ہوا میں اڑتا جائے مورا ۔۔۔
میرا دوست ’’طرم خان‘‘ بھی کمال آدمی ہے ، کبھی ماشہ تو کبھی تولہ ہے۔ چودہ اگست سے چند دن پہلے ان کے مزاج آسمان پر تھے۔ یوں سمجھئے، اٹھارہ سالہ دوشیزہ تھے اور ہواؤں میں اڑتے پھرتے تھے۔ کبھی کبھی بہت ترنگ میں آجاتے تو ’’ہوا میں اڑتا جائے مورا لال دوپٹہ ململ کا ہو جی ہوجی ‘‘ بھی گانا شروع کردیتے ، ان ہی دنوں انہیں دوسری شادی کا نشہ بھی چڑھ گیا۔ بلکہ ایک دو جگہ بات چلانے کی بھی کوشش کی، طرم خان کی بیگم کے لئے یہ دن خاصے پریشانی کے تھے گو کہ تعویز دھاگے پر زیادہ یقین نہیں رکھتی مگر پھر بھی بڑے قبرستان کے ’’اونچے بابا‘‘ کے مزار پر چادر مان کے آگئیں۔ انہی دنوں عمران خان نے چونکہ دوسری شادی کا اعلان کیا تھا اور بھابھی کو ڈر تھا کہ عمران خان نے اگر شادی کی تو طرم خان رکنے والا نہیں ہے مگر دوسرے دن عمران خان نے شادی کا اعلان منسوخ کرتے ہوئے اسے نیا پاکستان کے ساتھ جوڑ دیا۔ بس طرم خان نے بھی دوسری شادی کا پروگرام کینسل کردیا، گوکہ طرم خان نے اپنے قائدعمران خان کے اعلان کی روشنی میں دوسری شادی کینسل کردی تھی اور اصولی طورپر بھابھی کو عمران خان کا شکر گزار ہونا چاہئے ، مگر بھابھی جان نے اونچے بابا مزار کے ، سارے کام سنبھال لئے ہیں، مزار پر جھاڑو دینے کے علاوہ کبوتروں کو دانہ ڈالنے تک کے کام خود سنبھال لئے ہیں۔ یوں سمجھئے، پوری ’’ملنگنی‘‘ بنی پھرتی ہیں۔ بھابھی ملنگ ہوئی پھرتی ہیں تو ادھر طرم خان خاصے الجھے الجھے ، پریشان پریشان اور’’سہمے سہمے‘‘ پھرتے ہیں۔
چودہ اگست سے پہلے والی شوخیاں، نازانداز اور پھڑک پھڑک کے بولنے کا انداز نجانے کہاں کھوگیا ہے۔ دراصل طرم خان میں پہلی بار اس دن تبدیلی آئی جس دن طاہر القادری نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا، طاہرالقادری کے اس اعلان پر طرم خان بظاہر تو بہت مطمئن اور پرسکون نظر آیا، مگر اندر ہی اندر اسے آگ لگی ہوئی تھی۔ حالانکہ طرم خان کے جگری دوست خرم قریشی ولد اللہ دتہ مراثی نے اسے سنبھالنے کی بھی کوشش کی، کہ موصوف خود بھی عمران خان کے دیوانے ہیں کہ طرم خان اچھا ہوا، طاہر القادری سے جان چھوٹ گئی ہے، یہ آگے چل کر بہت بڑا ’’پھڈا‘‘ ڈال دیتا، نواز شریف کے استعفے کے بعد ظاہر ہے، عمران خان نے وزیراعظم بننا تھا، اور اگر طاہر القادری دھرنے میں موجود ہوتا، تو اس نے عمران خان کے خلاف بھی دھرنا دے دینا تھا، تم ایسا کرو دورکعت نفل شکرانہ ادا کرو، اور مزید دونفل طاہر القادری کے کینیڈا جانے کی خوشی میں پڑھو، طرم خان کو خرم قریشی کی بات بہت اچھی لگی، سو وہ مسجد میں دونفل شکرانے کی ادائیگی کے لئے چلا گیا، مگر نماز نفل کی ادائیگی سے پہلے مولوی صاحب نے اپنے پاس بلایا اور پوچھا ، خیر ہے طرم خان آج تمہیں مسجد کی یاد کیسے آگئی، تم تو خیر سے عید بقرید پر ہی آتے ہو، طرم خان شرمندہ تو بہت ہوا، لیکن ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا، میاں صاحب، بس دونفل شکرانے کے پڑھنے تھے۔ مولانا صاحب مسکرائے اور کہا، طرم خان اچھی بات ہے، شکرانے کے نفل بھی پڑھو، مگر ساتھ ہی ساتھ فرائض پر بھی توجہ دو، بات مولوی صاحب تک محدود ہوتی تو طرم خان کی جان چھوٹ جاتی، مگر وہ کہتے ہے ناں کہ :
