداری نہ صرف ان پر فرض ہے، بلکہ ان حدود سے باہر نکلنے کا مقصد کسی بھی معاشرے کی تباہی اور بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔


اسلام نے دنیا کو ایک بہترین معاشرتی نظام عطا کیا ہے، جس کی روشنی میں پوری نوع انسانی اپنے اپنے حقوق کے مطابق بآسانی زندگی بسر کر سکتی ہے۔ ہر طبقہ خواہ وہ مرد ہو یا خاتون، بچہ ہو یا بوڑھا، شوہر اور بیوی، اولاد اور والدین، دوست اور رشتہ دار یہاں تک کہ ہمسا یوں تک کے حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اسلام نے جانوروں تک کے حقوق متعین کر رکھے ہیں۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بہترین اسلامی و فلاحی اور معاشرتی نظام کو حقیقی معنوں میں رائج کیا جائے، جس کی کمی بہرحال ہم کسی حد تک پاکستانی معاشرے میں شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہزار سال سے بر صغیر پاک و ہند میں دوسرے مذاہب اور تہذ یبوں کے ساتھ رہتے رہتے جہاں مسلمانوں کی تہذ یب اور کلچر کو دوسری قوموں نے اپنایا، وہاں پر مسلمانوں نے بھی ان کے کلچر اور تہذیب کو کسی حد تک اپنی زندگیوں میں شامل کیا ہے،جس کے پا کستا نی معاشرے پر گہرے اثرات موجود ہیں،اسی وجہ سے کسی حد تک خوا تین کے حقوق کا استحصال بھی ہو رہا ہے اور اس استحصالی نظام کو اسلام کے بہترین اْ صولوں کو عملی طور پر رائج کر کے ہمیشہ کے لئے دفن کیا جا سکتا ہے۔ ان مسا ئل میں جہیز کی لعنت، خوا تین کی تعلیم، وراثت میں حق، ہر شعبہء زندگی میں ان کی نمائندگی اور سب سے بڑھ کر ان کو محفوظ معاشرہ فراہم کرنے جیسے مسائل موجود ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں بد قسمتی سے قوانین موجود ہونے کے باوجود ان پر اْس طرح عمل نہیں ہوتا، جس طرح اس پر عمل درآ مد ہونا چاہیے۔ اسی وجہ سے معاشرے میں خواتین اپنے آپ کو بے بس، لا چار اور مجبور سمجھتی ہیں۔ مَیں جب محفوظ معاشرے کی بات کرتا ہوں تو اس کا مقصد بہت واضح ہے کہ پاکستان میں خواتین کو حقیقی آزادی ملنی چاہیے، وہ حقیقی آزادی کہ جس کا حکم اللہ اور اس رسولؐ نے دیا ہے کہ جس میں خواتین پر ظلم اور تشدد کی سختی سے مما نعت ہے۔ بیوی کے حقوق اور اس کو عزت اور تکریم دینے کا حکم ہے،بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بہو کو خاندان میں اس کا اصل مقام دینے کا حکم ہے، بیٹیوں کی شادی میں جہاں والدین کی مرضی مقدم ہے اور والدین کے خاص حقوق ہیں، وہاں پر بیٹیوں کی رضا مندی بھی ضروری ہے، تاکہ خا ندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو۔


