پانامہ۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان میچ فکس ہو چکا ہے

میری شروع سے رائے تھی کہ اگر پا نامہ کو بنیاد بنا کر کوئی سکرپٹ لکھا جائے گا تو یہ سکرپٹ فیل ہو جائے گی۔ اس کہانی کی سنگینی اور اس کی اخلاقی وجوہات اپنی جگہ پھر بھی بنیاد اتنی مضبوط نہیں کہ اس پر کوئی مضبوط سکرپٹ لکھا جا سکے۔ لیکن میرے کچھ دوست بضد تھے اور ہیں کہ پانامہ ہی وہ نتائج دے گا جس کی دھرنے میں آرزو تھی۔ جو خواہشات دھرنے سے ادھوری رہ گئی تھیں۔ جو نا کامی دھرنے کی نا کامی کیو جہ سے سکرپٹ رائٹرز کو دیکھنی پڑی تھی اس سب کا بدلہ پانامہ چکا دے گا ۔ میرے دوست بضد تھے کہ پانامہ ان کی مسلسل ناکامیوں کوکامیابیوں میں بدلنے کے لئے ایک خدائی مدد ہے۔ بس سب کچھ تو پہلے سے تیار تھا۔ پانامہ نے تو منزل قریب کر دی ہے۔ لیکن گھنٹوں کے دلائل کے باوجود میں قائل نہ ہو سکا۔ کہ اکیلے پا نامہ ہی سب کچھ بہا کر لے جانے کے لئے کافی ہے۔ تا ہم میر ا اور میرے دوستوں کا اختلاف بدستور قائم ہے۔ میرے دوست مان رہے ہیں کہ پانامہ کے حوالہ سے انہیں جو ماحول بننے کی توقع تھی وہ ابھی تک نہیں بن سکا۔ ان کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کے جلسوں نے عوام کو تقسیم کر دیا ۔ جس کی وجہ سے عوام یک سو نہیں ہو سکے۔ شائد سکرپٹ رائٹرز جب سکرپٹ لکھ رہے تھے تو انہوں نے اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ میاں نواز شریف بھی جوابی جلسے کر سکتے ہیں۔
لیکن اس سب کے باوجود ایسا لگ رہا ہے کہ اپوزیشن میاں نواز شریف کے ساتھ مکمل طور پر ملی ہوئی ہے۔ اور پانامہ پر ایک فکس میچ جاری ہے۔ جب پانامہ کا سلسلہ شروع ہو ا۔ تو دوستوں کا خیال تھا کہ بس ساٹھ دن میں سب کام مکمل ہو جائے گا۔ ایسا تاثر دیا جا رہا تھا کہ بس کمیشن بنے گا اور تحقیقات شروع ہو جائیں گی۔ دوست تو یہ بھی دعویٰ کر رہے تھے چیف جسٹس پاکستان تیار بیٹھے ہیں جیسے ہی انہیں کمیشن بنانے کے لئے خط لکھا جائے گاوہ فورا کمیشن بنا دیں گے۔ ایک دوست تو یہ بھی دعوی کر رہے تھے میاں نواز شریف کا معاملہ تو کمیشن کی پہلی دوسماعتوں ہی میں طے ہو جائے گا۔ بس حسین نواز اور حسن نواز پیش ہو نگے تو کمیشن ان کے خلاف ایک عبوری حکم جا ری کر دے گا۔ اور بس پھر جب چیف جسٹس پاکستان وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ دیں گے تو میاں نواز شریف کی یوسف رضا گیلانی کی طرح چھٹی ہو جائے گی۔ دوستوں کی یہ کہانی سننے میں بہت دلچسپ لگتی تھی۔ لیکن افسوس سب کچھ اس طرح نہیں ہو رہا۔ اور نہ ہی وہ رفتار ہے جس کا دعویٰ کیا جا رہا تھا۔
پہلے معاملہ حاضر اور سابق کے درمیان لٹک گیا۔ پھر جب یہ طے ہو گیا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن ہو گا تو جناب چیف جسٹس سات دن کے لئے ترکی کے دورہ پر چلے گئے۔ اور معاملہ سات دن کے لئے لٹک گیا۔ اس دوران ٹی او آرز پر تنازعہ پیدا ہو گیا۔ شائد ٹی او آرز کا تنازعہ اتنا سنگین ہو گیا کہ ترکی سے واپسی پر چیف جسٹس نے یہی فیصلہ کیا کہ جب تک حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹی او آرز پر کوئی تصفیہ نہ ہو جائے انہیں معاملہ کو زیر التوا ہی رکھنا چاہئے۔ اور ٹی او آرز کا تنازعہ پھنستا گیا۔ اور معاملہ لمبا ہو تا گیا۔
اس دوران متحدہ اپوزیشن کا سکرپٹ سامنے آگیا۔ میں نے دوستوں سے پوچھا کہ یہ متحدہ اپوزیشن کیا ہے۔ اس کی کیا ضرورت پیش آئی تو دوستوں نے کہا کہ دھرنوں میں سو لو فلائٹ کی وجہ سے ناکامی ہوئی۔ اس لئے اس بار اس کمی کو بھی دور کیا جا رہا ہے ۔ اور میاں نواز شریف کو گھر بھیجنے کے لئے متحدہ اپوزیشن ضروری ہے۔ اس دوران میاں نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ سامنے آگیا۔ بلاول اور عمران خان دونوں نے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ یہاں تک تو سکرپٹ رائٹرز کا سکرپٹ بہترین لگ رہا تھا۔ لیکن پھر متحدہ اپوزیشن میاں نواز شریف کے استعفیٰ پر متفق نہ ہو سکی۔ اور ایسا لگا کہ کسی نے دوستوں کے منصوبہ کو پنکچر کر دیا۔ سارا ہنگامہ زمین بوس ہو گیا۔
ایسے میں ماحول بنا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹی او آرز پر بات چیت شروع ہو گی۔ اور معاملہ حل ہو جائے گا۔ لیکن اس دوران وزیر اعظم کے پارلیمنٹ میں پیش ہونے کا ایشو سامنے آگیا۔ اور ٹی او آرز کا ایشو پیچھے چلا گیا۔ بس کچھ دن گرما گرمی رہی کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں آئیں گے کہ نہیں آئیں گے۔ اپوزیشن کا بائیکاٹ شروع ہو گیا۔ اور حکومت نے جب دیکھا کہ معاملہ بہت گرم ہو گیا ۔ تو یہ اعلان کر دیا کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں اائیں گے۔ یہ اعلان بھی لگتا ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک فکس میچ کا عملی ثبوت ہے کیونکہ جونہی یہ اعلان ہوا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف پارلیمنٹ میں آئیں گے تو اپوزیشن نے اعلان کر دیا کہ وہ میاں نواز شریف سے جو سوالات پوچھنا چاہتی ہے وہ پہلے ہی بتا دے گی۔ تا کہ وزیر اعظم ان کی تیاری کر سکیں۔ پتہ نہیں اپوزیشن وزیر اعظم پر اتنی مہربان کیوں ہو گئی؟ تا ہم گزشتہ روز وہ سات سوال بتا دئے گئے ۔ یہ سوالات حکومت اور وزیر اعظم کی ٹیم کے لئے اتنے آسان تھے کہ حکومت کے وزراء نے ایک گھنٹے کے اندر ہی ا ن سوالات کے جواب دے دئے ۔ اور اپوزیشن پر سات سوال داغ دئے۔ اب جب جواب آگئے ہیں تو وزیر اعظم کا پارلیمنٹ میں آنا ایک رسمی کارروائی رہ گئی ہے۔ لیکن شاید یہ رسمی کارروائی بھی پوری کی جائے گی۔
ابھی سوالات کے جواب سامنے نہیں آئے تھے کہ عمران خان نے نیب کو درمیان میں ڈال دیا ۔ اور اب نیب سے تحقیقات کی بات کر دی ہے۔ انہوں نے قوم سے اپیل کی ہے کہ نیب کو خط لکھے جائیں کہ وہ پانامہ پر ایکشن لے۔ انہوں نے چیئرمین نیب سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ پانامہ پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک خاموش معاہدہ ہو گیا۔ اب میچ اس ھد تک فکس ہے کہ اس کو بس الجھانا ہے۔ کبھی کمیشن پر الجھانا ہے۔ کبھی ٹی او آرز پر الجھاناہے۔ کبھی پارلیمنٹ میں نہ آنے پر الجھانا ہے۔ کبھی سوالات کا مقابلہ ۔ کبھی سوالات کے جوابات کا مقابلہ۔ جلسوں کا مقابلہ۔ متحدہ اپوزیشن کے مقابلے میں حکومتی اتحادوں کا اجلاس۔ اپوزیشن کے خط کا جواب تیار کرنے کے لئے کمیٹی ۔ پھر خط کا جواب گول۔ سیاست ۔ او ر سیاست کے جواب میں سیاست۔ اس لئے میچ اس حد تک فکس لگ رہا ہے کہ بس لمبا کرنا ہے شائد یہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے مفاد میں ہے۔ اس لئے دونوں متفق ہو گئے ہیں۔