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
مسجد کے سب سے بزرگ نمازی حاجی صاحب، بھی طرم خان کو دیکھ چکے تھے بس اب ان کی باری تھی، انہوں نے طرم خان کی ایسی ’’کلاس‘‘ لی کہ بیچارہ نہ مرسکتا تھا اور نہ جی، اللہ اللہ کرکے بڑے میاں اور حاجی صاحب سے جان چھڑانے کے بعد وہ دن اور آج کا دن طرم خان نے مسجد والی گلی سے ہی گزرنا چھوڑ دیا ہے، حالانکہ ان چار نوافل کے علاوہ خرم قریشی نے مزید چار نوافل کی تاکید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نوافل اس نیت سے پڑھنے ہیں، کہ اے اللہ اگر طاہر القادری کو کینیڈا واپس بھیجا ہے تو پھر اسے وہیں سنبھال کے رکھ، مگر طرم خان نے یہ نوافل ادا نہیں کئے، امید ہے کہ طاہر القادری واپس آئیں گے، اور سب سے زیادہ نقصان عمران خان کا ہی کریں گے، کیونکہ عمران خان اور سراج الحق اک مک ہوچکے ہیں اور انہیں اب کم ازکم طاہر قادری جدا نہیں کرسکتا، بہرحال طرم خان نے اپنی پریشانی کا ذکر محلے کے کریانہ فروش ’’شیخ صاحب‘‘ کے ساتھ کیا تھا، شیخ صاحب کسی زمانے میں طاہر القادری کے ڈرائیور تھے، مگر مشہور انہوں نے یہ کررکھا ہے کہ وہ ڈرائیور نہیں تھے۔ ان کی دوستی تھی ڈاکٹر صاحب سے، اس لئے کبھی کبھی ان کی گاڑی بھی چلایا کرتے تھے، مگر ہمارے ہاں لوگ کہاں معاف کرتے ہیں یہ جاننے کے لئے شیخ صاحب اور طاہر القادری کی اگر دوستی تھی تو کس حدتک تھی۔ اکثر انہیں تنگ کرنے کے لئے فرمائش کرتے نظر آتے ہیں کہ شیخ صاحب بچے بہت ضد کرتے ہیں، کہ علامہ طاہر القادری کے ساتھ تصویریں بنوانی ہیں، کسی دن مہربانی کرکے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بچوں کی تصویریں بنوادو، شیخ صاحب بھی پورے دنوں کے ہیں، ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ دیکھو بھائی کیا زمانہ ہے کہ لوگ اب علماء کے ساتھ بھی تصویریں بنوانے کی فرمائش کرتے ہیں اور جانتے ہوئے بھی کہ تصویریں بنانا حرام ہے، ان کے اس جواب پر لوگوں نے سوال اٹھایا کہ اگر اسلام میں تصویر بنانا حرام ہے تو پھر طاہر القادری روزانہ تین تین گھنٹے کیمروں کے سامنے تقریریں کیوں کرتے ہیں۔ شیخ صاحب بھی طاہر القادری کے ڈرائیور رہے ہیں، وہ بڑے آرام سے جواب دیتے ہیں کہ تصویر وہ ہوتی ہے جو فریم کرائی جاسکے اور ویڈیو کو چلایا جاسکتا ہے، فریم نہیں کرایا جاسکتا، ان کے اس جواب پر سوال کیا جاتا کہ کیا یہ طاہر القادری کا ’’فتویٰ‘‘ ہے۔
شیخ صاحب تھوڑا سا مسکراتے ہیں اور پھر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ کہتے ہیں پورے پندرہ برس طاہر القادری کے ساتھ گزارے ہیں، اب اس طرح کے چھوٹے موٹے فتوے بھی نہ دے سکوں تو پھر ان کی ’’صحبت‘‘ کا کیا فائدہ ہو، اب ہمیں معلوم نہیں ہے کہ طرم خان نے شیخ صاحب کے ساتھ طاہر القادری کے بارے میں کیا گلے شکوے کئے، البتہ چند روز سے ان کی دکان پر سے سودالینا چھوڑ دیا ہے اور دبے لفظوں میں دوستوں کو بھی منع کرتے ہیں کہ شیخ صاحب اب دونمبری پر آگئے ہیں، ہر شئے میں