ستونِ دار پر ایک اور چراغ

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی کو پاکستان سے محبت کے جرم میں پھانسی دے دی گئی ہے اور وہ شہادت کے رتبۂ بلند پر فائز ہو گئے ہیں۔ 1971ء میں متحدہ پاکستان کے دفاع کی جنگ مشرقی پاکستان کے محاذ پر ہمارے جن بہادر فوجی افسروں اور جوانوں نے لڑی اور شہید ہوئے ان کو بجا طور پر حکومتِ پاکستان کی طرف سے اعلیٰ فوجی اعزازات سے نوازا گیا۔ میرے شہر سیالکوٹ کے ایک قابلِ فخر فوجی افسر میجر صابر کمال شہید کو مشرقی پاکستان کے دفاع کے لئے جان کا نذرانہ دینے پر دو بار ستارۂ جرأت دیا گیا۔وہ سقوط مشرقی پاکستان سے صرف ایک ہفتہ قبل شہید ہو گئے تھے اور سیالکوٹ کے اس بہادر بیٹے کی قبر اب بھی کسی نام کی تختی کے بغیر بنگلہ دیش ہی میں کہیں موجود ہے، مگر سیالکوٹ میں ہم ہر سال میجر صابر کمال شہید کو یاد کرنے کے لئے دسمبر کے مہینے میں ایک تقریب منعقد کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے مختلف شہروں میں ہر سال مشرقی پاکستان میں متحدہ پاکستان کی خاطر شہید ہونے والے فوجیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ متحدہ پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑنے والے فوجیوں کے دست و بازو جو بھی پاکستانی شہری تھے وہ بنگلہ دیش میں اب ظلم اور انتقام کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ عجیب ستم ظریفی اور عجیب طرح کا انصاف ہے کہ جن بنگالیوں نے ہندوستانی فوج کے ساتھ باہم مل کر قائداعظمؒ کے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لئے کردار ادا کیا وہ تو بنگلہ دیش کے ہیرو ہیں اور جن بنگالیوں یا بہاریوں نے متحدہ پاکستان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا وہ مجرم ٹھہرائے جا رہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب 1971ء سے پہلے مشرقی اور مغربی پاکستان متحد تھے ،تو پھر پاکستان کو متحدہ رکھنے کے لئے اور اپنے وطن کے دفاع کی جنگ لڑنے والے مجرم کیسے بن گئے۔ متحدہ پاکستان کے لئے جنگ لڑنے والوں کی حب الوطنی تو قابلِ رشک تھی اور ہے، جن سیاست دانوں نے متحدہ پاکستان کی حمایت میں اپنا کردار ادا کیا تھا اگر تو انہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اس مُلک کی سلامتی کے خلاف کوئی کردار ادا کیا تو پھر انہیں مجرم گردانا جا سکتا ہے، لیکن بنگلہ دیش کے وجود سے پہلے تو ہر محب وطن پاکستانی کا یہ فرض تھا کہ وہ اپنی فوج کا دست و بازو بن کر متحدہ پاکستان کی حفاظت کرتا۔ متحدہ پاکستان کے حامی سیاست دان بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں کی ملکی سیاست میں بھرپور حصہ لیتے رہے ہیں اور وہاں کی پارلیمینٹ کے ممبر بھی منتخب ہوتے رہے ہیں، حتیٰ کہ خالد ضیاء کی حکومت میں وہ کابینہ کا حصہ بھی رہے ہیں۔ پھر یہ لوگ غدار کیسے ہو گئے؟ غدار تو وہ لوگ تھے جو اندرا گاندھی کی فوج کے ساتھی بن گئے تھے اور اپنے ہی مُلک کو توڑنے کے جرم میں شریک ہو گئے تھے، جہاں تک متحدہ پاکستان کے دفاع کا تعلق ہے۔جب پاکستان1947ء میں آزاد ہونے والے مُلک کی صورت میں قائم تھا۔ اُس وقت قائداعظمؒ کے پاکستان کو بچانے کی خاطر قربانیاں دینے والوں کو کم از کم ہم پاکستان والوں کو تو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ امیر جماعت اسلامی مطیع الرحمن نظامی سے بھی میرا رشتہ پاکستان کے حوالے سے ہے۔ کیا یہ حکومتِ پاکستان کا فرض نہیں بنتا کہ وہ پوری دُنیا میں بنگلہ دیش حکومت کے اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرے کہ متحدہ پاکستان کے دفاع کی خاطر جنگ لڑنے والوں کو کس جرم میں بنگلہ دیش میں پھانسی پر لٹکایا جا رہا ہے۔دُنیا کے کسی بھی قانون میں اپنے مُلک کی حفاظت کے لئے جنگ لڑنا جرم نہیں ہے۔ مطیع الرحمن نظامی نے بھی1971ء میں متحدہ پاکستان کے دفاع کے لئے اپنی پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر جو جنگ لڑی تھی وہ اُن کی حب الوطنی کا تقاضا تھا۔ اس لئے اگر انہیں پاکستان کے ساتھ محبت کے جرم میں پھانسی دی گئی ہے تو اس پر ہمارے حکمرانوں کی طرف سے اگر بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو یہ بجائے خود ایک جرم ہے۔ آج بھی بلوچستان میں بعض ایسے گروہوں کے خلاف فوج جنگ لڑنے میں مصروف ہے جو انڈیا سے مدد لے کر بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی مذموم سوچ رکھتے ہیں۔ پاکستان سے ’’را‘‘ کے جاسوس بھی پکڑے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے جو شہری قوم کے غداروں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہو کر فوج کے کندھوں سے کندھا ملا کر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسا ہی کردار مطیع الرحمن نظامی اور ان جیسے محب وطن پاکستانیوں نے1971ء میں مشرق پاکستان میں ادا کیا تھا۔ پھر وہ غدار کیسے ہو گئے؟ ہمارے حکمران پاکستان کے ان جاں نثاروں کو کیوں بھول بیٹھے ہیں۔ ہمیں مطیع الرحمن نظامی کی زندگی بچانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی،کیونکہ ان کا جرم پاکستان کے ساتھ محبت تھا۔ پاکستان کے ساتھ محبت کرنے والوں کی قدرو منزلت نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا پاکستان سے محبت کا اپنا رشتہ کمزور ہے۔افسوس ہم ایک محب وطن پاکستانی کو نہ بچا سکے۔
مطیع الرحمن نظامی اگر1971ء میں مشرقی پاکستان میں پاکستان توڑنے والوں کے ساتھی ہوتے تو آج شاید وہ خود بنگلہ دیش کے وزیراعظم ہوتے، لیکن وہ قائداعظمؒ کے پاکستان کے حامی تھے اور متحدہ پاکستان کی سلامتی کے لئے ان سے جو ہو سکا وہ کیا۔ اِسی لئے سقوط مشرقی پاکستان کے45سال بعد بھی ان کا ’’جرم‘‘ معاف نہیں کیا گیا۔ اگر بنگلہ دیش کی حکومت پاکستان بچانے کا جذبہ رکھنے والے افراد کو غداری کا نام دیتی ہے، تو متحدہ پاکستان کی خاطر جنگ لڑنے والوں کو ہمیں اپنا ہیرو سمجھنا چاہئے۔ مطیع الرحمن نظامی بجا طور پر شہید پاکستان ہیں۔ اگر1971ء کی جنگ میں حصہ لینے والے پاکستان کے فوجی اپنی بہادری اور قربانیوں کے باعث ستارۂ جرأت، ہلال جرأت یا نشانِ حیدر کے مستحق تھے تو مطیع الرحمن نظامی بھی ایسی ہی عزت اور توقیر کے قابل ہیں۔ پھانسی سے اوپر اور کوئی سزا نہیں اور جان سے بڑھ کر اور کوئی قیمتی چیز نہیں جو مطیع الرحمن نظامی نے پاکستان کی محبت پر قربان کر دی ہے۔ ستونِ دار پر رکھا گیا یہ چراغ وطن پر جاں نثار کرنے کی ایک عظیم مثال قائم کر گیا ہے۔ ایک عظیم پاکستانی شہید کو پوری پاکستانی قوم کا سلام پہنچے۔