افسوس کے ساتھ کہنا پڑ تا ہے کہ پاکستان میں خواتین کو دبا کر رکھنے کو مردانگی کی علامت سمجھا جاتا ہے جو اسلام کے احکامات کے منافی ہے۔ درحقیقت یہ سب خرا بیاں پاکستانی معاشرے میں دوسری قوموں کے ساتھ ہزار سال تک رہنے کا تحفہ ہیں،کچھ لا علمی اور اسلام سے دوری بھی اس کا مؤجب ہے۔ اسلام نے خواتین کو نہ صرف مردوں کے مساوی حقوق دئیے ہیں،بلکہ ان کو معاشرے کا اہم ترین حصہ قرار دیا ہے۔ قرآن میں سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر خواتین کے حقوق اور ان کے ساتھ معاملات پر مکمل راہنمائی عنائت فرمائی ہے، جس پر عمل کرکے ہی ہم حقیقی طور پر اللہ کے سامنے سرخرو ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام نے ان کو جس قدر بلند مقام اور عزت عطا فرمائی ہے، اس کی مثال کسی بھی معاشرے میں نہیں ملتی، مگر ہمارا اصل مسئلہ کم علمی ہے،دین سے دوری ہے،اسلام پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد میں کمی ہے،جہالت ہے،دوسری قوموں سے لی گئی معاشرتی اقدار ہیں، جن کا نہ تو اسلام سے کو ئی تعلق ہے اور نہ ہی مسلمانوں سے کو ئی لینا دینا۔ برطانیہ،یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں خواتین کے حقوق پر جب بھی بات ہوتی ہے تو مسلمان خواتین ہمیشہ حجاب کو اسلامی شعار میں اہم ترین جزو قرار دیتی اور اس کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لئے جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں۔ اس کی مغربی معاشرے میں بے شمار مثالیں موجود ہیں جس کی وجہ سے آج مغرب ان کے اس حق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔


دوسری طرف اگر عورت مارچ کا جائزہ لیں تو فرق صاف ظاہر ہے کہ اس مارچ میں خواتین کی تعداد تکریم نسواں مارچ کی نسبت بہت کم تھی اور جن خواتین نے اس مارچ کو آرگنا ئز کیا، وہ خود بھی اس مارچ کے حقیقی معنوں اور مقاصد سے یکسو نظر نہیں آ رہی تھیں۔ عورت مارچ کے آرگنائزرز نے اپنی بات کو اس انداز میں میڈیا کے سامنے پیش کیا کہ مارچ سے قبل ہی اس کو ایک متنازعہ مسئلہبنا دیا گیا۔ پاکستان میں اس قسم کی کاوش کے دو ہی مقاصد ہو سکتے ہیں …… اوّل یہ کہ اس کو جان بوجھ کر متنازعہ بنایا جائے تاکہ زیادہ سے میڈیا کوریج حاصل کی جا سکے، دوسرا یہ کہ اس کا انعقاد کرنے والی این جی او کے لئے غیر ملکوں سے زیادہ سے زیادہ فنڈنگ حا صل کی جا سکے …… اگر میرا تجزیہ درست ہے تو عورت مارچ کے منتظمین ان دونوں مقا صد میں کامیاب رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا نے عورت مارچ کے منتظمین کو اپنے مقاصد میں کامیاب کرنے کے لئے شاید غیر ارادی طور پر مدد فراہم کی اور ان کو وہ کوریج دی گئی کہ جو تکریم نسواں مارچ کے منتظمین کو نہیں دی گئی۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ عورت مارچ میں جو پلے کارڈز اور سلوگن، یعنی نعرے،منتخب کئے گئے تھے، ان سے صاف ظاہر تھا کہ ان کا مقصد کسی بھی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ اس کے مقاصد کچھ اور ہی ہیں۔ اگر ان کا مقصد واقعی خواتین کے مسائل کا حل ہوتا تو یہ بھی جماعت اسلامی کے شعبہ خواتین کی طرح خواتین کے حقوق کے بل مرتب کرکے اسمبلی میں پیش کرتے اور اس انداز سے ان کو معاشرے میں پیش کیا جاتا کہ اس کو پذیرائی مل سکے اور قوم ان حقوق کو تسلیم کرے۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی کے شعبہ خواتین نے ابھی تک سترہ بل قومی اسمبلی میں پیش کئے اور ان کو منظور بھی کروایا جو اس بات کا مْنہ بولتا ثبوت ہے کہ ان کی نہ صرف سمت درست ہے، بلکہ یہ حقیقی طور پر مسلمان خواتین کی نمائندہ ہیں۔ بہرحال شرکا کی تعداد سے صاف ظاہر تھا کہ پاکستان کی غیور خواتین نے پاکستان میں اپنے مستقبل کا فیصلہ سنا دیا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -