قومی اسمبلی اجلاس میں کورونا ایس او پیز نظرانداز، امین گنڈا پور، امجد نیازی اور شیخ روحیل اصغر سمیت کئی ارکان نے ماسک ہی نہیں پہنے، سماجی فاصلے کی بھی خلاف ورزی کی ارکان کو مجلس کرنی ہے تو باہر جا کر کریں، ڈپٹی کی وارننگ

قومی اسمبلی اجلاس میں کورونا ایس او پیز نظرانداز، امین گنڈا پور، امجد نیازی ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد (سٹاف رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک،نیوز ایجنسیاں) وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور، امجد نیازی اور شیخ روحیل اصغر سمیت کئی ارکان نے ماسک ہی نہیں پہنے، سماجی فاصلے کی بھی خلاف ورزی کی، ڈپٹی سپیکر ارکان کو ہدایات دیتے ہی رہ گئے۔قومی اسمبلی اجلاس میں ارکان کی جانب سے احتیاطی تدابیر نظر انداز کرنے پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ خواتین ارکان سے گزارش ہے کہ سماجی فاصلہ رکھیں اور ماسک پہنیں، اگر ارکان کو مجلس کرنی ہے تو باہر جاکر کریں۔اس سے قبل ڈپٹی سپیکر کا پارلیمنٹ میں کوویڈ-19 کے اجلاس کی تیاریوں کے بارے میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تمام انتظامات مکمل ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس اور لاجز میں اراکین کے کورونا ٹیسٹ لئے جا رہے ہیں۔ انہو ں نے بتایا پارلیمنٹ انٹری پر ڈیجیٹل مشین لگائی گئی ہے جو سب کا ٹمپریچر لیتی ہے۔ اگر کوئی رکن بغیر ماسک کے داخل ہوگا، مشین اس کی شناخت کرے گی۔ تمام اراکین کو قومی اسمبلی ہال داخلے کے وقت ماسک، گلووز اور سینی ٹائزر فراہم کئے جائیں گے۔قاسم سوری کا کہنا تھا اجلاس میں صرف کورونا کے حوالے سے گفتگو ہوگی۔ جن اراکین نے بولنا ہوگا، تمام سیا سی جماعتیں ان کا نام دیں گی۔ ایوان میں اراکین فاصلے پر بیٹھیں گے۔گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر کی زیر صدارت شروع ہوا، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کورونا پوری دنیا کیلئے چیلنج، اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہو چکا، وائرس سے نمٹنے کیلئے سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انکاکہنا تھا کورونا وائرس ایک چیلنج ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا نے تباہی مچا دی، حکومت نے اپوزیشن کی رائے کو مقدم سمجھتے ہوئے اجلاس بلایا، کورونا کے باعث عالمی سطح پر بحرانی صورتحال کا سامنا ہے، کورونا وائرس 209 ممالک تک پھیل چکا ہے، وبا آنے کے بعد کوئی بھی ملک فوری طور پر اس سے نہیں نمٹ سکتا، کورونا سے امریکہ، برطانیہ، اٹلی جیسے ممالک میں ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے۔کورونا نے ترقی یافتہ ممالک کو بھی ہلا کر رکھ دیا، دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا نے اتنا بڑا بحران نہیں دیکھا، پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو تشخیص ہوا، پہلا کیس آنے کے بعد ہماری ٹیسٹنگ استعداد 100 تھی جو اب ہزار ہوچکی، 70 کے قریب لیبارٹریز ہیں جہاں ٹیسٹنگ کی سہولتیں ہیں، جنوبی ایشیا میں پاکستان کی ٹیسٹنگ صلاحیت سب سے زیادہ ہے۔ سندھ میں 12 سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، (ن) لیگ بھی پنجاب میں مسلسل 10 سال اقتدار میں رہی، مگرصحت کا نظام پاکستان میں کمزور ہے لیکن ہم نے وقت پر اقدامات کیے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا وزیر خارجہ کو آج سندھ کارڈ والا بیان نہیں دینا چاہیے تھا، اٹھارویں ترمیم حل شدہ معاملہ اس کو مت چھیڑیں۔ شاہ محمود قریشی نے (ن) لیگ کے حوالے سے 10 سال حکومت کی بات کی، پنجاب میں اب تک جتنے کورونا کیسز ٹیسٹ کئے گئے، وہ سارے کے سارے ادارے (ن) لیگ نے قائم کئے، جنوبی پنجاب میں ہم نے 7 ادارے قائم کئے، جناح ہسپتال سے لے کر طیب اردوغان ہسپتال تک ہمارے دور حکومت میں قائم ہوئے۔ یہ ہماری تیاری تھی، اب حکومت بتائے 7 سال میں خیبر پختونخوا میں آپ نے کون سی تیاری کی؟ اب تک کورونا وائرس سے بچاؤ کا کوئی پلان ہمارے پاس نہیں، اب بھارت سے بھی اربوں روپے کی دوا منگوائی گئی ہے۔لیگی رہنما نے کہا کہ یہ لمبی جنگ ہے لیکن اس کے آغاز میں ہی ہمارے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ معیشت میں پہلے ہی ایمونٹی نہیں تھی کہ نئی بیماری لگے۔ غیب کا علم اللہ کے پاس، پتا نہیں کورونا معیشت کا کیا حال کرے گا۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس کرائسز کی آڑ میں دوسری جانب نیب اور ایف آئی اے سے اپوزیشن کو گرفتار کرایا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں قومی سوچ پیدا کرنی ہے، کیا یہ ہے قومی سوچ؟خواجہ آصف نے مطالبہ کیا کہ تفتان سے لے کر پورے پاکستان کے قرنطینہ سینٹرز میں سہولیات چیک کرنے کیلئے ایوان کی کمیٹی بنائی جائے۔قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت کے کورونا وائرس کیخلاف اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ملک میں جنگ کا وقت ہے تو ہمارا وزیراعظم موجود نہیں، وزیراعظم کنفیوزڈ ہے اور جو انکی ذمہ داریاں ہیں وہ پوری نہیں کرپارہے،ہم وفاقی حکومت کیساتھ ملکر کام کرنے کو تیار ہیں، ہم یہ کہتے کو تیار ہیں کہ ہمارا وزیراعظم عمران خان ہے کیونکہ ہم اس سے ایک طاقت بن سکتے ہیں،جب تک کورونا وائرس ہے اس وقت تک وزیراعظم کو اپنے بیٹنگ آرڈر پر غور کرنا چاہیے، ذمہ دار اور تجربہ کار لوگوں کو سامنے رکھیں جو ہمارے ساتھ بات کرسکتے ہیں اور تمیز سے بات کرسکتے ہیں،بنگلہ دیش، بھارت، نائیجیریا، افریقہ، ایتھوپیا اور افغانستان میں معاشی مشکلات نہیں ہیں، اگر وہ ممالک لاک ڈاؤن کرسکتے ہیں، معیشت کو سنبھال سکتے ہیں اور اپنے عوام کو ریلیف بھی دے سکتے ہیں تو پاکستان کیونکہ نہیں کرسکتا، ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان، افغانستان اور مالدیپ تین ممالک جو کورونا کی وبا کی وجہ کساد بازاری کا شکار ہوسکتے ہیں، پی ٹی آئی کی حکومت کورونا ریلیف آرڈیننس منظور نہیں کررہی ہے جو اسی وبا سے متاثر ہونیوالے افراد کے لیے ہے لیکن سندھ میں ریلیف کو پی ٹی آئی سبوتاژ کررہی ہے اور میں مطالبہ کرتا ہوں کہ گورنز سندھ آج ہی اس آرڈیننس کو منظور کریں،پیپلز پارٹی رہنماؤں اور وزیر اعلیٰ سندھ کو وفاقی حکومت کی اعلیٰ سطح سے گالم گلوچ کا نشانہ بنایا گیا، ان کی محنت اور کوششوں کی کردار کشی کی گئی۔ ڈاکٹروں، پیرامیڈیکس اور نرسز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا 11 ہیلتھ ورکرز شہید ہوئے ہیں اورسپیکر اسد قیصر کی صحت یابی کیلئے بھی دعاگو ہیں۔ان کا کہنا تھا کورونا وائرس سے پوری دنیا کے رہنماؤں کی اصلیت سامنے آئی ہے، امریکہ کے ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کی بھی اصلیت سامنے آگئی ہے کیونکہ بحران قیادت کا امتحان ہوتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب جو وزیر صحت بھی ہیں آج بھی اسمبلی میں موجود نہیں ہیں، حالانکہ انہیں اس ایوان اور عوام کو آگاہ کریں جو ان کا فرض ہے۔ہم کہتے ہیں اگر آپ لیڈر ہیں تو پھر جو دوسروں سے توقع کرتے ہیں وہ خود بھی کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کا کریڈٹ صوبائی حکومتوں کو جاتا ہے جنہوں نے خود سے تعداد بڑھائی ہے، وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا کی حکومت کو بھی وہ سہولیات فراہم نہیں کیں جو کرنی چاہیے تھیں۔ بلوچستان میں ڈاکٹروں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور پنجاب میں ڈاکٹروں کو بھوک ہڑتال کرنی پڑتی ہے۔وزیرخارجہ کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے جو کہا کہ وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے اور ہم بات کرنے کو تیار ہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے بیانات ذمہ دارانہ ہوتے ہیں کیونکہ انہیں احساس ہے اور اگر کچھ کہتے ہیں تو اس سے ہماری رہنمائی ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے وفاقی حکومت کے کراچی سے منتخب رہنماؤں کے بیانات غیرذمہ دارانہ ہوتے ہیں۔ مکمل لاک ڈاؤن، سمارٹ لاک ڈاؤن یا نرمی کرنی ہے تو آپ فیصلہ کریں لیکن ان سب کے اثرات ہیں تاہم جو پہلے لاک ڈاؤن کیا تھا اس سے فائدہ ہوا تھا۔ آج دہاڑی دار طبقے کو سفید پوش کو وفاقی حکومت نے کچھ نہیں دیا اور اب پابندیوں میں نرمی کررہے ہیں اور جب لاک ڈاؤن تھا تو غریبوں کو ریلیف نہیں دیا۔میں یہاں سندھ کی نہیں پورے پاکستان کی بات کررہا ہوں، جس طرح کی سیاست اور حکومت آپ کرتے ہیں اور وہ کورونا کے وبا کے موقع پر چھوڑنی ہے۔ ہم اپ کیساتھ مل کرنے اورجگہ جگہ جانے کو تیار ہیں۔ لیکن اس طرح نہ وفاق چلتا ہے، نہ ریاست اور نہ حکومت چل سکتی ہے۔وفاقی وزراء حماد اور مراد سعید نے کہا لاک ڈاؤن کو مزید بڑھایا جاتا تو 9 لاکھ کاروبار مستقل بنیاد پر ختم ہوجاتے،جو لوگ مایوسی پھیلانا چاہتے ہیں وہ خود مایوس ہوں گے، پاکستان نے پہلے بھی بہت سے بحرانوں کا سامنا کیا،اس بحران کا بھی سامنے کریگا اورپہلے سے بھی مضبوط پاکستان سامنے آئے گا، پاکستان قرضوں کی دلدل میں پھنس چکا تھا،پاکستان کو مرض اور بھوک سے بچانا ہے،دنیا نے پہلی بار جزوی لاک ڈاؤن اور سمارٹ لاک ڈاؤن کا نام سنا، 23 لاکھ خاندانوں کو سندھ میں وفاق نے پیسے دیئے، بتایا جائے سندھ کے راشن کا پیسہ کہاں گیا؟ اپوزیشن لیڈر کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے آئے تھے اور ایوان میں نہیں آسکتے۔اس موقع پر مراد سعید تھر کے بچوں کی تصاویر ایوان میں لہرادیں اور کہا غربت کی شرح سب سے زیادہ سندھ میں ہے،لوگ برتن لیکر سندھ میں احتجاج کررہے ہیں،لاک ڈاؤن میں پیپلز پارٹی ناکام ہوئی،نیویارک ہمارے اقدامات کی پیروی کر رہا ہے،سیاست ہم نہیں پیپلز پارٹی والے کررہے ہیں،میں سارے دستاویزات ساتھ لایا تھا، ایک اپوزیشن لیڈر بھی ہوا کرتے تھے،کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے آئے تھے اور ایوان میں نہیں آسکتے۔
قومی اسمبلی

اسلام آباد،لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ،مظفر آباد، گلگت بلتستان (سٹاف رپورٹرز، مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں)کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر کیے گئے لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد کراچی سمیت ملک کے بڑے شہروں میں دو ماہ سے بند دکانیں اور چھوٹے کاروبار کھل گئے۔کراچی کے مختلف علاقوں میں کاروبار کھلنا شروع ہونے کے بعد دکا ندا ر وں نے اطمینان کا اظہار کیا جبکہ عوام خریداری کیلئے بازار پہنچ گئے ہیں۔حکومت سندھ کی جانب سے اجازت کے بعد سندھ میں آج سے مزید کاروبار کھلیں گے، محلے اورعلاقوں کی دکانیں اور چھوٹی مارکیٹیں صبح 6بجے سے شام 5 بجے تک کھولی جا سکیں گی، تعمیراتی صنعت سے جڑی دکانیں بھی کھلی رہیں گی۔حکومت سندھ نے آج سے 9 سرکاری دفاتر کو بھی کھولنے کا اعلان کیا ہے لیکن صوبے بھر میں جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو مکمل لاک ڈاؤن ہوگا۔ضابطہ اخلاق کے مطابق گاہکوں اور دکانداروں کیلئے ماسک لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ عمر رسیدہ اور بیمار افراد بازار نہیں جا سکیں گے۔حکومتی اعلامیے کے مطابق ایس او پیز پر عمل نہ کرنے والی دکانوں اور مارکیٹوں کو بند کر دیا جائے گا۔اعلامیے کے مطابق ہیئر ڈریسر، بیوٹی پارلر، جم، گیمنگ زون اور کیفے بند رہیں گے جبکہ ٹرانسپورٹ پر بھی پابندیاں برقرار رہیں گی۔خیبر پختونخوا میں بھی لاک ڈاؤن میں نرمی اور چھوٹے کاروبار کرنیوالے افراد کو چار دن کاروبار کی اجازت دینے کے بعد صدر بازار میں دکانیں کھلنا شروع ہو گئیں۔دکاندار دکانوں کی صفائی کیساتھ ساتھ کاروبار بھی کرتے رہے تاہم انھوں نے نہ ماسک لگائے اور نہ ہی دستانے پہنے، دکاندار ایک دوسرے سے گرمجوشی سے گلے بھی ملتے دکھائی دیے۔اسلام آباد میں پہلے مرحلے میں تعمیراتی سیکٹر کھول دیا گیا ہے، سینیٹری ورکس اور ہارڈ ویئر کی دکا نیں بھی کھلی رہیں گی، جنرل اسٹور، بیکری، آٹا چکی، ڈیری شاپس کو ایس او پیز کیساتھ پورا ہفتہ کھلی رکھنے کی اجازت ہے۔پنجاب میں صبح 8 سے شام 5 بجے تک کاروبار کھلے گا تاہم شاپنگ مال اورپلازہ بند رہیں گے، خیبر پختونخوا میں تاجروں کو دکانیں اورمارکیٹ شام چار بجے تک کھولنے کی اجازت ہے جبکہ بلوچستان میں دکانیں اور مارکیٹ شام پانچ بجے تک کھولنے کی اجازت ہے تاہم پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی برقرار ہے۔ پنجاب میں بھی کاروبار کھل گیا دیگر شہروں کے بازاروں میں رش رہا، کہیں ایس او پیز پر عمل ہوا تو کہیں نہیں۔شہریوں نے حکومت کے نئے حکم پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا۔ ادھر انتظامیہ اور پولیس بھی حکومتی ایس اوپیز پر عمل درآمد کروانے کیلئے پوری طرح تیار رہی۔
کاروباری سر گرمیاں

مزید :

صفحہ اول -