ملاوٹ کرتے ہیں، مگر طرم خان اداس بہت ہے ، اسے عمران خان کے اکیلے رہ جانے کا بہت دکھ ہے وہ عمران خان کے غم میں نڈھال ہوچکا ہے اور تھوڑا تھوڑا بولنے بھی لگا ہے ، کل شام اس نے اپنا سارا درد بیان کرتے ہوئے کہا، عمران خان کو برباد کرنے میں شیخ رشید، شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری اور سیف اللہ نیازی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ان لوگوں نے اس کے ذہن پر ایسا قبضہ جمایا ہے کہ وہ سیاسی طورپر مکمل طورپر ناکام ہوگیا ہے۔ اس نے ایک سیاسی تحریک کو ایک کھیل تماشہ بناکر رکھ دیا ہے۔ اسے اس بات کا احساس نہ رہا کہ وہ کروڑوں لوگوں کی آنکھوں کا تارا ہے، لاکھوں لوگوں نے اسے اور اس کی جماعت کے دیگر لوگوں کو قومی اور صوبائی اسمبلی تک پہنچایا ہے۔
عوامی طاقت کے ذریعے اس نے کے پی کے میں حکومت بنائی ہے، عوام نے اسے بہت بڑے مینڈیٹ کے ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے سیاسی کردار کے لئے بھیجا تھا، مگر اس کے نادان ساتھیوں نے جہاں عوامی مینڈیٹ کی توہین کی، وہاں اسے ایسے سیاسی راستے پر دھکیل دیا، جس سے واپسی کے لئے اسے جو بھی راستہ دیا گیا، اس نے اس راستے سے واپسی سے انکار کردیا، اس کے اس سیاسی طرز عمل سے ملک کے عوام بہت مایوس ہوئے ہیں، اس کے اپنے ساتھی اس کے ساتھ خفا ہوچکے ہیں، جاوید ہاشمی کا اس کے سواکیا قصورتھا کہ اس نے اسے غیرآئینی اور غیرقانونی راستے پر چلنے سے روکا تھا، مگر اس نے ایک سینئر سیاستدان کی نہ صرف توہین کی بلکہ اسے پارٹی سے ہی نکال دیا اور پھر اس کی چھوڑی ہوئی نشست پر ایک ایسے شخص کی حمایت کا اعلان کردیا، جو تحریک انصاف کے لیڈروں کی حمایت کی وجہ سے کامیاب بھی ہوگیا ، اور اس کے مقابلے میں ایک جرأت مند ،بہادر اور مخلص جاوید ہاشمی کو شکست ہوگئی اور مزید بدقسمتی یہ ہے کہ اتنی بدنامی اٹھانے اور ملتان سے عامر ڈوگر کو کامیاب کرانے کے باوجود وہ اسے اپنی پارٹی میں شامل کرنے پر رضامند نہ ہوا۔
طرم خان عمران خان کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہوئے ، بہت جذباتی ہوگیا، اس کے آنسو نکل آئے اور اس نے دکھی دل کے ساتھ پوچھا، کیا عمران خان کی باعزت واپسی کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے، میں نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا، وہ دیکھو عمران خان اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کے ساتھ ملاقات کرنے کے لئے ان کی رہائش گاہ پر پہنچ چکا ہے۔ مجھے امید ہے کہ انسان اگر حقیقی سیاستدانوں کے ساتھ روابط بڑھائے، سیاست کو سیاست کے انداز میں کھیلے تو باعزت واپسی کے لئے ایک نہیں ایک سو دس راستے موجود ہیں، لیکن اگر شیخ رشید، شاہ محمود قریشی کے کھودے گئے کنویں پھلانگنے کی کوشش کرے ،تو کسی نہ کسی کنویں میں گرہی جاتا ہے، بہرحال گھبرانے کی کوئی بات نہیں تمہارا لیڈا سرخرو ہوگا، طرم خان مسکرایا اور کہا میں خوشی خوشی گھر چلا جاؤں، میں نے کہا، خوشی خوشی نہیں، تم باقاعدہ ناچتے اور گاتے ہوئے جاؤ :
ہوا میں اڑتا جائے میرالال دوپٹہ ململ کا ہوجی ہوجی ‘‘