وہ دن ہوا ہوئے،جب اخلاق پر عمل ہوتا تھا!

وہ دن ہوا ہوئے،جب اخلاق پر عمل ہوتا تھا!
وہ دن ہوا ہوئے،جب اخلاق پر عمل ہوتا تھا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ملک کے حالات سے واقفیت  اب ایک مشکل مرض بن گیا ہے کہ کوئی بھی زود فہم فرد اعصاب پر دباؤ سے فرار حاصل نہیں کر سکتا، تاوقتیکہ وہ دیوانہ ہی نہ ہو جائے، ابھی تک کسی ایسی دیوانگی کی تو اطلاع نہیں لیکن اعصابی کشیدگی عروج پر ہے، میں خود بھی ایسے ہی افراد میں شامل ہوں، بظاہر حالات کے اثرات ایسے ہی ہیں لیکن بابوں نے کہا مایوسی کفر ہے۔ مایوسی گناہ ہے، اللہ سے ہر بہتری کی توقع رکھنا چاہیے اور دعا بلکہ توبہ کرنا چاہیے۔ آج جب ٹی وی کھولا تو بڑی خبر فریضہ حج کے حوالے سے تھی۔ بتایا گیا تھا، اس سال پاکستان کے لئے ایک لاکھ 79 ہزار 210حاجیوں کا کوٹہ منظور ہوا۔ تفصیل سے مجھے غرض نہیں کہ یہ جن کی ذمہ داری ہے، وہی نبھائیں گے میں تو سب کے لئے دعاگو ہوں تاہم بزرگوں (عالموں) سے سنا ہے کہ حج کرنے والا توبہ کرتا اور تائب ہو کر واپس آتا ہے اور پھر حرمین شریفین میں مانگی جانے والی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ یقین کرنا چاہیے کہ یہ حجاج کرام حقیقتاً تائب ہوں اور ملکی اور انسانیت کی بھلائی کے لئے خلوص دل سے دعا کریں گے جو مستجاب ہوں گی۔


یہ دل کی آواز ہے جو تحریر کر دی مجھے تو آج اپنے معاشرے کی بات کرنا ہے۔یہاں جھوٹ اور فریب بڑھ گیا اور نیکی یا بااخلاق معاشرتی زندگی عنقا ہوتی جا رہی ہے، میں آج بھی وہ دور یاد کرتا ہوں، جب منفعت بخش نوکری چھوڑ کر بے کاری اختیار کی کہ بددیانتی نہیں ہوتی تھی اور مجھ جیسے بندے کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا، یہ اللہ کی مہربانی ہی تھی اور ہے کہ 1963ء میں مجھے پیشہ صحافت اختیار کرنے کا موقع مل گیا، روزنامہ امروز سے ایک تربیتی کارکن کے طور پر سفر کا آغاز کیا اور آج زندگی کے آخری لمحات تک بھی وابستہ ہوں، اللہ نے یہاں اپنی رحمت کے سائے میں رکھا اور کسی طرف سے دباؤ نہ پڑا اور نہ ہی لالچ نے جگہ پائی اس کے باوجود خود کو قصور وار اور گناہ گار جانتا ہوں کہ بعض غلطیوں اور کوتاہیوں کے باوجود دامن بچا کر وقت گزار لیا ہے۔ عاجزانہ طور پر صرف اتنا عرض کرکے آج کے موضوع کی طرف آتا ہوں کہ کئی بار دباؤ اور خوفناک انجام کی دھمکیوں اور کئی مدارج تک ترقی کی پیشکشوں کے باوجود اللہ نے ثابت قدم رکھا اور دعا ہے کہ قبر تک یہ سلسلہ سلامت رہے۔


میں نے جب پیشہ صحافت میں قدم رکھا تو روزنامہ ”امروز“ کا ماحول بڑا دوستانہ اور خوشگوار تھا، سینیار ٹی کے حوالے سے احترام کا رشتہ تھا تاہم باسنگ نہیں تھی، یہ 1963ء کا دور، ایوب خانی آئین نافذ اور نیشنل پریس ٹرسٹ بن چکا تھا اور امروز + پاکستان ٹائمز اس کی تحویل میں تھے۔ تب جبر کا دور ضرور تھا لیکن ہمارے سینئرز سچ کے لئے بھی راستہ نکال لیتے تھے، یہ بات مجھے آج تک یاد ہے کہ اس دور میں بھی جب بات ہوتی تو کہا جاتا کہ معاشرہ انحطاط کی طرف گامزن ہے اور اہلیت کو زنگ لگ رہا ہے۔ وہ دور اچھا تھا، بہتر تربیت ہوئی، خصوصی طور پر روائت تھی کہ خبر اور تحریر میں انداز مہذب ہونا چاہیے اور کوئی لفظ کسی فرد کی توہین کا مظہر نہ ہو، مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اگر کوئی ریپ کیس رپورٹ ہوتا تو احتیاط کی جاتی متاثرہ فریق کا نام نہ لکھا جاتا اور الفاظ بھی بہتر استعمال ہوتے، پھر دیکھتے دیکھتے بات کچھ آگے بڑھی اور شناخت چھپا کر متاثرہ فرد کے نام کا پہلا لفظ لکھ دیا جاتا تھا، پھر جب سیاسی رپورٹنگ کا دور شروع ہوا تو یہ ہدایت ملی کہ بولنے والے بہت کچھ کہتے ہیں، رپورٹر کا کام سب کچھ رپورٹ کرنا نہیں،اسے خود اپنی تحریر کو شفاف رکھنا ہو گا اور کوئی غیر مہذب لفظ تحریر نہیں ہوگا، چنانچہ یہ نصیحت پلے باندھ لی، بعد میں بھی اسی پر کاربند رہے، ماسوا اس امر کے کہ بعض ٹوٹے چلانا پڑ جاتے تھے تاہم وہ بھی غیر اخلاقی نہیں ہوتے تھے۔


