امریکہ کسی بھی فرد کو قتل کر سکتا ہے
ایک طویل عرصے سے پاکستانی معاشرہ اتنا سیاست گزیدہ ہو چکا ہے کہ اس پر تجزیہ نگاری، کار بیکاراں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس آزار کا علاج کیا ہے۔ ایسے کالم نگار اور مبصر بڑی شدت سے کم ہوتے جا رہے ہیں جو طرفین کو اعتدال کے راستے پر چلنے کی ترغیب دیں۔ راہِ اعتدال بذاتہٖ اتنی کمزور اور کم مایہ ہے کہ پاکستانی نقار خانے میں اس طوطی کی کوئی نہیں سنتا۔ دوسری آپشن یہ بھی موجود ہے کہ سیاست پر کسی بھی طرح کی کالم آرائی کی ہی نہ جائے۔ لیکن ایسے غیر سیاسی موضوعات پر لکھنے کے لئے ایک وسیع المطالعہ اساس کی ضرورت ہے۔
البتہ میڈیا مالکان اس ضمن میں ایک اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے کالم نگاروں اور اینکرز کو یہ ٹاسک سونپ سکتے ہیں کہ وہ سیاست کے موضوع سے گریز کرکے دوسرے بے شمار عالمی موضوعات پر لکھیں اور بولیں کہ جن پر اب تک کم لکھا اور بولا گیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا ہمارے سامنے ہے۔ اگر اخبار کا چیف ایڈیٹر یا ٹی وی چینل کا کوئی پروڈیوسر یہ فریضہ اپنے ذمے لے لے کہ لکھنے اور بولنے والوں کو وہ مواد مہیا کر دے جو ترقی یافتہ ممالک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ڈسکس کیا جاتا ہے تو اس سے بہتوں کا بھلا ہو جائے گا۔ اس ذیل میں یہ مشکل ضرور ہو سکتی ہے کہ جو کالم نویس یا اینکرز انگریزی زبان سے کم آشنا ہوں وہ شائد ایسا نہ کر سکیں۔ لیکن میں ہر روز دیکھتا اور سنتا ہوں کہ ہمارے اینکرز ماشاء اللہ انگریزی زبان سے اتنے ہی آشنا ہیں جتنے اپنی قومی زبان سے ہیں بلکہ بعض خواتین و حضرات تو بین الاقوامی میڈیائی کلچر کی ڈیمانڈز پر پورا اترتے ہیں۔ ان کو کہا جا سکتا ہے کہ اندرونی سیاست کے علاوہ باقی موضوعات پر کھل کر نقد و نظر کریں۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ اندازِ گفتگو یا پیرایہء اظہار پاکستانی معاشرے کی سیاست گزیدگی کے درجہء حرارت کو بہت حد تک نیچے لے آئے گا۔ سیاست پر خیال آرائی کرنے والوں کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آدرش یا فکری نصب العین سے ہٹنے یا اِدھر اُدھر ہونے کے ”گناہ“ کا ارتکاب کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک یہ کوئی قومی خدمت نہیں کہ رات کو ٹیلی ویژن پر خبروں کو دیکھا، پڑھا اور فوراً ہی قلم پکڑ کر بیٹھ گئے اور ٹیلی ویژن کی صوت و صدا کو الفاظ و محاورات کا جامہ پہنا کر اپنے اخبار کو بھیج دیا…… اللہ اللہ خیر سلا!
یہ عمل گویا چبائے ہوئے کو چبانا ہے۔ اگر جانور ایسا کریں تو یہ جگالی ان کو زیب دیتی ہے کہ ان کی طبعی ضرورت یہی ہوتی ہے لیکن حضرتِ انسان کی طبعی ضرورت تو یہ نہیں …… وہ آزمائے ہوئے کو آزمانے سے گریز کرتا ہے۔ کوئی نیا نکتہ یا خیال اور اس پر لکھنا یا بولنا اس کی طبعی انسانی احتیاج ہے۔ اس پیمانے سے ماپا جائے تو ہمارے اخباروں میں لکھنے والوں کا ایک بڑا گروہ اس امر کا ذمہ دار گردانا جائے گا کہ اس نے جاری حالات و واقعات کی جگالی پر تو کمر کَس لی لیکن دوسرے کئی سٹرٹیجک نوعیت کے حامل آنے والے حالات و واقعات کو عمداً فراموش کر دیا۔
مذہب، تعلیم، صحت، تاریخ، جغرافیہ، معاشرت، ٹیکنالوجی، فلاح و بہبودِ عامہ، سائنس، فنونِ لطیفہ، ثقافت، آثارِ قدیمہ اور اس طرح کے درجنوں موضوعات ایسے ہیں جن پر لکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہر نئی ایجاد جو حضرتِ انسان کے ذہن سے پھوٹتی ہے وہ اول اول محض ایک ادھورا سا خیال و خواب ہوتی ہے۔ اس پر مسلسل غور و فکر کرکے اس خیال کو عمل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی انسان، گروہ یا قوم افکارِ نو سے ہی عاری ہو جائے تو وہ نئے جہانوں کی خالق کیسے ہو سکتی ہے؟
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خِشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں ایک لمبے عرصے سے دفاعی امورپر کالم لکھ کر ان حضرات و خواتین کی معلومات میں (بزعمِ خود) اضافہ کر رہا ہوں جو بوجوہ اس وادیء پُرخار میں نہیں اتر سکے۔ میں نے چونکہ 29،30 برس تک وردی پہنی اور پاکستان کے تمام جغرافیائی خطوں میں وہاں وہاں جادہ پیمائی کی جہاں پاکستان آرمی صف بند تھی اور ہے۔ خنجراب سے گوادر اور واہگہ سے کوئٹہ تک (شمالاً جنوباً اور شرقاً غرباً) فوجیوں کے ساتھ رہنے کے مواقع ملے۔ اس دوران دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی افواجِ ثلاثہ کے نشیب و فراز بھی پڑھے اور ان کی روشنی میں اردو زبان میں اپنے پاکستانی وردی پوشوں اور سویلین حضرات کے لئے درجن بھر سے زیادہ کتب لکھیں جن کی پذیرائی (الحمدللہ) پاکستان کی افواجِ ثلاثہ کی اعلیٰ ترین سطح پر کی گئی۔ آج بھی میرا موضوع پاکستان کی داخلی سیاسیات کی بجائے دنیا بھر کی خارجی سیاسیات کے گرد گھومتا ہے۔ جہاں میری نظر کسی ایسے موضوع پر پڑتی ہے جو دفاعی اعتبار سے پاکستان کے لئے نفع بخش ہوتا ہے تو اس پر کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ میرا مبلغِ علم و فن اتنا کثیر اور گراں بہا نہیں جو پاکستان کے دفاعی اداروں کے دوسرے اعلیٰ سطحی طبقوں کا ہے۔ لیکن میرے مخاطب تو وہ طبقے نہیں ہوتے۔ میرے سامنے تو پاکستان کی وہ نیم خواندہ (یا واجبی سی خواندہ) عوام ہے جو سیاست زدہ ہو چکی ہے۔ یہ روش قوم گر نہیں، قوم شکن ہے۔ اگر ہمارے عوام نے پاکستان کو آگے لے کر چلنا ہے اور انہوں نے پاکستان کی تقدیر سنوارنے یا بگاڑنے کا فریضہ ادا کرنا ہے تو ان کو سیاسیات کے بھنور سے نکال کر پہلے ساحلِ غیر جانبداریت تک لانا ہوگا اور پھر ایسے موضوعات کو جاننے اور سیکھنے کی ترغیب دینی ہو گی جو ہماری آئندہ نسلوں کی فکری اور عملی آبیاری کر سکیں!
