رات ہم نے شہر خراباں دیکھا

رات ہم نے شہر خراباں دیکھا
رات ہم نے شہر خراباں دیکھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جاپان کی 94فیصد آبادی شہری ہے، دیہات کا سسٹم نہ ہونے کے برابر ہے اورجو دیہاتی علاقہ ہے اس کو بھی شہری حدود میں شامل کیا جا رہے ہے۔ شامل کرنے سے مراد نام شہر رکھ دینا نہیں بلکہ اس کو ان تمام سہولیات سے آراستہ کرنا جو ایک شہر کی ضرورت ہوتی ہیں۔ موریاو بنیادی طور پر زرعی پس منظر رکھتا ہے اس لیے یہاں کے لوگ سادہ اور روایتی مزاج کے لگتے ہیں۔لیکن وقت ،حالات،معاشرہ اس پر اثر انداز ضرور ہوتا ہے موری اوکا مرکزی شہر ہے۔۔۔2016 کی سروے کے مطابق اس کی کل آبادی 296.739 ہے پورا شہر ہی بلند وبالا عمارتوں ہوٹلز ،شاپنگ مالز،اوردفاتر سے گھرا ہوا۔پبلک ٹرانسپورٹ کا بہترین نظام،پاکستان کی طرح روٹس پر بسیں اندرون شہر رات تک میسر ہوتی ہیں اکثر شہر رات ۹ بجے کے بعد بند ہوتا ہے لیکن مرکزی بازار کی رونقیں ہی رات کو نظر آتی ہیں۔ اس شہر کی ایک جگہ جو چوبیس گھنٹے آباد ہوتی ہے وہ اسٹیشن ہے۔ لاری اڈہ اسٹیشن ساتھ ساتھ ہیں ۔آپ کو دور نہیں جانا پڑتا۔۔۔

جاپان کی بلٹ ٹرین دنیا کی دس تیز ترین ٹرینوں میں چھٹے نمبر پر ہے جو کہ 198.5کلومیٹر پر گھنٹہ کی رفتار سے سفرطے کرتی ہے۔ 600کلومیٹر کا فاصلہ ٹوکیو سے موری اوکا صرف دو گھنٹے ۳۳ منٹ میں طے کرتی ہے ۔اس کا کرایہ 15000ین ہے۔ بالکل جہاز جیسا ماحول ،پرسکون سیٹیں ساؤنڈ پروف۔۔یہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ترقی کے یہ مناظراور نظام اورموری اوکا کی راتیں دیکھنے ،آج ہم پھرنکلے ہیں۔ آئیے آپ کو بھی لیے چلتے ہیں۔
شوق پالنا۔۔۔شادی پالنا۔۔۔ ہرایک کا خواب ہوتاہے۔۔۔۔جوشادی تو پال لے وہ شوق بھی پال سکتا ہے ۔اب ہمارے بارے میں فیصلہ آپ پر ہے۔شوق پالنا بھی زندگی کا ایک منفرد کام ہے۔ دونوں کی ابتدا ش سے لیکن انتہا نصیب سے۔۔۔چھوڑیے فلسفیانہ باتیں۔۔۔جاپان کے دن تو۔۔۔ کمال قدرت اورجمال ذوق کے آئینہ دارہیں ۔ رات کیسی ہے؟؟ دیکھنے کا شوق تھا۔۔۔مسافر صمً۔۔۔بہت انتظارکیاکہ کوئی لے چلے گا۔۔۔کسی کے پاس وقت کہاں۔۔۔ اگر وقت ہے تو ذوق آوارگی کہاں۔آخر شوق جواپنا تھا۔پالنا بھی خودہی تھا۔۔لو جی۔۔۔اس بار پیدل مارچ کو سائیکل ریس میں بدل لیا۔۔۔ بس کچھ اتنا پتا تھا۔۔۔ دو اشارے چھوڑ کر۔۔تیسرے سے ٹرن۔۔۔۔ قانون سائیکل سواری پوچھا اور چل دیے۔۔۔۔ رات کو تو سب ٹرن ایک جیسے ۔بتیاں ایک جیسی۔ دماغ پر زور دیا ،اس نے معذرت کی۔۔۔ساتھی سے پوچھا توبولا’’ کوئی بات نہیں۔ ایک چکر ہی سہی ۔پتہ تو چل جا ئے گا‘‘
