غیر جانبداری کا امتحان
ایک اہم وفاقی وزیر سے ملاقات ہوئی تو حیرت انگیز طور پر انہیں بڑی سرکار کی برائیاں کرتے ہوئے پایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر شعبے کو خود کنٹرول کرنے کی کوشش میں اسٹیبلشمنٹ اپنے پر بہت زیادہ پھیلا بیٹھی ہے۔ایسے میں دوسروں کے لیے گنجائش ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے - جب ان سے پوچھا گیا پھر اس کا حل کیا ہونا چاہئے تو انہوں نے کاندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔جو حلقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ نواز شریف کا بیانیہ عوام میں مقبول نہیں ہو سکا وہ جان لیں کہ خود حکومتی عہدیدار بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں۔ راولپنڈی پہلے کی طرح وزیر اعظم عمران خان کے پیچھے تو کھڑا ہے مگر اب خواہش یہی ہے کہ ان کا ذکر نہ کیا جائے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ ہم غیر جانبدار ہوچکے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ حکومت کی رخصتی کے خواہش مند ہیں بلکہ یہی چاہتے ہیں کہ نظام اسی طرح چلتا رہے۔ اپوزیشن کی تحریک اور تقاریر کے حوالے سے ایک سرکاری افسر نے بیزاری سے اپنے کمرے میں نصب بڑی ٹی وی سکرین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگ جلسوں میں دھواں دھار خطاب کرتے ہوئے اہم ملکی شخصیات کے نام لے کر الزام لگانا شروع کردیں تو پھر رعب، دبدبہ، کیونکر باقی رہ سکتا ہے۔ ایک کیمپ میں تو یہ صورتحال ہے دوسری جانب پی ڈی ایم کے ایک اہم رہنما بھی شکوے شکایات کرتے پائے گئے۔
سخت گیر موقف والے اس لیڈر نے قدرے نرم انداز میں اپنے ہی ساتھیوں سے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ تحریک بالکل درست سمت میں آگے بڑھ رہی تھی۔ ایسے میں ضمنی انتخابات اور سینٹ الیکشن میں حصہ لینے سے نہ صرف مہم متاثر ہوئی بلکہ توجہ بھی تقسیم ہوئی ورنہ عوامی دباؤ کے ذریعے مقاصد زیادہ اچھے طریقے سے حاصل کیے جا سکتے تھے۔ تاہم اس بڑے لیڈر کا یہ کہنا تھا تمام تر شکایات کے باوجود ان کی اولین ترجیح اور کوشش یہی رہے گی کہ پی ڈی ایم کا اتحاد موجودہ شکل میں قائم رہے۔ اپوزیشن اتحاد کی جانب سے سیاسی چالیں چلنے کی ذمہ داری آصف زرداری نے لے رکھی ہے۔ سینٹ کے انتخابات کے حوالے سے انہوں نے دیگر اپوزیشن قائدین کو یقین دلایا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ فریق نہیں بنے گی۔ پنجاب میں بلا مقابلہ انتخاب کے بعد کے پی کے اور بلوچستان میں بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کی گئی مگر کامیابی نہیں ملی۔ سندھ میں پی ٹی آئی کے باغی ارکان کو قابو کرنے کے لیے کئی افسر حرکت میں آئے۔ پھر بھی دو ارکان کو نہ منا پائے۔ اسلام آباد میں حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان مقابلہ سخت ہوتا دیکھ کر غیر جانبداری کا لبادہ اتارنا پڑا۔ پھر وہ موقع بھی آیا کہ آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ کو فون کرکے وعدہ خلافی کی نشاندہی کی۔ آصف زرداری کو یقین دہانی کرائی گئی کہ ان کی شکایت کا جائزہ لیا جائے گا۔ مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو کے مصداق حالات و واقعات جوں کے توں رہے۔
الیکشن کی رات معاملات اس حد تک بگڑے کہ مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے آصف زرداری کو مشورہ دیا کہ ارکان پر دباؤ ڈالنے والے عناصر کو قوم کے سامنے بے نقاب کرنے کے لیے پریس کانفرنس کی جائے۔اگلے روز یوسف رضا گیلانی الیکشن جیت گئے تو آصف زرداری نے کہا کہ ہماری لیڈ کم ازکم 20 ووٹوں کی ہونا چاہئے تھی جب کہ شاہد خاقان عباسی کے بقول یہ 30 تھی۔ سید یوسف رضا گیلانی کے سینٹ میں آجانے سے حکومت کو جو جھٹکا لگا اس کے اثرات سے نکالنے کے لیے سرپرست اب تک پوری طرح سے متحرک ہیں۔ سادہ سی بات ہے ق لیگ کو عمران خان یا پی ٹی آئی سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے، ان کے سیاسی جانشین مونس الٰہی کو جس طرح دھتکارا گیا وہ ناقابل فراموش ہے۔ عمران خان اور ان کی کور ٹیم چودھری برادران اور مونس الٰہی کو پنجاب میں اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ سو یہ طے کیا گیا کہ وعدے کے مطابق مونس الٰہی کو وزارت دینے کی بجائے ان کی کردار کشی کی جائے۔ تاکہ نوجوان سیاستدان کو زیادہ موثر کردار ادا کرنے سے روکا جا سکے۔ ق لیگ کے لوگ عمران خان کو نہ صرف ناپسند کرتے ہیں بلکہ ایسے الفاظ سے یاد کرتے ہیں جو ناقابل اشاعت ہیں۔ ایم کیو ایم کی سیٹیں چھین کر پی ٹی آئی کو عطا کی گئیں۔ ایم کیو ایم کا بس چلے تو پی ٹی آئی کے ساتھ وہی کرے جو اپنے عروج کے زمانے میں سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا کرتی تھی۔ ویسے اس حالت میں بھی اسے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کے ساتھ سندھ حکومت میں شامل ہونے سے مل سکتا ہے۔
زیادہ وزارتیں، زیادہ اختیارات اور کام کرنے کے زیادہ مواقع، ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی مرضی سے پی ٹی آئی کے ساتھ جڑے رہیں۔اسی طرح بلوچستان میں تشکیل کردہ باپ، بلوچستان عوامی پارٹی اسٹبلشمنٹ کے پکے اور روائتی لوٹوں پر مشتمل ہے۔اگر یہ سب ساتھ ہیں تو غیر جانبداری کا دعویٰ بے معنی ہو جاتا ہے۔ جس طرح سینٹ انتخابات کے حوالے سے ریمارکس تھے کہ ووٹ خفیہ بھی رہیں اور یہ بھی پتہ چل جائے کس نے کس کو ڈالا، اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کی بھی کوشش ہے کہ وہ حکومت کے پیچھے کھڑی رہے اور کوئی یہ بھی نہ کہے سب ایک پیج پر ہیں۔ ظاہر ہے یہ ممکن نہیں رہا سو اب ایک بار پھر سے اپوزیشن خصوصا ًن لیگ کے چند رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کا سوچا جارہا ہے لیکن غالبا اس کا وقت بھی گزر چکا۔ ریاستی طاقت کا استعمال الٹا بھی پڑ سکتا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ پے درپے وعدہ خلافیوں کے باعث اب پیپلز پارٹی سمیت کوئی اپوزیشن جماعت اسٹیبلشمنٹ کی یقین دھانیوں پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سینٹ کے انتخابات میں اوور کانفیڈنس کے باعث جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا ازالہ کرنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کے لیے اعتماد کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے پوری طاقت استعمال کی گئی اس کے باوجود آخری وقت تک پسینے چھوٹے رہے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید اعتراف کرچکے ہیں کہ وزیر اعظم نے جس روز اعتماد کا ووٹ لینا تھا اس دن صبح تک تین ارکان اسمبلی کی کمی کا سامنا تھا اور حکومتی کیمپ میں شور مچا ہوا تھا یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بندوں کی گنتی کس نے پوری کی ہوگی۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن کے لیے پھر سے کھل کر تمام ریاستی وسائل استعمال کیے جارہے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ پی ڈی ایم نے ملکی سیاست کی بنیادوں کو ہلا ڈالا۔ یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ عدلیہ اور فوج کی مکمل حمایت اور کئی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ہونے کے باوجود حکمران جماعت کو خود اپنے ہی ارکان سے خطرہ ہے۔ یہ سب اپوزیشن اتحاد کے باعث ممکن ہوا۔اگرچہ اب تک انداز میں فرق ہے۔ نواز شریف بیانیے کو چلا رہے ہیں، مولانا فضل الرحمن نے کئی مرتبہ سٹریٹ پاور شو کر ڈالی، آصف زرداری سیاسی داؤپیچ لگا رہے ہیں۔ فوری طور پر کسی فیصلہ کن اقدام سے قبل اگر یہ سلسلہ ہم آہنگی کے ساتھ جاری رہے تو حکومت اور اس کے سرپرست مشکل میں پڑے رہیں گے۔