توا نائی بحران: پیش بندی کی ضرورت

توانائی بحران نے ایک دہائی سے عوامی معمولات زندگی، تجارتی سرگرمیوں اور صنعتی شعبے کو ب±ری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے۔ بد قسمتی سے پرویز مشرف دور کی آمریت میں اداروںکے پھلنے پھولنے، ان میں بہتری آنے اور مستحکم ہونے کا تصور ہی محال تھالیکن آصف علی زرداری کی قیادت میں جمہوری حکومت کے قیام سے عوام نے یہ توقعات وابستہ کرلی تھیں کہ اب ہمارے مسائل حل ہوں گے، لیکن عوام کے خوابوں کو تعبیر نہ مل سکی۔ پی پی کے پانچ سالہ دور حکومت نے پرویز مشرف کے 9 سالہ اقتدار کی بھیانک یادوںکو تازہ کر دیا۔ مہنگائی، بیروز گاری، لا قانونیت، اداروںکی توڑ پھوڑ اور سب سے بڑھ کر توانائی کے بحران کو پہلے سے زیادہ سنگین بنادیا۔ گیس کی قلت نے ایک طرف عوام سے سفری سہولتیں چھین لیںتو دوسری طرف بے روزگاری اور مہنگائی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ رہی سہی کسر کرائے کے بجلی گھروں نے نکال دی۔ آگ برساتی گرمیوں میں طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ نے وہ ستم ڈھائے کہ معصوم بچے، خواتین اور بوڑھے تڑپ کر رہ گئے۔ آمریت کا دور ہو یا جمہوریت کا زمانہ، عوامی مسائل ہمیشہ کم ہونے کی بجائے بڑھے ہیں ،اگرچہ موجودہ حکومت توانائی بحران سے نمٹنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے ،تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ کئے گئے اقدامات کے نتائج آنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ چند حقائق اور تجاویز ایسی ہیں جن پر عمل کر کے توانائی بحران سے نکلنے کے لئے کم وقت میں بہتر نتائج بر آمد کئے جا سکتے ہیں۔
اس وقت پاکستان کی پیداواری صلاحیت12500 میگا واٹ ہے، جبکہ ہماری کل ضرورت 18ہزار میگا واٹ ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث ضرورت میں سالانہ اضافہ 12فیصد ہے، جبکہ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود صرف5فیصد سالانہ (Adding in poll) ممکن ہو سکاہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 6 سال بعد2020ءمیں ہماری کل ضرورت26 ہزار میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔ اس وقت موجودہ پیداوار اور مانگ میں 5 ہزار5صد میگا واٹ کا فرق ہے، جبکہ 6سال بعد یہ اضافہ بڑھ کر 14 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گا۔ اس طرح سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر سال تقریباً 2600 میگا واٹ اضافے کے ساتھ ہی 2020ءمیں توانائی کی مطلوبہ ضرورت کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ اگلے6 برسوں میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ توانائی کی پیداوار میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہو؟ اس وقت پاکستان میں گھریلو استعمال کی توانائی کی شرح70 فیصد، صنعتی20فیصد، کمرشل5فیصد اور حکومتی اداروں میں 5 فیصدہے۔
اس وقت دنیا میں توانائی کے حصول کے جوبڑے ذرائع ہیں۔ان میں سولر انرجی ، ونڈ انرجی ، Bio mass ،کوئلہ، گیس، تیل شامل ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان ذرائع میں سے سستا ترین ذریعہ کون سا ہے؟ ماہرین کی جمع تفریق کے مطابق نیو کلیئر سے 5 روپے فی یونٹ،کوئلے سے 9 روپے فی یونٹ، ہائیڈل 10 روپے فی یونٹ، شمسی توانائی سے 5 روپے فی یونٹ، ہوا سے18 روپے فی یونٹ جبکہ تیل سے 22 روپے فی یونٹ خرچہ آتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں گیس، کوئلے اور تیل کے ذخائر کی صورت حال کیا ہے اور ان کے حصول کے لئے کیا حکمت عملی اپنائی جاسکتی ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ان معدنیات سے بڑا فائدہ اٹھایا جاسکے ؟کیمیائی پیداوار میں اضافے سے نہ صرف یہ کہ صنعتی ضرورت پوری کی جا سکتی ہے، بلکہ بجلی کے استعمال میں کمی بھی لائی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں تیل اور گیس زندگی کو رواںدواں اور معیشت کو استحکام دینے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
