بلاول بھٹو کا دورہ ملتان،میٹھی عید کے بعد کڑوے فیصلے متوقع!
جہانگیر ترین گروپ سرگرم،حکومت پر اثر انداز ہوپائے گا؟
روایتی و موروثی سیاستدانوں نے سیاسی شکارگاہوں کو آباد کرلیا
ملتان سے اشفاق احمد
سیاسی حالات ایسے کہ کوئی رمق،نہ چہل پہل،نہ زندگی سب دم سادھے وقت گزرنے کا انتظار کئے جارہے ہیں حکومتی،سیاسی و کاروبار زندگی مفلوج کم و بیش سارے ملک کا یہی حال ہے سب کے لبوں پے ایک ہی دعا ہے خدا کرے کچھ ایسا نہ ہوجائے کہ آنے والے ماہ و سال عبرت بن جائیں۔عام زندگی سے لے کر سیاسی محافل،دفتری امور،کاروباری زندگی اور پھر گلی محلے، گھر گھر ہر ایک کی زبانی پھر کورونا کی تباہ کاریوں کے پہلو زیر بحث ہیں ایسے میں سیاست محض حکومتی اعلانات،وعدے،وعید تک محدو د ہوکر رہ گئی ہے پھر کبھی کبھار عدالتی فیصلے سیاست کے ٹھہرے پانی میں حرکت کا باعث بن جاتے ہیں اپوزیشن کی اپنی بولی کہ حکومت نااہل اور سلیکٹڈ کی پیداوار ہے جبکہ حکمران اور اس کے اتحادی، پونے تین سالوں سے سابقہ حکمرانوں کی کرپشن پر ڈھول ہی پیٹتے جارہے ہیں ایسے میں غریب و سیدھے سادھے عوام جو ہمیشہ بدعنوان،گلے سڑے سسٹم سے آزادی،کرپشن،لوٹ مار و نا انصافی کے نظام کے خاتمے کے آرزو مند ہیں، کوہر دور میں پوری طرح سے مایوس کیا گیا ہے،پھر سب کیسے بدل جائے گا؟بجلی،گیس کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ،انصاف سب کیلئے یکساں،قانون سب کیلئے برابر،میرٹ،تعلیم،صحت،بنیادی ضروریات زندگی،آگے بڑھنے کا متوازن ماحول اور اچھے حالات یہ سب کیسے ممکن ہوگا؟۔کیا کوئی جادو کی چھڑی ہے یا محض اقتدار کا حصول ہی انقلاب و تبدیلی ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جو سبھی پوچھ رہے ہیں جواب کسی کے پاس نہیں،یا سبھی کے پاس اپنا اپنا جواب ہے،حکومت بیچاری سی لگنے لگی ہے خود اس کے اپنے ایم این ایز کا ایک ٹولہ جہانگیر ترین کا حمایتی ہے جو سیاست میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے ابھی تو کیسسز چل رہے ہیں جب کوئی فیصلہ آگیا اور اس میں جہانگیر ترین کو قصور وار ٹھہرادیا گیا تو ترین گروپ حکومت کے پاؤں اکھاڑنے کی سکت رکھتا ہے۔حالیہ دنوں ترین گروپ کے ایک ایم این اے ابراہیم خان سے ملاقات ہوئی،ابراہیم خان الیکشن 2018ء میں ملتان سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور (ن)لیگ کے سابق وفاقی وزیر سید جاوید علی شاہ کو شکست دے کر کامیاب ہوئے تھے اس لئے اُن کا مورال ابھی تک بلند ہے،بقول ان کے عمران خان کی نیت اور ایمانداری پر شک نہ بھی کیا جائے تب بھی انہوں نے جو ٹیم بنا رکھی وہ تو کرائے کے سیاستدان ہیں کبھی کسی تو، کبھی اور پارٹی میں رہ کر عوام کے ارمانوں کا قتل کرچکے ہیں،اب بھی 2018ء کے الیکشن سے قبل تک ان کا قبلہ کوئی اور تھا یہ تو عمران خان کی مقبولیت نے ان کو مغلوب کیا اور سبھی اقتدار میں حصہ حاصل کرنے تحریک انصاف کے ہم سفر بن گئے یہ وہی نااہل ہیں جو ماضی میں پیپلز پارٹی اور (ن)لیگ کی حکومتوں کا ہر اول دستہ رہے ہیں اُن کی لٹیا ڈبونے میں ان کا کردار رہا ہے اب جب کبھی بھی عمران خان یا تحریک انصاف کی حکومت پر ذرا سا بھی نازک وقت آیا ان میں سے ایک بھی نظر نہیں آئے گا،سبھی اپنے اپنے مفادات کے غلام ہیں مشکل پڑتے ہی کھسک جائیں گے۔