10مارچ 2020ء سے 2021ء تک کا ڈرونا سفر!
زندگی کا سفر تو جاری ہے اور جاری رہے گا مگر 10مارچ 2020ء سے اس دنیا میں کورونا کی شکل میں برپا ہونے والا انقلاب کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔ کورونا عالمی وبا کی صورت میں گزشتہ سال چین سے شروع ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب تک متاثر ہونے والوں کی تعداد کروڑوں میں جبکہ مرنے والوں کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچی ہے۔ بغیر مبالغہ کے میں نے گزشتہ ایک سال میں جتنے جنازے پڑھے ہیں۔ شائد اپنی پوری زندگی میں نہیں پڑھے ہوں گے۔ مارچ کے ہی دن تھے آج کی طرح ہمارے وفاقی وزیر تعلیم ٹاپ ٹرینڈ تھے۔وفاقی وزیر اسد عمر کے ساتھ تعلیمی ادارے سنیما ہال، شاپنگ مال، مساجد، مزار مدارس اور بازار کھولنے اور بند کرنے کا اعلان کر رہے تھے۔
پھر عالم دنیا نے دیکھا کورونا وبا کی آڑ میں عالم اسلام کے خلاف کیا کیا پروپیگنڈا ہوا۔ میں 8مارچ 2020ء سے پہلے کی حرم شریف میں جاری طواف کے مناظر دیکھ رہا تھا روح پرور مناظر درجنوں ہاتھ غلاف کعبہ کو پکڑے ہوئے رب کریم کو اس کے گھر کا واسطہ دے کر اپنی نظریں نیلے آسمان کی طرف اٹھائے رحمت خداوندی مانگ رہے تھے۔ سینکڑوں مسلمان احرام کی سفید چادروں میں خانہ کعبہ کے گرد ربّ کی کبیریائی بیان کرتے ہوئے گریہ زاری میں مصروف تھے اسی وقت مسجد نبوی میں سینکڑوں افراد روضہ رسول ﷺ کے ہاں حاضری دیتے ہوئے سلام پیش کر رہے تھے اور ہزاروں مرد و خواتین مسجد نبویؐ میں نمازوں کے ذریعے سربسجود تھے اور اللہ سے گناہوں کی توبہ اور دنیاوی آزمائشوں سے بچنے کی دعائیں کر رہے تھے اور پھر اللہ کی طرف سے آزمائش کا آغاز ہوا۔
حرمین شریفین کے دروازے بند ہو گئے۔ طواف رک گیا، عالم اسلام نے وہ کچھ دیکھا جو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ عمرہ اور حج بند ہونے کا تصور نہ کرنے والوں نے پوری دنیا کی ایئر لائنز بند ہوتے دیکھی منہ ڈھانپنے کو جرم قرار دینے والے منہ کو زبردستی ڈھانپنے کے احکامات جاری کرتے دیکھے گئے۔ پوری دنیا کا نظام جل تھل ہو گیا۔ کورونا کی وبا اور موت کے خوف نے دنیا کو تل پلٹ کر رکھ دیا۔ المیہ کیا تھا موت سے بچا جائے۔ چشم فلک نے دیکھا دنیا کی سب سے بڑی حقیقت موت نے میاں کو بیوی سے باپ کو بیٹے سے دور کر دیا اور ایک ہی صف میں مل کر کھڑا ہونے کا درس دینے والے دور دور کھڑا ہونے کا جواز پیش کرتے نظر آئے۔ قیامت سے پہلے ہم نے اپنی زندگی میں بغیر غسل اور بغیر جنازہ کے دفن کرتے دیکھا۔ ہم نے اپنے اردگرد منڈلاتی موت کے سائے دیکھے اور پھر گھروں میں چھپ کر ایک دوسرے کو یہ کہتے ہوئے وہ بھی گیا وہ بھی گیا60سال کا تھا،50سال کا،40سال کا تھا اسے کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ اچانک سانس بند ہو گیا۔10مارچ 2020ء سے 10مارچ 2021ء تک کے ڈراؤنے سفر میں جتنے علماء اکرام اس دنیا سے گئے جتنے دانشور اس دنیا سے گئے جتنے صحافی اور استاد اس دنیا سے چلے گئے جتنے صحافی اور استاد اس دنیا سے چلے گئے ریکارڈ پر لانا مشکل ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے دنیا میں آنے اور جانے کا عمل روکنے کی بجائے تیز ہوا اگر کہا جائے جانے والوں کی رفتار میں کئی گنا اضافہ ہوا تو بے جا نہ ہوگا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اتنا کچھ ہو گیا لاکھوں سپنے اور ہزاروں اپنے ہمیں چھوڑ گئے مگر ہم نے سیکھا کچھ بھی نہیں ہم نے 5روپے والا ماسک 100میں بیچا۔ ہم نے 50روپے والا ماسک 500میں بیچا۔ پوری قوم موت کے خوف سے جب چھپ کر دکانیں، بازار،سنیما، سکول،مساجد بند کرکے گھروں میں چھپ کر بیٹھی تھی۔ ہم مسلمان ہی تھے جو سب سے زیادہ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں میں شامل تھے۔ ہم ہی گھر بیٹھ کر دو نمبر سینی ٹائزر، دو نمبر ماسک اور دو نمبر ڈیٹول بنا کر لوٹ مار کا پروگرام تشکیل دے رہے تھے۔ ہم ہی تھے جو دو نمبر ادویات اور 5روپے والی جڑی بوٹی دو ہزار میں دستیاب ہے کے پیغام کو وائرل کر رہے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے جب بھی قوموں پر آزمائش آئی قوموں نے عبرت پکڑی اور سدھر گئی تائب ہو گئیں اللہ کے آگے سربسجود ہو گئیں ہم عجیب قوم ہیں آزمائش میں اور بھی زیادہ خوچل بے شرم ہو گئے۔ 10مارچ سے 10مارچ 2021ء تک جو ہم نے عبرت حاصل کی جو سبق سیکھا وہ پتہ کیا ہے؟ہم نے سروے کرواتے دیکھا جب چاروں اطراف موت رقص کر رہی تھی ان دنوں کون سا کاروبار بند نہیں ہوا۔ ہم نے ایک سال میں پھر یہ بھی دیکھ لیا دنیا علماء اکرام کے جانے سے سوگوار تھی مگر شیطانی ذہن منصوبہ ساز سے زیادہ منافع کی دوڑ نے ایک سال میں میڈیکل سٹور کی تعداد 8گنا بڑھا دی۔ کھانے پینے کے کاروبار میں 3گنا اضافہ ہو گیا۔
ایک سال میں لیبارٹری کی تعداد میں 6گنا اضافہ ہو گیا۔ ہسپتالوں کی تعداد میں 4گناہ اضافہ ہو گیا۔ ہم ڈھیٹ قوم میں کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا نظریہ ضرورت بنا چکے ہیں۔ سکول اور مساجد بند کرنے والوں کو کبھی سبزی منڈیاں اور بازار نظر نہیں آئے۔ تعلیمی اداروں کو بند کرکے کورونا کے آگے پل باندھنے کا دعویٰ کرنے والوں کو کبھی یہ دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ نئی نسل پاکستان کا مستقبل تعلیمی اداروں سے دور رہ کر اپنے گھروں میں والدین کا کتنا فرمانبردار رہے گا۔ گھر کی چار دیواری میں کب تک رہے گا۔ بڑے بڑے ممالک نے تعلیمی ادارے بند نہیں کئے۔ حرمین شریفین، مساجد مدارس اور تعلیمی ادارے اگر بند ہوئے ہیں تو اسلامی ممالک میں ہم تعلیم سے دور ہو کر تعلیمی اداروں سے بچوں کو دور رکھ کر امت مسلمہ کی خدمت نہیں کر رہے۔ ہم اخلاقی قدروں کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ دو عملی کا شکار ہیں اب بھی وقت ہے 60فیصد نوجوانوں کے حامل پاکستان کے مستقبل کو بچانے کے لئے جذبات سے نہیں ہوش سے فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔ آزمائشوں سے عبرت اور سبق لیا جاتا ہے۔ توبہ کی جاتی ہے۔ رحمت خداوندی طلب کی جاتی۔ ہمارے ہاں الٹی کنگا بہہ رہی ہے۔ ہم نے کچھ نہیں سیکھا، بلکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے بغاوت کر دی ہے۔8مارچ کو عورت مارچ میں جو نعرے لگے ہیں۔ اللہ کو للکارا گیا ہے، اللہ کو سنایا گیا ہے۔ اولیا کو سنایا گیا ہے۔ پاک ہستیوں کی توہین کی گئی ہے۔ یہ بڑے طوفان اور عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
جناب وزیراعظم مدینہ کی ریاست ایسی نہیں تھی،فرانس کے جھنڈے لہرانے والے کیا سبق دے رہے ہیں۔ خدارا دو عملی کب تک عوام بڑی مشکل میں ہے۔ اب بھی وقت ہے موت سے بھاگنے کی بجائے آیئے مل کر اس کی تیاری کریں اور انفرادی اور اجتماعی توبہ کے ذریعے سربسجود ہو جائیں۔