میں اگلے روز وار ٹیکنالوجی کے موضوع پر ایک فکر انگیز تحریر کا مطالعہ کر رہا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ نے ڈرون ٹیکنالوجی سے کیا کیا نئے کام لینے شروع کئے ہیں …… روس اور یوکرین میں جو ”جنگ“ جاری ہے اسے روس لاکھ ”سپیشل آپریشن“ کہتا رہے لیکن اس میں فوجی اور سویلین افراد کی اموات تو ہوئی ہیں، فلک بوس پلازے خاکستر تو ہوئے ہیں اور جدید روائتی جنگ کے حربوں کی آزمائش تو کی گئی ہے۔ انہی آزمائشوں میں ایک آزمائش یہ بھی ہے کہ امریکہ نے روس کے کم از کم 12سینئر جرنیلوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ روسی جرنیلوں کی یہ اموات اس انٹیلی جنس کی وجہ سے ممکن ہو سکی ہیں جو امریکی سیٹلائٹ اپنے زمینی ڈرونوں کو مہیا کرتے ہیں۔ قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کے پاس روس کے درجنوں تھری سٹار جرنیلوں کی آوازوں کے زیر و بم ایک ”صدائی کمپیوٹر“ میں محفوظ ہیں۔ اس کمپیوٹر کو ملٹری انٹیلی جنس سیٹلائٹ میں نصب کرکے روس۔ یوکرائن وار تھیٹر کے اوپر فضا میں معلق کر دیا جاتا ہے۔ روس کا کوئی جرنیل کسی بھی محاذ پر جب اپنے ماتحت کمانڈروں سے گفتگو کرتا ہے تو اس کی رئیل ٹائم ریکارڈنگ سیٹلائٹ میں نصب ”صوتی کمپیوٹر“ کو مل جاتی ہے جو یوکرائن کے سیکٹر ہیڈکوارٹر کو پہنچا دی جاتی ہے۔ وہاں سے فی الفور ایک میزائل فائر ہوتا ہے جو روسی جرنیل کی لوکیشن پر جاگرتا ہے اور اسے آنِ واحد میں ختم کر دیتا ہے……
اندازہ کیجئے کہ اس ڈرون اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی نے روائتی جنگ کے دوران بھی دشمن کو نقصان پہنچانے کا کتنا ”بڑا“ بندوبست کر رکھا ہے…… کسی بنی نوعِ انسان کی آواز کے زیر و بم کی فریکوئنسی کو ایک کمپیوٹر میں جمع کرنا…… اس کو فضا میں کسی انٹیلی جنس سیٹلائٹ میں نصب کرنا…… پھر اسے کسی محاذ کے اوپر ترازو کر دینا…… وہاں سے یوکرائن کے میزائل ہیڈکوارٹر کو رئیل ٹائم انفرمیشن بہم پہنچانا…… فی الفور میزائل فائر کرنا اور ٹارگٹ (روسی جرنیل) کو ٹھکانے لگانا کتنا منطقی اور آسان ہو گیا ہے!……
امریکہ یہ تجربات ایرانی اور افغان جرنیلوں کو ٹارگٹ کرکے کرتا رہا ہے۔ اب اگر وہ چاہے تو زمین پر کسی بھی جگہ کسی ”خاص فرد“ کی آواز کو ٹیپ کر سکتا اور حسبِ ضرورت اس ”آواز“ کو نشانہ بنا سکتا ہے!!…… اور یہ ٹیکنالوجی جو آج امریکہ کے پاس ہے کل کلاں روس اور چین کے پاس بھی ہو گی اور کیا خبر ان کے پاس پہلے سے موجود ہو۔ جدید ترین وار ٹیکنالوجی کے بہت سے راز، دنیا کی ان تینوں سپرپاورز (امریکہ، روس، چین) کے اسلحہ خانے میں محفوظ ہیں اور وقت آنے پر افشاء ہو سکتے ہیں!!!
جو قارئین اس موضوع پر تفصیلی اور سیر حاصل معلومات جاننا چاہیں وہ ”نیویارک ٹائمز“ کے 6مئی 2022ء کے بین الاقوامی ایڈیشن کے صفحہ اول پر اس آرٹیکل سے رجوع کریں جس کی سرخی ہے:
U.S helping Ukraine
Kill Russian Generals