ڈنکے کی چوٹ اور ٹف ٹائم
کسی بھی نظام جمہوریت کو کامیابی سے چلانے اور جاری رکھنے کے لئے متعلقہ قوانین و ضوابط پر خلوص نیت سے عمل درآمد لازم ہے،بصورت دیگر مطلوبہ منصوبوں کے عزائم اور نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے…… مثلاً اگر کسی فلاحی مقصد کے عملی اقدامات کی کارکردگی میں مخصوص فنی امور کی تفصیلات پر طے شدہ ہدایات کو بروئے کار لانے کی بجائے نظر انداز کر کے من مرضی کی ترجیحات کو اختیار کیا جائے تو غالب امکان یہ ہے کہ اس منصوبے کی تعمیر و تکمیل بعض کوتاہیوں اور خرابیوں پر مبنی ہونے سے مجوزہ مقاصد کے حصول سے محروم و محدود رہے گی۔ یوں بیشتر پبلک یا پرائیویٹ انداز کے ضخیم فنڈز خرچ کرنے کے باوجود اس منصوبے کی متوقع افادیت اور اہمیت قائم و رائج نہیں ہو سکے گی۔ اگرچہ ایسی کارکردگی کو عملی شکل دینے والے ذہین اور تجربہ کار خواتین و حضرات اور کاریگر اپنی تعریف و توصیف کے بلند بانگ دعوے کرتے رہیں، کیونکہ اس منصوبے کو عملی طور پر رواں دواں رکھنے اور ثمرات حاصل کرنے کے مراحل پر مطلوبہ مثبت اور سود مند نتائج کے حصول کی کامیابی کے امکانات پورے ہونے کی بجائے خاصے کم معیار کے حامل ہو سکتے ہیں۔
سطور بالا کی خشک بیانی سے یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ سیاسی کارکرگی کو آئین و قانون کے متعلقہ اصولوں اور مسلمہ ضابطوں کے تحت ہی روز مرہ زندگی میں رائج و نافذ کرنے سے انسانی مسائل و مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔اگر اس انداز حکمرانی سے انحراف کر کے اندھی طاقت کے استعمال کی زور و زبردستی کے رجحان کو ترجیح دی جائے تو پھر ظاہر ہے کہ قانون شکنی پر مبنی الزامات کی کارروائیوں کے ارتکاب پر جارحیت کار افراد کو قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں اپنی غلط کاریوں کی وضاحت کا جواز پیش کرنا پڑتا ہے۔ اس مرحلے پر تفتیش کے دوران اگر کچھ جرائم وقوع پذیر ہوئے ہوں تو متعلقہ قانونی کارروائی ان پر عموماً لازم کر دی جاتی ہے۔
منصوبہ مذکورہ بالا کی مثال اگرچہ فنی نوعیت کی ہے، مگر اس کی منصوبہ سازی اور عملی تکمیل عموماً جمہوری نظام کے تحت منتخب نمائندوں کی رہنمائی اور نگرانی میں ہی وقوع پذیر کی جاتی ہے۔ اگرچہ وفاقی اور صوبائی سطح کے منتخب نمائندے اپنے اداروں کے معینہ اختیارات رکھتے ہوئے قانون سازی اور ملکی مسائل حل کرتے ہیں۔
آج کے ایک قومی اخبار میں ایک ذیلی سرخی اس طرح ہے ……”حکومت 5 سال ڈنکے کی چوٹ پر پورے کرے گی“…… اس بیان کے ساتھ ایک ترجمان کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ڈنکے کی چوٹ کی اصطلاح ہمارے آئین و قانون کے مطابق درست ہے یا اس میں کسی سیاسی جماعت کے اقتدار کی مدت کو بہر صورت پورا کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ قارئین کرام پر چھوڑا جا رہا ہے کہ کیا یہ اصطلاح وطن عزیز کے موجودہ آئین اور مروجہ سیاسی قوانین کے تحت معقول اور صحیح ہے؟ اگر اہل فکر و دانش کی اکثریت اس کی مذکورہ بالا حدود کے مطابق استعمال پر اپنی پسندیدگی یا ترجیح کا اظہار کرے، تو بلا شبہ اس اصطلاح کو حسب معمول شب و روز جاری رکھا جائے، بصورت دیگر اس کو آئندہ ترک کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح یہاں سیاسی امور میں ایک اور اصطلاح اپنے حریف نمائندوں کو ٹف ٹائم دینے کے بارے میں مستعمل ہے۔ اس میں بھی آئین و قانون اور تہذیب و شائستگی کے آداب و اطوار کو ملحوظ خاطر رکھنے پر ضروری توجہ دینا لازم ہے، جبکہ ٹف ٹائم تو مشکل حالات اور نا موافق نتائج ظاہر کرنے پر مبنی نوید ظاہر کرتا ہے، لیکن حالات اگر آئین و قانون کے منافی ہوں تو پھر سے سب ذمہ دار نمائندوں اور کارکنوں کو گریز کرنے کی ذمہ داری سر انجام دینا ہو گی۔