وطن ہمارا،فوج ریڈ لائن

عمران خان کی طرف سے عدلیہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ملک میں ریلیوں کی کال دی گئی جس کے اختتام پر عمران خان نے مختصر سا خطاب کیا۔جس میں ایک بار پھر جنرل فیصل نصیر کا نام لے کر ان کو اپنے اوپر ہونے والے حملوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا، اس روز عمران خان نے ان کا نام نہیں بگاڑا، ان پر ارشد شریف کے قتل اعظم سواتی اور شہباز گل پر تشدد کا الزام بھی دہرایا، اس پر اتحادی حکومت کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے اسی طرح کا شدید ردعمل آیا جیسا عمران خان نے ایک جلسے میں کہا تھا کہ میر جعفر ٹیپو سلطان کا سپہ سالار تھا۔ سپہ سالار کا لفظ استعمال کرنے پر عمران خان کے خلاف اور جنرل باجوہ سے یکجہتی کیلئے قومی اسمبلی میں قرار داد منظور کی گئی تھی۔ عمران خان کے خلاف اب وزیر اعظم شہبازنے جو شاہ چارلس کی تاج پوشی کی تقریب میں شرکت کے لیے برطانیہ گئے ہوئے تھے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔”عمران خان سر سے پاؤں تک جھوٹا اور محسن کش ہے، اس نے پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، سیاسی مقاصد کے لیے پاک فوج اور انٹیلی جنس ایجنسی کوبد نام کرنا اور دھمکیاں دینا قابل مذمت ہے”۔ سابق صدر اور بڑی حکومتی اتحادی پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے کہا۔ ”عمران خان سرحد عبور کر چکا، اس کا زوال دیکھ رہا ہوں“۔ جس روز عمران خان کے بیان پر یہ رد عمل آ رہا تھا اس روز عمران خان نے وزیر اعظم شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے ٹویٹ کیا۔
”کیا مجھے، ایک شہری کو، ان لوگوں کو نامزد کرنے کا حق ہے جنہیں میں سمجھتا ہوں مجھ پر قاتلانہ حملوں کے ذمہ دار ہیں؟ مجھے ایف آئی آر درج کرانے کے لیے میرے قانونی اور آئینی حق سے کیوں محروم کیا گیا؟کیا شہباز شریف کے ٹویٹ کا مطلب یہ ہے کہ افسر قانون سے بالاتر ہیں یا وہ جرم نہیں کر سکتے؟ اگر ہم الزام لگاتے ہیں کہ ان میں سے کسی نے جرم کیا ہے تو ادارے کو کیسے بدنام کیا جا رہا ہے؟ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران وزیر آباد جے آئی ٹی کو سبوتاژ کرنے والا کون اتنا طاقتور تھا؟ کیا شہباز شریف اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ آئی ایس آئی نے 18 مارچ کو میری پیشی سے پہلے شام کو اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس پر قبضہ کیوں کیا؟ آئی ایس آئی کے اہلکار سی ٹی ڈی اور وکلاء میں کیوں چھپے ہوئے تھے؟جب شہباز شریف سچائی سے ان سوالوں کے جوابات دے سکتے ہیں تو سبھی اس کی طرف اشارہ کریں گے۔ ایک طاقتور آدمی اور اس کے ساتھی سب قانون سے بالاتر ہیں۔ اب وقت آگیا ہے ہم سرکاری طور پر اعلان کریں پاکستان میں صرف جنگل کا قانون ہے جہاں Might is Right ہے“۔
وزیر اعظم نے اس کے جواب میں کہا۔ ”عمران خان نے وزیر آباد حملے کا واقعہ گھٹیا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ آپ کی ساری سیاست یوٹرن سے عبارت ہے ٹرول بریگیڈ کس نے بنائی۔ جہاں تک پاکستان کے جنگل بننے کے دعوے کا تعلق ہے، آئیے اسے کسی اور دن کے لیے رکھ لیں“۔ اسی روز شام کو فوجی ترجمان کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جوعمران خان کے سات مئی کے جنرل فیصل نصیر پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے۔ ”چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزامات عائد کیے جو من گھڑت، بدنیتی پر مبنی، افسوسناک، قابل مذمت اور ناقابل قبول ہیں۔ ایک سال سے یہ ایک مستقل طرز عمل بن گیا ہے جس میں فوجی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اشتعال انگیز اور سنسنی خیز پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہم متعلقہ سیاسی رہنما سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانونی راستہ اختیار کریں اور جھوٹے الزامات لگانا بند کریں۔ ادارہ واضح طور پر جھوٹے، غلط بیانات اور پروپیگنڈے کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے“۔
عمران خان جو الزامات لگا چکے وہ اس درخواست میں بھی موجود ہیں جو وزیر آباد حملے پرایف آئی آر درج کرانے کے لیے دی گئی تھی۔ وہ ایف آئی آر درج ہو جاتی تو جنرل فیصل نصیر اپنی صفائی پیش کر دیتے۔ فوجی ترجمان کی طرف سے ایسے الزامات پر قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھنے کی بات کی گئی ہے۔ وہ ضرور ہونی چاہئے۔ اس کے جواب میں عمران خان وہی الزامات دہرائیں گے۔ اگر ان کے پاس ثبوت نہ ہوئے تو قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔
عمران خان کی 9 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتاری ہوئی۔ وہ پیشی کے لیے گئے تھے۔ بائیو میٹرک تصدیق کرا رہے تھے کہ ان کو نیب نے القادر ٹرسٹ کیس میں رینجرز کی مدد سے حراست میں لے لیا۔ ان کو ریڈکرکے گرفتار کیا گیا۔ وہ وہیل چیئر پر تھے ان کو جس طرح کمرے سے باہر لا کر گاڑی میں بٹھایا گیا اس کی ویڈیو عمران خان کے حامیوں میں اضطراب سے زیادہ اشتعال کا باعث بنی۔ وہ لاہور سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہونے گئے تھے۔ روانگی کے موقع پر انہوں نے ویڈیو پیغام میں کہاتھا کہ ان کو گرفتار کرنا ہے تو لاؤ لشکر لانے کی ضرورت نہیں۔ مجھے وارنٹ دکھا دیئے جائیں میں ساتھ چلا جاؤں گا۔ عمران خان کو جس طرح گرفتار کیا گیااس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکرٹری داخلہ اور آئی جی کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے ہیں۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا تھا، یہ عدالت پر حملہ ہے جو ناقابل معافی ہے البتہ چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی گرفتاری کو قانونی بھی قرار دیدیاتھا۔
گرفتاری کے خلاف کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ جلاؤ گھیراؤ کے واقعات پیش آئے متعدد افراد کے جاں بحق ہونے کی خبریں شائع ہوئیں۔ پولیس اہلکاروں سمیت درجنوں زخمی ہوئے۔ پنجاب کے پی کے اور اسلام آباد میں فوج طلب کی گئی ہے۔لاہورمیں کور کمانڈر ہاؤس اور جی ایچ کیو پنڈی میں مشتعل افراد کے داخلے لوٹ مار اور آگ لگانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ کور کمانڈر ہاؤس اور جی ایچ کیو میں چڑیا بھی پر نہیں مارسکتی۔ کیسے گیٹ کھلے کیسے لوگ اندر داخل ہوئے۔ یہ بڑے بڑے سوالات ہیں۔کوئی پاک فوج کا کندھا استعمال کرنے کی تو کوشش نہیں کر رہا۔ پاک فوج کواشتعال تو نہیں دلایا جا رہا۔ دھاوا بولنے والوں کو اکسانے والے کون ہیں؟پاک فوج کے ترجمان کی طرف سے سخت ردعمل آیا ہے۔ ”اب حملہ ہوا تو ردّعمل بھی شدید ہوگا“۔اس بیان سے پاکستان کی مستقبل میں سیاست کا نقشے میں ابہام اور دھندلاہٹ نہیں رہ جاتی۔
عمران خان نے گرفتاری سے قبل کہا تھا کہ یہ فوج میری بھی ہے میں اسے مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں صرف کچھ کرداروں کی بات کرتا ہوں۔ بلاشبہ پاک فوج پر کسی کا اجارہ نہیں۔ یہ وطن ہمارا ہے، فوج بھی ہم سب کی ہے۔ مزید براں پاک فوج ہماری ریڈ لائن بھی ہے۔