سیاسی رپورٹنگ کے دوران مجھے محترم سیاسی رہنماؤں کے رویے اور اخلاق کا بھی تجربہ ہوا، نوابزادہ نصراللہ اور مفتی محمود سمیت عبدالولی خان اور دوسرے حضرات مخالفوں کے نام بھی ادب سے لیتے۔ نوابزادہ نصراللہ خان،ہمیشہ ایوب صاحب، جناب بھٹو اور جنرل ضیاء الحق صاحب کہا کرتے، سخت سے سخت بات کی لیکن دائرہ اخلاق سے باہر نہ نکلے، مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک بار جنرل ضیاء الحق نے قبلہ شاہ احمد نورانی کا حوالہ دے کر کہا وہ پان بہت کھاتے ہیں، جب ہم رپورٹروں نے اسلام پورہ والے جے یو پی کے دفتر میں مولانا شاہ احمد نورانی قبلہ سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا ”جناب! ضیاء الحق بھی تو ”ڈَن ہل“ کے سگریٹ پیتے ہیں، یہ الگ بات کہ ایک وقت آیا جب نورانی صاحب نے پان اور ضیاء الحق صاحب نے سگریٹ پینا چھوڑ دیئے۔ پیر علی مردا ن شاہ پیر آف پگارو، ذوالفقار علی بھٹو اور ایسے سیاستدان جو صاحب حیثیت تھے آرام دہ زندگی گزارتے تاہم تعیش سے گریز اور اپنی سرگرمیوں کو محفوظ رکھتے تھے جبکہ مفتی محمود، مولانا مودودی، نوابزادہ نصراللہ خان، مولانا عبدالستار نیازی اور مولانا شاہ احمد نورانی جیسے حضرات سادہ زندگی گزارتے تھے۔ مولانا عبدالستار خان نیازی لکشمی بلڈنگ لکشمی چوک کے سب اوپر والی چھت کے ایک کمرے میں رہے۔ مولانا نورانی لاہور آتے تو ان کی رہائش جمعیت کے دفتر میں ہوتی اور وہ فرش پر سرہانے اینٹ رکھ کر سو جاتے تھے۔ نوابزادہ نصراللہ نے ساری سیاسی زندگی نکلسن روڈ پر جمہوری پارٹی کے دفتر والے ایک کمرے میں گزار دی۔ آج تک ان اصحاب کے حوالے سے کوئی کرپشن کہانی سامنے نہیں آئی ان کی سیاسی زندگی سیاسی مسائل ہی کے حوالے سے گزری آج بھی ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔


آج کا جو دور ہے اس میں دشنام اور الزام تراشی کا سلسلہ کہیں رکنے کی بجائے دراز ہوتا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف بڑھ چڑھ کر غیر مہذب اور اخلاق سے گرے الفاظ استعمال ہو رہے ہیں کسی کو یہ خیال نہیں کہ اس سے ہماری موجودہ نسل بھی متاثر ہوتی ہے۔ مزید دکھ تو یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا میں اس گئے گزرے دور میں بھی احتیاط ہوتی ہے لیکن الیکٹرونک میڈیا تو ایسے الفاظ نشر کر دیتا اور ہمارے اینکر بھائی بھی ایسی گفتگو کو مصالحہ دار جانتے ہیں یوں یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے مجھے دکھ تو یہی ہے کہ اب کئی معتبر دوست سوشل میڈیا کی رو میں  بھی بہہ رہے ہیں اور نہ صرف اسی انداز میں بات کرتے ہیں بلکہ خود بھی بلاگر بن گئے ہیں۔ ہمارے الیکٹرونک میڈیا والوں کے پاس ایڈیٹنگ کی صلاحیت اور ٹیکنالوجی موجود ہے جو کبھی کبھار استعمال بھی کی جاتی ہے لیکن پھر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے براہ راست نشر کر دینے کی نسبت پہلے خود سن کر سامعین اور قارئین سے بچانے کے لئے ایڈیٹنگ پر زیادہ توجہ دینا اور محنت کرنا ہوتی ہے دوسری طرف حکومتی ارباب کے پاس نسخہ ہے کہ میڈیا پر تقریر بند کروا دو۔ کئی بار ایسا ہوا اور کئی بار عدلیہ نے ایسی پابندی کو ختم کر دیا اس کے باوجود یہ سلسلہ برقرار رکھا جاتا ہے۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ (Liable) توہین والے قوانین کو زیادہ بہتر بنایا جائے تاکہ متاثرہ حضرات کارروائی کر سکیں۔ حکومت کو الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے لئے مشاورت سے ضابطہ اخلاق والا مرحلہ مکمل کرنا چاہئے۔ میری دعا اور خواہش ملک کے حوالے سے ہے۔یہ ہمارا وطن ہے ہم بڑے لوگ بھی نہیں کہ ملک چھوڑ جائیں۔ ہماری آخرت تو یہیں ہے۔

مزید :

رائے -کالم -