پاکستان کو درپیش مسائل اور سیاسی قیادت کی ذمہ داریاں

پاکستان کو درپیش مسائل اور سیاسی قیادت کی ذمہ داریاں
پاکستان کو درپیش مسائل اور سیاسی قیادت کی ذمہ داریاں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عرصہ دراز سے ہم پاکستان کو درپیش مسا ئل کے بارے میں سنتے آرہے ہیں۔حکومتوں کی تبدیلی ہوتی رہی ہے۔کبھی جمہوری حکومتیں تو کبھی مارشل لاء ۔ ہر حکومت حیلے بہانوں سے اپنا وقت پورا کرتی ہے مگر ملک کو درپیش مسائل پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ اس طرح آج یہ مسائل ملک کیلئے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ مسائل کیا ہیں؟ ان کے حل کیلئے قیادت کو کیا کرنا چاہیئے۔ اس پر بحث سے پہلے میری ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے موجودہ قیادت سے اپیل ہے کہ وہ ان مسائل سے ملک کو نجات دلانے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ جب قیادت کوئی فیصلہ کرے تو اسے یہ نہیں سوچنا چاہیئے اس فیصلہ سے اسکی جماعت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ اس فیصلے کے ملک پر کیا اثرات ہوں گے۔ ان مسائل کے حل کیلئے لسانیت، علاقائیت، فرقہ واریت اور سیاست سے بالاتر ہو کر سیاسی جماعتوں کو ملکی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ سیاسی قیادت سے میری مراد موجودہ حکومت اور صرف وزیر اعظم نہیں ہے بلکہ تمام جھوٹی بڑی جماعتوں کے رہنمایان ’’ سیاسی قیادت ‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ تمام رہنماؤں کے سر جوڑ کر بیٹھنے، مسائل کے حل کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنے اور پارلیمنٹ کی طاقت کے استعمال سے ہی ملک مسائل کے گرداب سے نکلے گا۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ سیاسی قیادت کے درمیان جمہوری نظام کی حفاظت، اداروں کی مضبوطی سمیت دیگر ملکی معاملات پر اتفاق رائے جو آج دیکھنے میں آرھا ہے پہلے کبھی نہیں تھا۔ آپریشن ضرب عضب کی منظوری اور PTI کے دھرنوں کے دوران جمہوری نظام کی بقاء کیلئے پارلیمنٹ کا کردار مثالی رہا۔ سینٹ کے چئیرمین کی متفقہ تائید بھی سیاسی قیادت کی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بعد امید کی جاتی ہے کہ PTI اور دیگر جماعتوں کے درمیان تلخیاں ختم ہو جائیں گی۔ جس سے پارلیمنٹ مزید مضبوط ہوگی اور ہر مسئلے پر اتفاق رائے پیدا کرنا ممکن ہوگا۔ اب میں ان مسائل کا ذکر کروں گا جو قیادت کی فوری توجہ کے طالب ہیں۔

