ایک غلط فیصلہ

ایک غلط فیصلہ
ایک غلط فیصلہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھولا خوش ہے کہ سکول سترہ مئی سے بند ہو رہے ہیں، اس برس اسی دن پہلا روزہ ہونے کا امکان ہے، بھولے کو گرمی بھی محسوس ہو رہی ہے اور وہ درست کہتا ہے کہ بچے پھولوں کی طرح نازک ہوتے ہیں لہذا اس کے خیال میں پنجاب میں سکولوں کے وزیر رانا مشہود احمد خان کاگرمیوں کی چھٹیاں قبل از وقت کر دینے کا فیصلہ دانش مندانہ اور بروقت ہے۔مجھے بھولے کی چھٹیوں کی خوشی خراب کرنے کا کوئی حق نہیں کہ ہمارے بھولے ایسے تمام فیصلوں اور پالیسیوں کے مضمرات جانے بغیر ہی ناچتے ہیں، جہاں اسے مبارکباد دی جا سکتی ہے وہاں رانا مشہود احمد خان سے بات کی جا سکتی ہے، وہ مسلم لیگ نون کے سینئر کارکن ہیں، قانون دان ہیں اورپنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر رہ چکے ہیں، پارٹی نے انہیں ان کے حلقے میں ان کے خلاف ہونے والے سخت احتجاج کے باوجود نہ صرف پارٹی ٹکٹ دی بلکہ کامیاب ہونے کے بعد تعلیم کی وزارت بھی دی،یہ بات بھی تسلیم کرنے والی ہے کہ پنجاب میں تعلیمی نظام کے اپنے حجم میں بہت بڑا ہونے کے باوجود یہاں اصلاحات دوسرے تمام صوبوں سے زیادہ ہمہ جہت اور نتیجہ خیز ہیں۔


بات تو اس مائنڈ سیٹ کی ہے جس میں مضمرات جانے بغیر عوام کو خوش کر دینے والے مقبول فیصلے کر دئیے جاتے ہیں، سوال تو یہ ہے کہ جب گذشتہ برس اٹھائیس مئی کو رمضان المبارک کا آغاز ہوا تو اس وقت بھی چھٹیاں کر دی گئیں، اس برس یہ مقدس مہینہ دس دن پہلے سترہ یا اٹھارہ مئی کو شروع ہو رہا ہے تو سکول بند کرنے کاحکم دے دیا گیا ہے، کیا روزے جب شمسی اور قمری کیلنڈر میں فرق کے باعث سات مئی اور ستائیس اپریل کو آئیں گے تو گرمیوں کی چھٹیاں اپریل میں ہی کر دی جائیں گی، اس فارمولے کے مطابق اگر روزے جنوری اور فروری کی شدید سردی میں ہوں تو تب بھی گرمیوں کی چھٹیاں کی جا سکتی ہیں۔میں بھولوں کے موقف سے اتفاق کرتا ہوں کہ رمضان کا مہینہ مقدس ہے، گرمی بڑھ رہی ہے جوبچوں کے لئے ایک چیلنج ہو سکتاہے مگر کیا ہر چیلنج کا جواب ہمارے پاس چھٹیاں ہیں۔ بہت سارے سکول ایسے ہیں جن میں چھٹیوں سے پہلے امتحانات کااعلان بھی کیا جا چکا ہے تو کیا ان بچوں کے امتحان نہیں لئے جا سکیں گے جن میں سے بہت ساروں کے سالانہ امتحانات بھی ہیں، یہ وہ سکول ہیں جو ایک تسلسل کو سامنے رکھتے ہوئے چھٹیوں کے بعد اگست میں اپنے تعلیمی سیشن کا آغاز کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے مجبور کیا جائے گا کہ پرائیویٹ سکول بھی اس اعلان کی اتباع کریں کہ کسی بھی حکومت کی پالیسی تمام سکولوں کے لئے یکساں ہونی چاہئے مگر دوسری طرف یہ امر ایک حقیقت ہے کہ نجی سکولوں کی بھاری اکثریت اتوار کے ساتھ ساتھ ہفتے کی بھی چھٹی کرتی ہے لہذا ان کے سالانہ ورکنگ ڈیزسرکاری سکولوں کے مقابلے میں ڈیڑھ مہینے تک کم ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہم ہی ہیں جو کبھی سیکورٹی اور کبھی ڈینگی جیسے امراض کے نام پر اپنے تعلیمی اداروں کو دنوں نہیں بلکہ ہفتوں کے لئے بند رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔


کبھی گرمیوں کی چھٹیاں پندرہ جون سے ہوا کرتی تھیں اور بچے اگست کے آخر یا ستمبر کے شروع میں دوبارہ سکول جایا کرتے تھے مگر آہستہ آہستہ چھٹیاں پیچھے آتی چلی جا رہی ہیں، جون کے آغاز کے بعد اب یہ مئی کے وسط تک پہنچ گئی ہیں، اب کے پھررمضان آیا اور کچھ گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا تو ہم نے چھٹیاں کر دیں جس کا بچوں کی نفسیات پر ایک خاص اثر پڑے گا، وہ ہر مرتبہ مشکل آنے پر اس سے فرار کا راستہ ڈھونڈیں گے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں ایک معمول کے لوگوں کو آسانی دینے والے فیصلے پر اتنے ہی دور کی کوڑی لا رہا ہوں جتنی دور کی مگس کوباغ میں جانے نہ دیجیو پر پروانے کے خون کی ہوسکتی ہے مگر مجھے جواب میں کہنا ہے کہ ماہرین تعلیم ان باتوں کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ جب ہم شکوہ کرتے ہیں کہ گرمی بڑھ ر ہی ہے تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے ملک میں سات،آٹھ ماہ گرمی اور دو، تین ماہ شدید سردی کے ہوتے ہیں، بتائیے،کیا ہمیں سکول صرف باقی دو، تین ماہ کے لئے ہی کھولنے چاہئیں جن میں موسم خوشگوار ہو۔ یہ جملہ محض کتابی نہیں کہ ہم ایک ترقی پذیر قوم ہیں اورہمیں اپنی آنے والی نسلوں کوکسی بھی مشکل میں راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے اس کا مقابلہ کرنا سکھانا چاہئے۔ ہمارے بچے جب پریکٹیکل لائف میں جائیں گے تو وہ یاد کریں گے کہ گرمی بھی تھی، روزے بھی تھے مگراس کے باوجود ہم سکول جایا کرتے تھے، وہ اس سے عزم اور حوصلہ پکڑتے ہوئے کسی بھی چیلنج کے آنے پر اس کا سامنا کریں گے، اس موقعے پر چھٹیوں کی امید نہیں رکھیں گے۔


تمام ترقی یافتہ اورمہذب ملکوں میں تعلیمی شیڈول کی ایک خاص اہمیت ہوتی ہے اوراسے کوئی بھی شاہانہ انداز میں تبدیل نہیں کر سکتا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ پہلے ہی ہم ایک سے زیادہ تعلیمی نظام چلا رہے ہیں،مدرسوں کی صورت میں ا یک تعلیمی نظام مولوی پیدا کر رہا ہے تو دوسری انتہا میں انگریز پیدا کئے جا رہے ہیں جو عربی اور فارسی جیسی زبانیں تو ایک طرف رہیں، اردو لکھنے تو کیا پڑھنے سے بھی عاری ہیں۔ہمارے سرکاری سکول عمومی طور پر کلرکوں کی پیدائش اور افزائش کے مراکز سمجھے جاتے ہیں اور اصل چیلنج بھی یہی ہے کہ ان کے معیار میں بہتری لائی جائے مگر ہم ایسے ایشوز میں الجھے ہوئے ہیں جو طے شدہ ہونے چاہئیں۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے چھٹیوں کا اعلان بچوں اور والدین سمیت پورے معاشرے کے مفاد میں ہے وہ حکومت پر یہ دباو کیوں نہیں ڈالتے کہ وہ سکول ہی بند کر دے، وہ فائدہ جو چند روز کے لئے پہنچایا جا رہا ہے اسے اسی فارمولے کوآگے بڑھاتے ہوئے پورے سال تک بڑھایا جا سکتا ہے۔آپ دیکھئے گا کہ چھٹیاں ہوجانے کے بعد مائیں اور با پ اسی موسم میں بچوں کو سمر کیمپ میں بھیجیں گے یا کئی گھنٹوں کی ٹیوشن ہوگی تاکہ وہ دن بھر سڑکوں اور چھتوں پر کودتے نہ پھریں۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے گرمی نہیں ہوتی تھی مگر اب ہوتی ہے اور مجھے اکبر الہ آبادی کا شعر یاد آجاتا ہے جس میں انہوں نے ایک صدی پہلے ہی کہہ دیا تھا، ’ پڑجائیں ابھی آبلے اکبر کے بدن پر، پڑھ کرجو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون‘، یعنی ایک صدی پہلے بھی اپریل ، مئی اور جون اتنے ہی گرم ہوتے تھے جتنے اب ہیں۔


میں جانتا ہوں کہ میری مخالفت سے یہ فیصلہ تبدیل نہیں ہوگا کیونکہ انتخابات قریب ہیں اور ایسے موقعے پر ’مقبول فیصلوں ‘سے لوگوں کو خوش کیاجانا مقصود ہے مگر تحریر کی صورت یہ احتجاج ایک کوشش ہے کہ اسے پالیسی نہ بنا لیا جائے، ہم اپنے بچوں کو ہرمعاملے میں رعایت لینے کے عادی نہ بنائیں، ہم جب حقوق کی بات کرتے ہیں تو انہیں چیلنجز اور ذمہ داریوں کا بھی عادی بنائیں ورنہ جب وہ پریکٹیکل لائف میں جائیں گے تو انہیں کسی گرمی اور کسی سردی اور کسی رمضان میں گھر بیٹھ جانے کی رعائیت نہیں ملے گی ،وہ اس وقت ناکام ہوجائیں گے جب ان کی تربیت مشکل پڑنے پر بھاگ جانے کی ہو گی۔

مزید :

رائے -کالم -