پنجاب میں ہوم آئسولیشن کے سخت ضابطے؟
صوبوں نے جزوی لاک ڈاؤن میں 31 مئی تک توسیع کر دی ہے تاہم پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے خبردار کیا ہے کہ کسی کو نرمی سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانے دیں گے سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پیز) پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔ عملدرآمد نہ کرنے والے کاروباری اداروں اور صنعتی یونٹوں کے خلاف کارروائی ہو گی، یہ بھی کہا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے اندر خطرات پوشیدہ ہیں احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا پنجاب میں بعض کڑی شرائط کے ساتھ ہوم آئسولیشن کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے تاجروں سے مذاکرات کے بعد سندھ میں ہفتے میں چار دن دکانیں اور مارکیٹیں کھولنے کی اجازت دی ہے۔
یہ فیصلے ان اطلاعات کے علی الرغم کئے گئے ہیں کہ نئے کیس تیزی سے بڑھ رہے ہیں گزشتہ روز ہی 1536 نئے کیس رپورٹ ہوئے، 28 مریض جان کی بازی ہار گئے، 8 ہزار سے زیادہ صحت یاب بھی ہو گئے ہیں، پلازمہ تھراپی سے پہلا مریض تندرست ہو کر گھر چلا گیا ہے اور ڈاکٹر طاہر شمسی نے کہا ہے کہ 300 پلازمے درکار ہیں جن سے مریضوں کا علاج کیا جائے گا، کورونا سے صحت یاب ہونے والوں کو خون کے عطیات دینے کے لئے آگے آنا چاہئے جہاں تک کاروبار کھولنے کی بعض شرائط کے ساتھ اجازت دینے کا معاملہ ہے حکومت پر کاروباری حلقوں کی طرف سے کئی دنوں سے دباؤ ڈالا جا رہا تھا جونہی لاک ڈاؤن نرم کرنے کا اعلان کیا گیا دکانیں کھل گئیں حالانکہ فیصلہ یہ کیا گیا تھا کہ 11 مئی سے دکانیں کھلیں گی، اجازت تو رسمی کارروائی ہی ثابت ہوئی اکثر جگہوں پر آدھے شٹر کھول کر کاروبار پہلے ہی ہو رہا ہے، پولیس کو آتے دیکھ کر شٹر گرا دیئے جاتے ہیں جونہی گاڑی آگے چلی جاتی ہے کاروبار دوبارہ شروع ہو جاتے ہیں اس لئے یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ایس او پیز پر صحیح معنوں میں عملدرآمد ہوگا بھی یا نہیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے جو انتباہ کیا وہ کتنا موثر ثابت ہوگا۔
پوری دنیا بھی عجیب مخمصے میں گرفتار ہے جہاں طویل لاک ڈاؤن کے بعد کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ہے وہاں وائرس کی نئی لہر آ رہی ہے اور جہاں اجازت نہیں دی گئی وہاں لاک ڈاؤن میں نرمی کے حق میں مظاہرے بھی ہو رہے ہیں تاہم ان ملکوں میں سماجی فاصلے کی پابندیوں پر پاکستان کی نسبت بہتر طور پر عمل ہو رہا ہے حکومت جو ہدایات دیتی ہے کم و بیش ان کے مطابق ہی کام ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں ”سماجی فاصلے“ کے تصور کو زیادہ پذیرائی نہیں مل رہی دیکھا یہ گیا ہے کہ جن مقامات پر لوگوں کے اکٹھا ہونے کی ضرورت نہیں وہاں بھی ہجوم موجود ہے اور غالباً ایسے ہی مقامات سے بیماری کے سوتے پھوٹ رہے ہیں دیکھنے والی بات یہ ہو گی کہ کیا ایس او پیز پر عمل کیا اور کرایا جا سکے گا؟ عوام کے اپنے مفاد میں ہے کہ سماجی فاصلے سمیت اس ضمن میں حکومت کی ہدایت پر عمل کریں اور ضابطوں کا خیال رکھیں لیکن اس سلسلے میں عوام میں لاپروائی کا رویہ بہر حال نظر بھی آتا ہے اور محسوس بھی ہوتا ہے۔ وزیر اعلیٰ اگر اپنی ہدایات پر عمل کرا سکیں تو بہتر، ورنہ خدشہ ہے کہ چند روز بعد، ان فیصلوں پر نظرثانی کی ضرورت پیش نہ آ جائے۔
پنجاب میں مریضوں کو ہوم قرنطینہ کی مشروط اجازت دی گئی ہے لیکن طبی ماہرین کے مطابق گھروں میں ان پابندیوں پر شاید ہی عمل ہو سکے جو نوٹیفائی کی گئی ہیں ویسے کاغذی حد تک یہ پابندیاں بڑی جائز ہیں لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ جو مریض گھروں میں خود کو قرنطینہ کریں گے انہیں وہ تمام سہولتیں دستیاب بھی ہوں گی یا نہیں۔ پوش آبادیاں چھوڑ کر غربا کے محلوں میں بہت کم گھر ایسے ہوں گے جہاں ایک سے زیادہ واش روم موجود ہوں جو لوگ ایک ایک دو دو کمروں کے گھروں میں گزارا کر رہے ہیں ان کے ہاں دوسرے واش روم کا کوئی تصور نہیں یہ تو خیر غریبوں کے گھروں کی حالت ہے حکومت نے جو قرنطینہ سنٹر بنائے ان کے متعلق بھی یہ شکایات آتی رہی ہیں کہ وہاں کئی کئی مریض بیک وقت ایک ہی باتھ روم استعمال کر رہے تھے شاید اب بھی کر رہے ہوں ایسے قرنطینہ مراکز کی حالتِ زار پر اعلیٰ عدالتوں کے ریمارکس بھی منظرِ عام پر آ چکے ہیں سرکاری قرنطینہ مراکز کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے رہے ہیں ایسے میں ہوم آئسولیشن کے لئے سخت ضابطے بنانے کا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ کاغذات میں ہر چیز چمکدار نظر آنی چاہئے اس پر عملدرآمد ہوتا ہے یا نہیں یہ ضابطے بنانے والوں کا دردِ سر نظر نہیں آتا، ابھی کل ہی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ ناروا سلوک برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اگر ہمارے ہسپتال مریضوں کو ہر قسم کی ضروری سہولتیں دے رہے ہوتے تو وزیر اعظم کو یہ بیان جاری کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی ایسے میں ہوم آئسولیشن کے لئے بنائے گئے ضابطوں پر جس طرح عمل ہوگا وہ دیوار پر لکھا ہوا ہے۔ بہر حال اجازت کی حد تک یہ فیصلہ درست ہے اب گھروں میں آئسو لیشن ہونے والے مریض جانیں اور سخت ضابطے بنانے والے۔ لیکن خدشہ یہی ہے کہ جس طرح کا عمل درآمد ایس او پیز پر ہو رہا ہے۔ ہوم آئسولیشن کے ضابطے بھی اسی سلوک کے مستحق گردانے جائیں گے۔
پلازمہ تھراپی سے علاج سے پہلے مریض کی صحت یابی البتہ ایک ایسی خبر ہے جس نے امید کے بہت سے چراغ روشن کر دیئے ہیں اب ان لوگوں کو دوسرے مریضوں کی مدد کے لئے میدان میں آنا چاہئے جو اللہ کی رحمت اور ڈاکٹروں کی کوشش سے صحت یاب ہوئے انہیں اب خون کا عطیہ دے کر اپنے رب کے احسان کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ وائرس کی ویکسین کے لئے دنیا کے کئی ملکوں میں جو کام ہو رہا ہے اس میں ہزاروں رضا کار اپنی زندگیوں کا رسک لے کر تعاون کر رہے ہیں پھر بھی ڈبلیو ایچ او کا خیال ہے کہ کچھ بھی کر لیا جائے ویکسین ایک سال سے پہلے نہیں بن سکتی ویسے بھی تیاری کے بعد ویکسین کے اربوں یونٹ بنانے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہو گی کیا وہ وسیع پیمانے پر دستیاب ہوں گی ویکسین کے وائل بنانے کے لئے شیشہ بھی بڑی مقدار میں دستیاب ہوگا یا نہیں دوا ساز کمپنیوں میں دوڑ تو مقابلے میں اول آنے کے لئے ہے لیکن ابھی حقیقی کامیابی کے لئے طویل انتظار درکار ہے ایسے میں پلازمہ تھراپی میں اُمید کی جو کرن نظر آئی ہے اس کا دائرہ وسیع کرنے کے لئے متعلقہ اداروں کو تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے سائنس و ٹیکنالوجی اور صحت کی وزارتوں کو اس سلسلے میں آگے بڑھ کر قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے صحت کے میدان میں جو سرکاری یا نجی ادارے تحقیق و جستجو کا کام کر رہے ہیں انہیں مطلوبہ فنڈز بھی بروقت اور ضرورت کے مطابق مہیا کرنے ہوں گے۔