۱۔ انتخابی اصلاحات، ۲۔ جامع معاشی پالیسی، ۳۔ متفقہ تعلیمی پالیسی ، ۴۔ صحت کی پالیسی۵۔ میڈیا سے متعلق پالیسی، ۶۔ آبی ذخائر کی تعمیر، ۷۔ نئے صوبوں کے قیام سے متعلق متفقہ لائحہ عمل
تجاویز: انتخابی اصلاحات کیلئے کمیٹی بن چکی ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بعد PTI بھی اس کمیٹی کا بائیکاٹ ختم کرکے اپنی تجاویز پیش کرے گی۔ ہر جماعت کے نمائندے کو چاہئے کہ وہ اپنی جماعت کی مشاورت سے انتخابی عمل کوشفاف بنانے کیلئے ٹھوس تجاویز دے تاکہ ایسا ’’انتخابی اصلاحات کا پیکج ‘‘ پارلیمنٹ میں پیش کیا جاسکے جس پر آئندہ کوئی جماعت انگلی نہ اٹھائے۔ انتخابی نظام کو ممکنہ حد تک شفاف بنایا جائے اور یہ اصلا حات پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور کرائی جائیں۔ اگر آج کی قیادت متفقہ اصلاحات لانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ تو آئندہ آنے والی حکومت کو کام کرنے کا آزادانہ موقع ملے گا۔ اپوزیشن اپنا مثبت کردار ادا کرے گی اور ملک ایجی ٹیشن کی سیاست سے محفوظ رہے گا۔ اسی طرح دیگر مسائل مثلا متفقہ تعلیمی پالیسی ، صحت اور جامع معاشی پالیسی کیلئے الگ الگ کمیٹیاں بنائی جائیں۔ ان کمیٹیوں میں ہر جماعت سے دانشور اور اپنے اپنے شعبے کے ماہر لوگ شامل کئے جائیں۔ یہ تمام پالیسیاں کم ازکم پچیس سال کیلئے بنائی جائیں تاکہ پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے اور آنے والی حکومتیں پالیسیاں بنانے میں نہ الجھی رہیں بلکہ ان کا کام صرف بنی بنائی پالیسیوں پر بہتر اور موثر انداز میں عمل درآمد کرنا ہو۔ بار بار پالیسیاں تبدیل کرنے سے نہ صرف پیسہ اور وقت ضائع ہوتا ہے۔ بلکہ کوئی بھی حکومت مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کرسکتی۔مذکورہ بالا پالیسیاں ایک دوسری سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ موجودہ دور میں تعلیم، صحت اور معیشت کی مضبوطی کے بغیر نہ صرف ملک کی ترقی متاثر ہوتی ہے۔ بلکہ ان کے بغیر ملک کی بقا خطرے میں نظر آتی ہے۔ ملک کو تجربہ گاہ بنانے کی بجائے قیادت کو چاہیئے کہ ان مسائل کے حل کیلئے اس طرح کام کرے جیسے دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے یکجہتی سے اور ہنگامی بنیادوں پر کام کیا تھا۔ ان پالیسیوں کی پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظوری کرلی جائے تاکہ آنے والی ہر حکومت عمل درآمد کی پابند ہو اور وہ کوئی نئی تبدیلی نہ کرے۔ اگر کبھی مخصوص حالات میں معاشی پالیسی میں تبدیلی کرنا پڑے تو اسکی منظوری بھی متفقہ طور پر ہو۔ یہ شق بھی پالیسی کا حصہ ہو۔


مندرجہ بالامسائل کے علاوہ میڈیا کے رول پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے کیونکہ میڈیا کے تعاون کے بغیر ہم کسی بھی پالیسی پر موثر عمل درآمد نہیں کرواسکتے آج میڈیا کی طاقت کی کوئی حدود وقیود نہیں بلکہ یہ اصلا حات تو انتخابی اصلاحات سے بھی زیادہ ضروری نظرآتی ہیں۔ اگر یہ مبالغہ آرائی ہے تو معذرت خواہ ہوں میں تو یہ کہوں گا کہ میڈیا حکومت بنانے اور گرانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ گذشتہ دھائی میں جہاں میڈیا نے عوام کے شعور میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ وہاں عوام کو کنفیوژ بھی کیا ہے۔ مختلف مواقع پر میڈیا کے مختلف چینلز کی پالیسی با لکل مختلف نظر آئی مثلا میں کسی پر تنقید کئے بغیر یہ کہوں گا کہ ایک میڈیا ہاؤس دن بارہ بجے کو دن بارہ بجے کہہ رہا ہے تو دوسرا میڈیا ہاؤس اسی وقت کو رات بارہ بجے ثابت کرنے پر تلا ہواہے۔ ٹاک شوز میں سوالات کے انداز اور مرضی کے دانشور بلا کر جوابات حاصل کئے جاتے ہیں اور اپنی مرضی کے نظریہ کو پروموٹ کیا جاتا رہاہے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیئے کہ تمام پارٹیاں ، تمام میڈیا ہاؤسز کے نامور صحافیوں کی مشاورت سے ایک جامع لائحہ عمل مرتب کریں۔ جس سے عوام کو نہ صرف خبریں سننے کو ملیں بلکہ عوام کی سیاسی اور اخلاقی تربیت بھی ہو۔ عوام میں حب الوطنی پیدا ہو۔ اس لائحہ عمل کے ذریعے میڈیا کو پابند کیا جائے کہ وہ کسی بھی لیڈر ، جرنل ، جج یا بیوروکریٹ پر تنقید ضرور کرے لیکن اس میں ذاتی پسند وناپسند کا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہیئے۔ میڈیا کو چاہیئے کہ وہ ایسے پروگرام پیش نہ کرے جس سے اداروں میں تصادم کا خطرہ ہو یا کسی بھی طرح ملک میں عدم استحکام کا اندیشہ ہو ۔ اس پر سیاستدانوں کو بڑے تدبر سے پالیسی بنانا ہوگی۔