قبل ازیں ملتان سے ایک اور رکن قومی اسمبلی ملک احمد حسین ڈیہڑ بھی اپنی ہی پارٹی کے اکابرین پر کھلی تنقید کر چکے ہیں ان دونوں صاحبان کے علاوہ جتنے بھی ایم این اے،ایم پی ایز حضرات ملتے ہیں کھلے عام نہ سہی آف دی ریکارڈ سبھی تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔درحقیقت ملک میں بڑھتی مہنگائی،روزگار کے کم ہوتے وسائل نے سبھی کو پریشان کررکھا ہے،مستقبل قریب میں کوئی بہتری کی صورت بھی نظر نہیں آتی یوں ایسے میں صبر کا پیمانہ لبریز ہوجانا امر یقینی ہے۔ہفتہ رواں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی اپنے ہوم ٹاؤن ملتان میں رہے پارٹی عہدیداروں،کارکنوں سے ملاقات کیلئے غوث اعظم روڈ،اپنی رہائش گاہ پر ڈیرے لگائے رکھے،ماسک کی پابندی اور سماجی فاصلے کی دوری کے ساتھ ہلکی پھلکی سیاست بھی چلتی رہی،اُن کے بقول بلاول بھٹو زرداری عید الفطر کے بعد بلاول ہاؤس ملتان میں ڈیرے لگائیں گے جہاں جنوبی پنجاب میں پارٹی کو فعال کرنے،تنظیمی امور کی انجام دہی کیلئے پارٹی عہدیداروں و کارکنوں سے ملاقاتوں کا دور چلے گا وہاں مستقبل میں حکومت مخالف مہم بارے بھی حکمت عملی طے کی جائے گی۔پیپلز پارٹی کے حالیہ سیاسی کردار سے تو معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی،حکومت مخالف تحریک میں ہلکی پھلکی موسیقی جاری رکھے گی لیکن انتہائی اقدام اٹھانے سے گریز کرے گی،پیپلز پارٹی کی کوشش ہوگی کہ حکومت کی مدت پوری ہونے تک پنجاب میں خود کو مضبوط کرے اور پنجاب کی سیاست میں اپنا حصہ حاصل کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کو جنوبی پنجاب کے روایتی،سیاسی گھرانوں سے تعلقات مضبوط کرنا ہوں گے،خطے کے بیشتر اضلاع کے یہی روایتی سیاست دان خواہ کسی بھی پارٹی کا پرچم سر بلند کئے ہوں ان پڑھ،غربت میں پسے،مہنگائی میں ڈوبے،دو وقت کے کھانے کو ترستے عوام انہی وڈیروں کو منتخب کرنے پر مجبور ہیں،۔سو یہی وڈیرے کبھی خطے کی ترقی،کبھی جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کا نعرہ بلند کئے بار بار پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں اور اعلیٰ ایوانوں میں پہنچ کر اپنے مفادات کے حصول کیلئے خطے کے عوام کو بیچتے ہیں سیاسی جماعتوں کو اعلیٰ ایوانوں میں عددی اکثریت کی ضرورت پڑتی ہے جو کسی بھی قیمت پر حاصل کی جاتی ہے پس جنوبی پنجاب کے عوام کوہلو کے بیل کی طرح ایسی چکی میں پسے چلے جارہے ہیں جہاں اُن کا کوئی پرسان حال نہیں۔اب آئندہ حکومتوں کے قیام کیلئے شکار کی تلاش میں ابھی سے شکار گاہوں کو آباد کرنا ہوگا تاکہ بوقت ضرورت ان پیشہ ور سیاستدانوں کو استعمال کیا جاسکے۔سو عید الفطر کے بعد بلاول بھٹو زرداری جنوبی پنجاب کے دورہ پر آنے کو تیار ہیں دیکھیں وہ کیا کھیل کھیلتے ہیں اور سیاست کی بساط میں مہروں کو کیسے استعمال کرتے ہیں،جس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
٭٭٭