ہم بھولے لیکن اندازہ نہ بھولا۔۔۔دنیامیں جہاں بھی جاؤ ۔۔۔۔ ایک چیز کامن ہوتی ہے۔۔۔لاری اڈہ اور اسٹیشن ۔۔۔۔یہ مشہور جگہیں ہوتی ہیں۔۔۔ ہم پہنچے بلٹ ٹرین اسٹیشن۔۔۔ہمارا خیال تھا۔۔۔کوئی رش وش عوام شوام۔۔۔وہ تو نارمل۔۔۔نہ بھنے چنوں والا۔۔۔ نہ انار کا جوس 10 روپیہ میں ۔نہ ٹریفک پولیس کے گھات لگائے شیر جوان۔۔۔نہ فٹ پاتھ پر قبضہ جمائے ملنگ ۔۔کافی کوشش کی کوئی نہ ملا۔۔۔ہر طرف دیوہیکل عمارتیں۔ دل کو کچھ بُرالگا۔۔۔دل میں ہی ان کی طرف دیکھ کر کہاہمارے ملک آنا۔۔۔۔ تمہیں دیکھائیں گے لاری اڈا۔۔۔اسٹیشن۔
لو جی پھر ہم بھول گے راستہ۔۔۔۔ ہر سڑک ہی مین سڑک دیکھائی دیتی ۔۔۔ کوئی ایک گھنٹہ بھگایا سائیکل کو۔۔۔ لیکن اسٹیشن ندارد۔۔۔ کبھی دائیں،کبھی بائیں طرف سے۔۔۔آخر کار۔۔۔ہم ناکام واپس۔۔۔لوٹنے کو تیار ہو گئے۔۔۔سائیکل اشارے پر کھڑے تھے۔۔۔۔ہاں جی سائیکل کا بھی اور پیدل کا بھی اشارہ ہے۔۔۔دیکھاکہ لوگ ٹولیوں کی صورت میں دوسری طرف سے آ رہے ہیں۔۔۔شوق نے ابھارا ۔۔۔ساتھی نے کہا’’چھوڑو کیوں اور کھجل ہونے کا پروگرام ہے‘‘شوق کے ہاتھوں مجبورہوئے اور ہم چل دیے۔۔۔لو جناب وہ تو۔۔۔منزل کا سفر تھا۔۔۔ روشنیوں کا ،دھنوں کا ،انسانی ہوس و زر۔اور آبگینوں کا شہر۔شہر خراباں۔۔ہاں یہ وہ مین بازار تھا۔۔۔۔ جہاں مشروب مغرب کے جام انڈیلنا ایک شرافت اور عین انسانیت سمجھا جاتا ہے۔۔۔پانی سے سستی شراب۔۔۔ یہاں آ کر یاد آیا اپنا اسٹیشن یا بازار۔۔۔دھیمی دھنوں میں دعوت مہ اور مسکراتے چہروں اور ٹوٹے دلوں کے ساتھ کھڑی وہ بیبیا ں۔۔۔ یہاں کی دنیا ہی عجیب لگی۔۔کوئی بھی آنے والا اکیلا نہیں تھا۔۔صرف ہم ہی اجنبی ٹھہرے۔۔یہ وہ دنیاہے جہاں دن سوتے اورراتیں جاگتی ہیں۔۔۔ایک بات ہے۔۔۔ سب کام ایک حد میں ہیں۔۔۔۔یہاں پر وقت کا احساس ،نہ لیٹ کی پریشانی۔ وقت دیکھا۔۔۔رات 11بجنے کو۔۔۔واپسی میں عافیت سمجھی۔۔۔واپسی پر تو ہم فاتح بن کر اور سائیکل گردی میں کامیاب ہو کر لوٹ رہے تھے۔۔۔لیکن ایک قلق تھا۔۔۔سب جسم کی راحتیں۔۔۔بے چین روحوں۔۔۔۔کے ساتھ۔۔۔اس دیس کے لوگ۔۔۔۔ جیے جا رہے ہیں۔۔۔اگر ان کی روحین۔۔۔فطرت الہی۔۔۔کے مطابق ڈھل جائیں۔۔۔۔تو یہ سکون کی نیند سوئیں۔
واپسی پر رات گہری ہو چکی تھی اوردریا کا پانی سازِتنہائی بجا رہا تھا۔۔۔ہم اسی ساز کو ہم سفر بنائے اپنے مسکن کو روانہ ہوئے۔اس گہری رات میں بھی ربّ جلیل کی نعمتیں یاد آتی ہیں’’رات تمہارا لباس بنایا۔۔۔اور دن کو معاش بنایا‘‘( القران)
یہاں پر نہ یارلوگوں کاڈر۔۔۔نہ وردی گردی کاخوف۔۔۔۔میں بھی محفوظ ۔میری جیب بھی مامون۔۔ اپنی منزل کو پہنچے اور رات کو لباس بنالیا۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -