کچھ خطوط افسر ساجد کے نام
افسر ساجد کی تصنیف ”کچھ خطوط میرے نام“ نظر سے گذری اللہ پاک ان کو اور ان کی اس کتاب کو نظر بد سے بچائے اور ان کی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا فرمائے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے ان کے ادبی مقام و مرتبے کا بلاشبہ تعین کیا جا سکتا ہے۔ آج مجھے خیال آیا کہ کاش کتاب کا نام کچھ یوں ہوتا ”کچھ خطوط افسر ساجد کے نام“پھر ذہن نارسا نے رائے دی ساجد بھی درمیان میں لانے کی کیا ضرورت تھی”کچھ خطوط افسر کے نام“ ہی کافی تھا اور افسر ساجد ایک دبنگ افسر رہے ہیں اور ایسے خطوط ان کو دوران ملازمت موصول ہوتے رہے ہوں گے۔ اور یہ کہ ان خطوط میں بلاشبہ ادبی رنگ تو نہیں ہو گا البتہ ایسے خطوط سے پاکستان کے عوام کے سرکاری دفاتر سے متعلقہ مسئائل کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے اور یہ بھی جاننے میں آسانی ہو گی کہ لوگ افسروں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور ایسی خط کتابت کا تنقیدی جائزہ بھی محترم افسر ساجد جیسا نقاد لے کر یہ بتا سکتا ہے کہ کیاعوام افسروں کے بارے میں ایسی رائے رکھنے میں حق بجانب ہیں یا نہیں
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
مزید ایک خیال نے انگڑائی لی اور دِل میں آیا نیٹ کا دور ہے زیادہ خطوط کی بات کیا کرنا۔ ایک ہی خط کا مطالعہ کر کے دیکھتے ہیں۔ آغاز کچھ یوں ہوتا ہے۔ محترم ومکرم عالی مرتبت اور عالی وقار صاحب بہادر۔ آج نہ جانے کیوں دِل نے چاہا کہ آپ سے ملنا تو آسان نہیں چلو بذریعہ عریضہ کھل کے بات چیت کرتے ہیں۔ خدارا مائنڈ نہ کرنا میرا دل پر کنٹرول نہیں اور میں دل کے ہاتھوں مجبور ہوں۔ کوئی شک نہیں آپ ایک بااختیار افسر ہیں۔ جب چاہیں دفتر آئیں اور جب چاہیں دفتر سے اٹھ کر چلے جائیں۔ آپ کے اٹھنے بیٹھنے پر پابندی تھوڑا لگائی جا سکتی ہے ویسے بھی اس قسم کی پابندی انسانی حقوق کی صریحا خلاف ورزی ہے اور ایسی خلاف ورزی پر ہی تو قانون حرکت میں آتا ہے۔ پھر مقدمات کا اندراج اور پکڑ دھکڑ شروع ہو جاتی ہے۔ہاں البتہ آپ کے یہ بھی اختیار میں ہے کہ جس کو چاہیں دوست بنا لیں اور پھریہ بھی آپ کی ڈسکریشن ہے کہ دوستی کے معیار پر پورا اترنے والے کو جب چاہیں دِل میں بٹھا لیں اور جب جی میں آئے دل سے اتار پرے پھینکیں۔ ہاں البتہ آپ کی دنیا کا ایک یہ بھی پہلو ہے کہ آپ کے اوپر بیٹھا ہوا افسر جب چاہے آپ کو بھی بے اختیار کردے۔ آپ کی آنکھوں میں بڑا خوف ہے، لیکن حسب ضرورت آنکھیں پھیری بھی جاسکتی ہیں اور آنکھیں بند بھی کی جا سکتی ہیں۔ ویسے بھی تو آنکھوں نے ایک دن تو بند ہونا ہی ہے۔ فائل ورک تو کوئی آپ سے سیکھے۔ فائل پر بیٹھا بھی جا سکتا ہے اور فائل کو پہئے بھی لگائے جاسکتے ہیں۔ پہیئے لگنے سے چیزیں سپیڈ اپ ہوتی ہیں سپیڈ میں اعتدال ہی بہتر ہے بصورت دیگر ہڈی پسلی ایک ہو جاتی ہے۔ پسلی تو ویسے بھی ٹیڑھی ہوتی ہے اور ٹیڑھا پن سیدھا کرنا اب عوام کو آ گیا ہے خواہ اس کے لئے انہیں بلیک میلنگ کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ ویسے ویڈیو بنا کر بھی وائرل کی جا سکتی ہے۔ سہارا تو لینا ہی پڑتا ہے۔ بے سہارا لوگ افسری تھوڑا کرتے ہیں۔ ترلے کر کے ٹنیور کی مدت کو بڑھایا جا سکتا ہے اس طرح احتساب کے اداروں کے دائرہ اختیار میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ اور کرپشن کے خاتمے کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ حکمرانی کا حق صرف عوام کو حاصل ہے اور عوام اپنے نمائندے مقرر کرکے پورے پانچ سال خوشحالی کا راستہ دیکھتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ اب میرے صاحب بہادر! میں اپنی بات مختصر کرتا ہوں اور پر امید ہوں کہ آپ میری کسی بات کو در خور اعتنا نہیں سمجھیں گے ورنہ آپ میرے ”خور“ پڑ جائیں گے اللہ میرا حامی و ناصر ہو۔ ایک میرا آپ کے لئے مشورہ ہے کہ کبھی فارغ اوقات میں پیچھے مڑ کر دیکھ لینا۔ آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آپ کو اس مقام تک پہنچانے کے لئے آپ کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا۔ اور دھرتی ماں ہے اور ماں کو بیچنے سے پہلے ہزار بار سوچنا۔ والسلام۔ آپ کا خیر اندیش۔ ایک پاکستانی
ایک افسر کے نام خط تو تمام ہوا، لیکن افسر ساجد کے نام خطوط کا سلسلہ طویل ہے۔ یہ کل 68 خطوط ہیں اور لکھنے والوں میں بڑے معروف ادیب اور شاعر ہیں، جن میں احمد ندیم قاسمی، اقبال صلاح الدین،محمود علی محمود،شبنم رومانی، حکیم محمد سعید، عبداللہ حسین، سید محسن نقوی، افتخار عارف، ڈاکٹر سلیم اختر،جمیل الدین عالی، ڈاکٹر انورسدید، ڈاکٹر غلام رسول تنویر اور اس طرح کے دیگر شہرہ آفاق لوگوں کے نام قابل ِ ذکر ہیں۔ اور یقینا ادبی چاشنی ایسے خطوط کا بنیادی وصف ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے افسر ساجد کے ادبی و معاشرتی قد کاٹھ کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان خطوط کی حفاظت کرنا اور پھر ان کو کتابی شکل دینا ان کی سلیقہ شعاری کا بین ثبوت ہے۔ شاعری، نثر اور ادبی کالم نگاری میں ان کا ادبی حلقوں میں ایک معتبر نام ہے نام بنانے میں وقت لگتا ہے اور میرے ممدوح نے زندگی میں اپنے وقت کا صحیح استعمال کیا ہے ایسے ہی تو نہیں بقول راقم الحروف
مشتاق کے سب مشتاق یہاں
کیا مرد وزناں کیا پیر و جواں
ادب کی تمام اصناف سخن میں خط کا بڑا تذکرہ کیا گیا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں میں نے بڑی فلمیں دیکھی ہیں اور ہر فلم میں خط کا کوئی نہ کوئی کردار ضرور ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مجھے ان گانوں کے بول یاد ہیں جن میں خط استعمال ہوا ہے۔ حوالے کے طور پر۔ خط پڑھ کے تیرا آدھی ملاقات ہو گئی۔ بن بادلوں کے کیسے برسات ہو گئی۔ چٹھی میرے سیاں جی کے نام لکھ دے۔ حال میرے دِل کا تمام لکھ دے۔ دیس پرائے جانے والے وعدہ کرکے جانا۔ مجھے خط لکھو گے روزانہ۔ یہاں تک کہ امیر خسرو کی پہلی ریختہ کی غزل میں بھی خط کے بغیر بات نہیں بنتی۔ فرماتے ہیں
چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر
ناں نیند نیناں ناں انگ چیناں ناں آپ آوے ناں بھیجے پتیاں
اسی طرح بابا فریدؒ کا غیاث الدین بلبن کو کسی شخص کی سفارش کے لئے خط لکھنا اور یہ تحریر کرنا کہ اگر تو اس شخص کا کام کر دے گا تو ہو گا یہ اللہ کی طرف سے لیکن ثواب تجھے مل جائے گا،لیکن اگر تو اس کا کام نہیں کرے گا تو ہوگا یہ بھی اللہ کی طرف سے لیکن مستوجب سزا تو ہوگا۔ اس خط کی تحریر نے بادشاہ پر رقت طاری کردی تھی۔قارئین سے گزارش ہے کہ کبھی موقع ملے تومذکورہ خطوط اور اسد اللہ غالب، علامہ محمد اقبال اور دیگر مقتدر ہستیوں کے خطوط کا مطالعہ ضرور کریں اس سے آپ میں پر خار سفر زیست گزارنے کا حوصلہ پیدا ہو گا اور آپ پر یہ عقدہ بھی کھلے گا کہ ان حضرات نے کتنی محنت اور تگ و تاز سے یہ مقام حاصل کیا، جس طرح پیر سید غلام محی الدین المعروف باؤ جی آف گولڑہ شریف کی تصنیف ”مسافر چند روزہ“ جو کہ ان کے خطوط کا مجموعہ ہے کے مطالعہ سے مجھ میں دنیا کی بے ثباتی کا شعوری احساس پیدا ہوا۔ اسی طرح افسر ساجد کی زیر نظر تصنیف ”کچھ خطوط میرے نام“ سے میرے تعلیم و تربیت کے ارتقائی سفر میں مزید اضافہ ہوا ہے۔