یہ میڈیا اور مسور کی دال؟؟

یہ میڈیا اور مسور کی دال؟؟
 یہ میڈیا اور مسور کی دال؟؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستانی میڈیا کے تین پرائیویٹ ٹی وی چینلز اپنی ایک آنکھ پر ہاتھ رکھ کر خبریں اور تجزیئے پیش کر رہے ہیں ۔ ان کی طرف سے یک چشمی خبریں اور تجزیئے پیش کئے جا رہے ہیں ، بلکہ بات اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے کہ یک چشمی تجزئیے تب تک تھے جب تک وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ ہو رہا تھا ، اب تو ان لوگوں نے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ کر فوج فوج چلانا شروع کردیا ہے، مگر عوام ہیں کہ ان کی آوازوں پر کان دھرنے کو تیار نہیں ....الٹا ان کے غیر پیشہ وارانہ خبروں اور تجزیوں کی وجہ سے فوج کی بھی درگت بن رہی ہے !....آرمی چیف کو اس بات کا نوٹس لینا چاہئے!


عمران خان کی جانب سے استعفے کے مطالبے پر وزیر اعظم نے ردعمل دیتے ہوئے بنوں میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم ان کے کہنے پر استعفیٰ دیں؟....یہ منہ اور مسور کی دال؟؟‘‘....وزیر اعظم کے اس مصرعے کے وزن پر کہا جا سکتا ہے کہ فوج ان ٹی وی چینلوں کے کہنے پر آئے گی؟....یہ میڈیا اور مسور کی دال؟؟


یہ تین میڈیا چینل اس قدر شدومد سے اسٹیبلشمنٹ کی خبریں نشر کرتے ہیں کہ کبھی کبھی تو ان پر اسٹیبلشمنٹ کے ٹی وی چینل ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے، اگر اسٹیبلشمنٹ نہیں تو کم از کم یہ کسی نہ کسی امپائر کے چینل تو ضرور ہیں ۔ ان پر بیٹھے ہوئے اینکر پرسنز دراصل پنکچر پرسنز لگتے ہیں ۔ان کا حال تو یہ ہو چکا ہے کہ اگر فوج نے اقتدار میں آنے میں مزید تاخیر کی تو یہ آرمی چیف کے بھی خلاف ہو جائیں گے۔ پیمرا کا ایبرا کڈیبرا یہ پہلے ہی بناچکے ہیں۔ ایک طوفان بدتمیزی ہے جو ان تین ٹی وی چینلوں نے برپا کر رکھا ہے!


ہماری اطلاعات کے مطابق پاک فوج کے سنجیدہ طبقوں نے آرمی چیف کی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد میڈیا کے ایک مخصوص حصے کی جانب سے اڑائی جانے والی دھول کو پسند نہیں کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی صداقت نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر داخلہ نے اس ملاقات کے لئے کوئی کردار ادا کیا ہے ۔ اس کے برعکس کور کمانڈرز کی میٹنگ میں ہونے والے فیصلوں کے حوالے سے وزیر اعظم کو بریفنگ دینا آرمی چیف ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ چنانچہ گزشتہ روز ہونے والی ون آن ون ملاقات میں اسی حوالے سے بات چیت ہوئی۔ بعد ازاں جب وزیر اعظم نے ازخود پانامہ لیکس کے حوالے سے جاری تنازعے کا ذکر کیا تو آرمی چیف نے محض یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ اس تنازعے کو بھی جلد ختم ہونا چاہئے کیونکہ ملک کے حالات اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
انہی حلقوں کے مطابق اپوزیشن پانامہ لیکس پر محض گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ رہی ہے ، وگرنہ اس میں دم خم ہوتا تو وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا چکی ہوتی۔ علاوہ ازیں ان کے ٹی او آرز یا مطالبے اپوزیشن کے مطالبے تو ہو سکتے ہیں ، پاکستانی نیشن کے مطالبے نہیں ہیں۔


پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد عمران خان کی جانب سے چلائی جانے والی عوامی رابطہ مہم کا اس بار نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے مخالفوں کی تعداد بڑھی ہے یا نہیں خود عمران خان کے حامیوں کی تعداد ضرور کم ہو گئی ہے اور بقول پرویز رشید کے وہ رات کے اندھیرے میں جلسے کرکے اپنا بھرم قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب وزیر اعظم نے اس بار فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے وہ چوکے چھکے لگائے ہیں کہ پنکچر پرسنز پوچھتے پھر رہے ہیں کہ وزیر اعظم کیوں جلسے کر رہے ہیں؟


پانامہ لیکس پر تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ متحدہ اپوزیشن وزیر اعظم کے استعفے سے دستبردار ہو چکی ہے ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا تردد نہیں کیا ہے ، آرمی چیف وزیر اعظم ہاؤس تشریف لے آئے ہیں اور وزیر اعظم قائم ہیں اور ہر محاذ پر کنٹرول رکھے ہوئے ہیں۔ اس تاثر کا خاتمہ ہو گیا ہے کہ وزیر اعظم لندن سے واپس نہیں آئیں گے اور ان کی جگہ شہباز شریف وزیر اعظم بن جائیں گے اور ایسی افواہوں کو ہوا دینے والوں کو منہ کی کھانا پڑی ہے، شیخ رشید اپنی بڑھکوں کا جواز اور چوہدری غلام حسین اپنے زائچوں کا حساب ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔


جمعے کے روز وزیر اعظم نوازشریف پارلیمنٹ تشریف لے جائیں گے اور ایک اور دھواں دھار خطاب کریں گے، اپنا پرانا موقف دہرائیں گے اور ٹی او آرز کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس کی تیاریاں ہو رہی ہوں گی۔ اس دن اگر کوئی بات نہیں ہورہی ہوگی تو مارشل لاء کی بات نہیں ہورہی ہوگی ، حالانکہ ایک ہفتہ قبل تک میڈیا کا ایک حصہ شد و مد سے ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا کہ اگلے ہی لمحے ملک میں مارشل لاء لگنے والا ہے۔ پانامہ لیکس کی دوسری قسط کے جاری ہونے سے قبل اپوزیشن وزیر اعظم سے جاننا چاہتی تھی کہ وہ بتائیں کہ آف شور کمپنیوں کے لئے پیسہ باہر کیسے گیا، ہو سکتا ہے کہ تیسری قسط کے آنے پر وزیر اعظم بتانا چاہیں اور اپوزیشن جاننا نہ چاہے کہ پیسہ باہر کیسے گیا تھا!


حیرت کی بات یہ ہے کہ پانامہ لیکس کے سکینڈل نے تحریک انصاف کو نقصان اور پیپلز پارٹی کو فائدہ پہنچایا ہے ، پیپلز پارٹی نے کمال ہوشیاری سے گیند عمران کے ہاتھ سے لے کر اپنے ہاتھ میں تھام لی ہے ، تبھی تو بلاول بھٹو کی پاٹ دار آواز کشمیر کے پہاڑوں سے گونجتی ہوئی پورے ملک میں پھیل رہی ہے جبکہ عمران خان ماڈل عینی خان کو اپنے جلسے میں درپیش مسائل کی وجوہات ڈھونڈتے پھر رہے ہیں !

مزید :

کالم -