آبی ذخائر میں رکاوٹیں بھی ملک کا بڑا بھیا نک مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے میں ہماری قیادت جتنی دیر کرے گی ملک اتنا ہی مشکلات میں پھنستا جائے گا۔ یہاں پر یہ بات زیربحث نہیں کہ کونسا ڈیم بنے اور کونسا ڈیم نہ بنے بہتر ہوگا جہاں پر ممکن ہو جلد اور زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائے جائیں۔ آبی ذخائر کی تعمیر کیلئے سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کو ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرنا ہونگے اگر ایسا نہ کر سکے تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ آبی ذخائر کی تعمیر کیلئے بھی تمام جماعتوں کے مدبرین ، آبی ماہرین اور انجینئرز کی مشاورت سے اور علاقائیت سے بالاتر ہو کر فیصلے کریں۔ اگر خدانخواستہ ملک آبی بحران کا شکار ہوگیا تو صوبوں میں پانی کی تگ ودو مزید تیز ہو جائے گی اور پانی کی تقسیم میں اتفاق رائے پیدا کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اس لئے آج کی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دلیرانہ فیصلے کریں جو ڈیم بنانا ہے بنائیں اگر نہیں بنانا تو اسے ناقابل عمل قراردیکر اسکی جگہ نئے ڈیم کیلئے فیصلے کریں تاکہ مستقبل میں آنے والی حکومت کی صرف یہ ذمہ داری ہو کہ وہ فنڈز مختص کرے اور ڈیمز کی تعمیر کو یقینی بنائے کیونکہ پھر اس کے راستے میں کوئی سیاسی یا انتظامی رکاوٹ باقی نہ ہوگی۔
نئے صوبے بنانے کے حوالے سے بھی آج کی سیاسی قیادت کوئی فیصلہ نہیں کرپارہی تقریبا ہر سیاسی جماعت اس مسئلے پر کنفیوژن کا شکار ہے اور انکی پالیسی میں دو عملی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ PPP پنجاب میں سرائیکی صوبہ کی حامی نظر آتی ہے تو سندھ میں صوبے بنانے کو سندھیوں کی غیرت کا مسئلہ قرار دیتی ہے۔ اے این پی KPK میں صوبہ بنانے سے خودکومستشنیٰ قرار دیتی ہے تو پنجاب میں صوبے بنانا چاہتی ہے۔ MQM جب چاہتی ہے سندھ میں صوبوں کی بات کرتی ہے اور جب چاہتی ہے نامعلوم وجہ کی بنیاد پر مطالبہ واپس لے لیتی ہے۔ اور یہ نعرہ دب جاتا ہے۔ آخر عوام سے یہ مذاق کب تک چلے گا۔ سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر صوبوں کے حوالے سے کوئی متفقہ فارمولا بنانا ہوگا۔ جو پورے ملک پر یکساں لاگو ہو۔ اس فارمولے کے تحت جہاں صوبہ بنتا ہو وہاں صوبہ بنایا جائے اور جہاں نہیں بنتا وہاں نہ بنایا جائے۔ اس سلسلے میں بھی ہر سیاسی جماعت کے معاملہ فہم اور سینیئر پارلیمنٹرین پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے جو جلد ازجلد اپنی ذاتی خواہشات کو پس پشت ڈال کر ملکی مفاد میں کوئی فارمولا وضع کرے تاکہ یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہوسکے اور مستقبل میں ملک کسی ممکنہ ایجیٹیشن یا سیاسی بحران کا شکار نہ ہو۔

صوبے کیسے بنائے جائیں یہ فیصلہ قیادت نے کرنا ہے لیکن قیادت سوشل میڈیا ، خطوط اور ایس ایم ایس وغیرہ کے ذریعے عوام کی رائے معلوم کرسکتی ہے۔ تاکہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ قیادت کو چاہیئے کہ وہ پارلیمنٹ میں موجود ہ ہم آہنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موجودہ حکومت کے دور میں ہی یہ فیصلے کرے تاکہ ان تمام فیصلوں کو پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور کرانے میں آسانی ہو۔ کیونکہ آج قومی اسمبلی اور سینٹ میں ورکنگ ریلیشن شپ مثالی نظر آتی ہے۔ ان تمام فیصلوں کی منظوری کے بعد تمام سیاسی جماعتیں آپس میں نیا (NRO) کریں تاکہ سیاسی نظام مستحکم سے مستحکم ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہما ری قیادت کو ہمت، تدبر اور معاملہ فہمی عطا کرے کہ وہ ملک کو بحرانوں سے نکال سکے۔ *

مزید :

کالم -