قدرت نے ہماری سرزمین کو قدرتی خزانوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ پاکستان میں 40 ہزار میگا واٹ کا پوٹینشل موجود ہے ۔ہائیڈل توانائی کا سستا ترین ذریعہ بھی ہے۔ صرف آزاد کشمیر میں 8 ہزار سے لے کر10 ہزار تک ہائیڈل پوٹینشل موجود ہے،جس کی نشاندہی ہو چکی ہے، جبکہ پچھلے آٹھ برسوں سے توانائی کی پیداوار کے شعبوں پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ حکومتی سطح پر مضبوط اور قابل عمل توانائی پالیسی اپنائی جاتی اور توانائی کے حصول کے لئے میگا پراجیکٹس شروع کئے جاتے جن سے نہ صرف توانائی کی ضروریات پوری ہوتیں بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ۔ ناقص حکومتی پالیسی کے باعث الٹا بیرون ممالک سے خطیر رقم کے عوض بجلی گھر خریدے گئے جن کی خریداری میں کرپشن کے بڑے سکینڈل سامنے آئے اور بالآخر سپریم کورٹ کو نوٹس لے کر کرپشن کے اس گند کو صاف کرنا پڑا۔حکومت نے 2002ءمیں پاور پالیسی1998ءکو تبدیل کرکے ایک نئی پاور پالیسی وضع کی جس کو.... Policy for Power Generation Projects 2002 ....کا نام دیا گیا، جس کے تحت آزاد کشمیر میں ہائیڈل پوٹینشل کی جتنی بھی Sites کو Identify کیا گیا ،ان کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس پالیسی کے تحت جن شرائط پر یہ پراجیکٹس نجی شعبے کو دیئے جانے تھے ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ پراجیکٹس 25 سال کے لئے نجی شعبے کی تحویل میں دیئے جائیں گے، جبکہ آزاد حکومت نے ہائیڈل پاور جنریشن میں تیزی لانے کے لئے اس مدت کو 25 سال سے بڑھا کر 30 سال کر دیا اور مزید یہ کہ مختلف منصوبوںکی مدت کی حد میں مزید نرمی کی گنجائش رکھی گئی.... حیرت انگیز اور دلچسپ امر یہ ہے کہ گورنمنٹ منصوبے کے پہلے تین برسوں میں 10روپے فی یونٹ بجلی خریدنے کی پابند ہوگی ،جبکہ منصوبے پر مجموعی لاگت کی رقم 3سے5سال میں ریٹرن ہو جاناتھی۔ اخراجات کی مجموعی لاگت کی واپسی کے بعد 30 پیسے سے لے کر 1روپیہ فی یونٹ تک پیداواری قیمت دی جائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کے اس لین دین میں عوام کہاں کھڑے ہیں؟ حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کے اس کاروبار میں اضافی بوجھ عوام پر کیوں ڈالا گیاہے؟ اس میںنہ صرف عوام بلکہ بیمار صنعتی یونٹس کی بحالی کی بجائے بندش کا پیغام پوشیدہ ہے۔توانائی بحران آنے والے دنوں میں کیا شکل اختیار کرتا ہے؟ حکومت اس کی شدت میں کمی لانے میں کس قدر کامیاب ہوتی ہے، ہنگامی بنیادوں پر کیا اقدامات اٹھائے جاتے ہیں ؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کا کوئی خاطر خواہ اور تسلی بخش جواب موجود نہیں۔شمسی توانائی سے ہائیڈل پاور جنریشن تک ،توانائی کے حصول کے متعدد ذرائع ہماری دسترس میںہیں۔ ان ذرائع اور امکانات کو کامیابی میں بدلنے کے لئے سنجیدہ کوشش اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔امکان ہے کہ حکومت کی سنجیدہ کوشش اور حکمت عملی آئندہ چند ہفتوں میں کھل کر ہم پر منکشف ہوگی۔
وطن عزیز اس وقت کئی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ان بحرانوں سے نکلنے کے لئے ہمیں بحیثیت قوم ا پنا اجتماعی اور انفرادی کردار نہایت ایمانداری، جانفشانی اور جذبہ حب الوطنی سے ادا کرنا ہوگا۔بلاشبہ حکومت بھی ان گنت مسائل سے بخوبی آگاہ ہے،لیکن مسائل کا صحیح ادراک ،ترجیحات کا تعین اور پھر جامع،موثر اور قابل عمل پالیسیاں ہی ان مسائل سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔66 برسوں سے ہم زبانی جمع تفریق اور کھوکھلے نعروں کے سہارے آگے بڑھنے کے خواب دیکھتے آئے ہیں۔اب جدید دنیا کے تقاضے اور بدلتے عالمی حالات کے پیش نظر قومی اہداف کے حصول کے لئے ہمیں رفتار سفر بڑھانا ہوگی۔کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا اور دیانتداری اور محنت کے چراغوں سے اپنی ترقی کی راہوں میں بکھرے ہوئے کانٹوں کو تلاش کر کے اٹھانا ہوگا۔ورنہ ہمارے پیارے وطن کے آنگن میں خوشحالی ،روزگار اور خودداری کے قافلے کبھی نہیں اتر سکیں گے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ماضی سے سبق سیکھا جائے اور سیرابوںسے باہر نکل کر تلخ حقائق کا سامنا کر کے قومی و ملکی ترقی و وقار کی خاطر بہترین پالیسیوں کی تشکیل اور ان کے تسلسل کی ٹھوس حکمت عملی طے کرنا ہوگی تاکہ توانائی بحران سمیت ہر بحران سے کامیابی کے ساتھ نکل سکیں۔ ٭