آئین سے چھیڑ چھاڑ، سخت نقصان دہ عمل ہے!
تاریخ سے سبق کی بات تو ایک مستقل ضرب المثل کے طور پر مستند ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تاریخ سے سبق نہیں لیا جاتا، یہ اپنی جگہ لیکن اس سے تاریخ پر خط ِ تنسیخ تو نہیں پھر جاتا،تاریخ تو محفوظ ہے۔ اگرچہ اس تحفظ کے حوالے سے شبہات کا اظہار بھی کیا جاتا ہے لیکن جب سے دنیا میں پرنٹ میڈیا کا آغاز ہوا، ایک طرف جاری تاریخ ازخود ضابطہ تحریر میں آنا شروع ہوئی تو دوسری طرف سابقہ تاریخ پر تحقیق بھی ہونے لگی اور یہ تحقیق بھی جاری تاریخ کا حصہ بنتی چلی گئی،جس کی وجہ سے بہت سے سچ آشکار ہوئے اور یہ بھی علم میں آیا کہ بادشاہت کے ادوار میں تاریخ کے مرتب کنندہ شاہی ہوتے تھے۔ شاید اسی لئے ابن خلدون کو طویل سفر کرنے اور کٹھن مرحلہ طے کرنا پڑا،اس کے باوجود شکوک تو موجود رہے تاہم جہاں تک برصغیر کی تاریخ کا تعلق ہے تو یہاں بھی ایسا ہوا،اور تاریخ میں بہت کچھ ذاتی خواہشات کا عکس بھی نظر آیا، لیکن ماضی قریب کی تاریخ توایسی ہے جس کے عینی شاہد ہزاروں نہیں، لاکھوں تھے اور اکثر ہیں اور پھر نہ صرف تحقیق ہوتی چلی آ رہی ہے بلکہ پرنٹ میڈیا رقم بھی کرتا رہا ہے۔اب تو الیکٹرونک میڈیا کی وجہ سے ریکارڈنگ بھی محفوظ ہو جاتی ہے جو محققین کے کام آ جاتی ہے۔بہرحال دورِ جدید میں جو تاریخ لکھی یا قلمبند ہو رہی ہے یہ سچ اور جھوٹ کا راز بھی فاش کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
یہ زیادہ دور کی بات نہیں،ماضی قریب تر کا قصہ ہے جب پاکستان میں پارلیمانی استحکام ناپید ہوا اور آئے روز حکومتیں تبدیل ہونے لگیں،حتیٰ کہ یہ بھی تاریخ ہی کا ایک حصہ ہے کہ یہاں ایک ہی دن میں نئی جماعت ”ری پبلیکن“ کے نام سے بنی اور غدار کہلانے والے مبینہ خاندان ہی کے ایک فرد کو حکومتی سربراہی ملی۔ اسی اتھل پتھل کے دوران ہمارے ان سینئر سیاست دانوں کا یہ کارنامہ ہے کہ1935ء کے ایکٹ کے تحت چلنے والے کاروبارِ مملکت کی جگہ ایک منظور شدہ آئین بھی دے دیا جو1956ء میں بنایا اور منظور و تسلیم کیا گیا،لیکن یہ کسی کام نہ آیا اور1958ء میں ہمارے ملک کو نظر لگ گئی۔سیاست دانوں کی آنیوں جانیوں اور اختلاف کو موضوع بنا کر جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، 1956ء کا آئین منسوخ ہوا۔1962ء میں فیلڈ مارشل(کسی جنگ کے بغیر) ایوب خان نے خود اپنا دستور دیا جسے صدارتی کہا گیا اور اس کے ذریعے براہِ راست رائے دہندگی کو بالواسطہ میں تبدیل کر دیا گیا،اور بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا گیا، اور اسے ہی الیکٹورل کالج بھی بنا دیا گیا جس کی بنیاد پر (ایوب خان) انہوں نے1965ء میں بانی ئ پاکستانی کی ہمشیرہ محترمہ مادرِ ملت فاطمہ جناح کو ہرا دیا، حالانکہ ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتیں مادرِ ملت کی حمایت اور ایوب خان کی مخالف تھیں، یہ آمریت ایک عوامی تحریک سے ختم ہوئی اور اقتدار اپنے بنائے گئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو دے دیا گیا،جنہوں نے1962ء والا آئین منسوخ کر دیا اور نئے آئین کی طرح ڈالی۔
یہ ایک الگ تاریخ ہے جس کا ذکر کتابوں میں بھی ملتا ہے،تاہم یہ حقیقت ہے کہ ملک کے کے دو حصے ہونے میں دیگر عوامل کے ساتھ ایک عمل یہ بھی تھا کہ1970ء میں جو انتخابات کرائے گئے وہ آئین ساز اسمبلی کے لئے ہوئے اور آئین ہی پر اتفاق رائے نہ ہو سکا،ہر دو اکثریت والی جماعتیں اپنے اپنے موقف پر قائم رہیں،حالانکہ ہمارے محققین اور دانشور حضرات کے ساتھ ساتھ سینئر سیاست دانوں کا تجزیہ ہے کہ اگر ایوب خان یا پھر یحییٰ خان 1956ء والا آئین لوٹا دیتے تو ملک سلامت رہتا،اس میں سے بنگلہ دیش نہ بنتا۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد جو نئی تاریخ شروع ہوئی وہ مارشل لاء سے صدراور صدر سے وزیراعظم تک آئی، اسی آئین ساز قومی اسمبلی (آدھے ملک والی) میں باہمی تعاون کے جذبے سے 1973ء کا آئین منظور ہوا،جو پارلیمانی جمہوریت کی اساس پر ہے،اور اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، تاوقتیکہ یہ آئین کالعدم قرار دے کر نئی آئین سازی کے لئے نئی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کرا کے ایوان سے آئین منظور نہ ہو،آئین کے نہ ہونے اور آئینی نظام کو ایک ”آمرانہ آئین“ سے تبدیل کر دینے کا تجربہ بڑا تلخ رہا،اس دور میں ایسے فیصلے ہوئے جو آج تک ملک کے گلے پڑے ہوئے ہیں۔نہری پانی کا بھارت کے ساتھ معاہدہ ایک مثال اور پہلی بار 22خاندانوں کا ملکی سرمایہ پر قبضہ دوسری مثال کہی جا سکتی ہے۔ بہرحال1973ء کے آئین کو شاید کسی بزرگ کی دعا ہے کہ اس نے جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار بھی جھیل لئے اور پھر بحال ہوگیا،اس کے بعد وہ دور بھی آیا جب2008ء والے دورِ اقتدار میں سابق صدر آصف علی زرداری نے اس آئین میں سے وہ صدارتی ڈنک بھی باہر نکال دیئے جو منتخب ایوانوں کو توڑنے کا سبب تھے۔اسی دور میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے صدارتی اختیارات اتنے کم کر دیئے گئے کہ صدر ایک علامتی عہدہ بن کر رہ گیا اور اس کے بعد یہ آئین حقیقی پارلیمانی آئین ہو گیا جس کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے کئی فیصلے بھی موجود ہیں۔
یہ سب یاد کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان اپنے دورِ اقتدار میں ایوان کو تو نظر انداز کرتے رہے اور مطلق العنانی کی خواہش کا اظہار کبھی سعودی عرب اور کبھی امریکی صدارتی نظام کی تعریف کر کے کرتے رہے، اب ان کا بیانیہ مختلف ہے اور صدارتی نظام بھول کر امریکی سازش کا ”تحفہ“ ان کو مل گیا اور اب وہ اقتدار سے باہر آ کر بقول خود زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں،اور ان کی شاید یہی خطرناکی ہے جس کی پیروی موجودہ صدر مملکت اور گورنر(سابق) عمر سرفراز چیمہ ایک اور آئینی بحران پیدا کر کے کر رہے ہیں اور اب تو چودھری پرویز الٰہی بھی ان کی پیروی کا آغاز کر چکے ہیں کہ عمر سرفراز چیمہ نے جو موقف اپنایا اور جو رپورٹ صدر کو بھیجی تھی وہ محترم چودھری پرویز الٰہی کے صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ کے سیکرٹری اسمبلی اور عملے کی مرتب کردہ تھی،اس میں ان تمام وڈیوز کو بھی جھٹلا دیا گیا جو وزارت اعلیٰ کے انتخابی عمل سے متعلق ہیں اور وائرل بھی ہو چکی ہوئی ہیں۔
بات طویل ہو گئی، بہرحال میری گذارش یہ ہے کہ اس 1973ء کے آئین سے ایسی چھیڑ خانی نہ کریں جو خود آپ کے گلے پڑ جائے جو نام نہاد بحران ان سب نے مل کر پیدا کیا،اس کا حل بھی عدلیہ ہی کے پاس ہے جسے رنج ہے وہ عدلیہ سے وضاحت کرا لے۔ میں اپنی رائے پہلے بھی دے چکا ہوں کہ صدر وزیراعظم کی ”ایڈوائس“ کے پابند ہیں اور انہوں نے عمر سرفراز چیمہ کے ساتھ مل کر آئین کے مطابق عمل نہیں کیا، دعوے جو بھی ہیں، حتمی اختیار عدلیہ کا ہے کہ وہ تشریح کرے۔