پارلیمان سے صدر مملکت کا خطاب اور پی ٹی آئی کا رویہ

  پارلیمان سے صدر مملکت کا خطاب اور پی ٹی آئی کا رویہ
  پارلیمان سے صدر مملکت کا خطاب اور پی ٹی آئی کا رویہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان اس وقت حالتِ جنگ میں ہے، جب 2001ء میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کیا تو پاکستان کو اس جنگ میں کودنا پڑا۔ پاکستان کے پاس اس امریکی جنگ میں شریک ہونے کے سوا کوئی بھی دوسرا آپشن نہیں تھا کیونکہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے اعلان جنگ کرتے ہوئے کہا کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں اور نہیں کی صورت میں نتائج بھگتنا ہوں گے۔گویا پوری دنیا کو واضح طور پر بتا دیا گیا کہ دہشت گردی کی عالمی جنگ میں امریکی حلیف بننے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہوگا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ ناٹو ممالک ہوں یا ایساف فورسز، درجنوں ممالک کی سپاہ امریکی پرچم تلے افغانستان پر حملہ آور ہوئیں۔ پاکستان کی زمین و فضا امریکی بوٹوں کی زد میں آ گئیں۔ کراچی کے ساحلوں سے لے کر طورخم بارڈر تک امریکی اسلحے و سامان رسد سے لدے ٹرالروں نے ہماری سڑکوں کا بیڑہ غرق کیا۔ ہماری سرزمین پر امریکی اڈے قائم ہوئے جہاں سے لڑاکا طیارے اور ڈرون اڑتے اور افغانستان میں تباہی پھیلاتے بلیک واٹر اور سی آئی اے کے ایجنٹوں نے بھی یہاں قدم جمائے۔ امریکہ بیس سال تک یہاں لڑتا رہا، حتیٰ کہ 2021ء میں ناکامی کا داغ لئے یہاں سے رخصت ہو گیا لیکن اس دوران یہ جنگ پاک افغان بارڈر سے پھسلتی پھسلتی، پاکستان کے بندوبستی علاقوں تک پہنچی اور پھر کراچی کے ساحلوں تک پھیل گئی۔ آج اس دہشت گردی کی وحشت پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے۔ ہمارے دو صوبے بالخصوص دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں، جنہیں نہ صرف ہمارے ازلی دشمن انڈیا کی امداد حاصل ہے، بلکہ کابل میں حکمران طالبان بھی ہمارے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں تمام دہشت گرد گروپ بشمول ریاست دشمنی قوم پرست ریاست پاکستان کی رٹ اور عملداری کو چیلنج کر رہے ہیں۔ چھوڑے گئے امریکی ہتھیاروں کی دستیابی نے ان کی حربی اور ضربی قوت میں اضافہ کر دیا ہے وہ آگے بڑھ بڑھ کر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ بنوں میں دہشت گرد حملہ ہو یا مدرسہ حقانیہ میں خودکش حملہ، اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ پاکستانی معیشت سنبھل رہی ہے لیکن مشکلات کا شکار ہے اس میں کھلے پن کے آثار نظر نہیں آ رہے، آئی ایم ایف کا شکنجہ اور بھی سخت ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بجٹ 2025ء نے عوام کی مشکلات میں کمی نہیں کی ٹیکس جمع کرنے کے بلند ہدف نے عوام کی مشکلات بڑھائی ہیں اس کے باوجود آٹھ مہینوں کے بعد 600ارب روپے کا شارٹ فال معاشی بدحالی کا ثبوت ہے ہم قرض واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ہم کبھی سعودی عرب سے کہتے ہیں کہ ہمیں ادھار پر تیل دے دو ہم ادائیگی ابھی نہیں کر سکتے۔ کبھی یو اے ای کو کہتے ہیں کہ ہمارے خزانے میں پڑے ہوئے تمہارے پیسے ہمارے لئے ضروری ہیں انہیں واپس نہ نکالو بلکہ ابھی ایک سال کے لئے اور پڑے رہنے دو تاکہ ہم بدحالی کا مقابلہ کر سکیں۔ کبھی ہم چین کو کہتے ہیں کہ ہم ابھی اپنے ذمہ قرض کی قسط ادا نہیں کر سکتے ہیں اسے رول اوور کر دو۔ یہ سب کیا ہے معاشی بدحالی نہیں تو اور کیا ہے۔

ہمارا ہمسایہ افغانستان نہ صرف پاکستان پر حملہ آور دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی کررہا ہے بلکہ اس کے شہری جنہیں ہم نے ایک عرصے تک یہاں پناہ دے رکھی تھی ہمارے دشمنوں کے معاون بنے ہوئے ہیں، افغان، پاکستانیوں کو للکارتے ہیں،یہاں ہمارا کھاتے ہیں اور ہمیں بھی پاکستان میں بسنے والے گھورتے ہیں، ہمیں للکارتے ہیں، انہیں اپنے ملک میں تو شاید ایک وقت کی روٹی دستیاب نہ تھی اور نہ ہو سکتی ہے یہاں وہ خوشحال زندگیاں گزاررہے ہیں، ان کے کاروبارہیں، انہیں کمائی کرنے، کاروبار خریدنے، پھیلانے کی آزادی بھی ہے  اس کے باوجود وہ پاکستان کے باسیوں کے شکر گزارنہیں ہیں۔ عالمی سطح پر بھی وہ ہمارے دشمن بھارت کی کامیابیوں پر بھنگڑے ڈالتے ہیں ہمارا منہ چڑاتے ہیں، ہم نے انہیں یہاں ایک عرصے سے پال رکھا تھا لیکن اب ان سے گلوخلاصی کا فیصلہ کرچکے ہیں۔

ایسے نازک حالات میں ہمارے اپنے داخلی حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں، حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ ایک سیاسی جماعت، ملک دشمنی ہی نہیں ریاست دشمنی پر اتر چکی ہے انہیں پاکستان اور اس کے عوام کا نہیں بلکہ قیدی نمبر804 کا مفاد عزیز ہے صرف اس کی رہائی چاہتے ہیں۔ پاکستان کو بدنام کرنے،  پاکستان کے خلاف کام کرنیکی آزادی چاہتے ہیں۔ وہ اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کوملیہ میٹ کرنا چاہتے ہیں۔

پارلیمان مقدس ترین ایوان مانا جاتا ہے یہ عوام کی خواہشات اور ان کے نمائندگان کا مسکن ہی نہیں بلکہ ریاست پاکستان کی شان و شوکت کا امین ہے اس کے مشترکہ اجلاس میں صدر مملکت کے خطاب کے وقت پی ٹی آئی کے لوگوں نے جو ہلڑ بازی کی جس طرح صدر مملکت کی توہین کی اس سے قوم کے سرشرم سے جھک گئے۔ یہ صدر مملکت وہ ہیں جنہوں نے الیکشن 2024ء کے انتخابی نتائج آنے کے بعد پی ٹی آئی کو حکومت سازی کے لئے آگے بڑھ کر تعاون کی پیش کش کی تھی یہ الگ بات ہے کہ پی ٹی آئی نے اس پیشکش کو بڑی حقارت سے ٹھکرا دیا تھا۔ پی ٹی آئی ایک انتشاری ٹولہ ہے جس نے فکری و عملی طو رپرپورے معاشرے میں گند ڈال دیا ہے۔ پی ٹی آئی کا عام ورکر ہو یا کسی بھی سطح کر قائد، ان پڑھ جاہل اخروٹ ہو یا پڑھا لکھا، اس کا اندازِ فکر اور اندازِ گفتگو ایک ہی طرح کا ہوگا۔ گلی محلہ ہو یا جلسہ گاہ اور ٹی وی پروگرام، اندرون ملک ہو یا بیرون ممالک یہ لوگ فکری و عملی طور پر انتشار و افتراق پھیلانے میں مصروف ہیں۔ ہمارے حکمران ابھی تک انہیں سیاسی جماعت سمجھتے ہوئے معاملات کررہے ہیں لیکن یہ لوگ اپنی فکری و عملی انارکی کے ذریعے پاکستان کو ہر سطح پر نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -