آٹے دال کی قیمت کم کیوں نہیں ہو رہی؟
یکم نومبر 2014ء سے تیل کی قیمتیں تقریباً نو دس فیصد تک کم ہو گئی ہیں۔ لیکن کیا اسی تناسب سے اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بھی کم ہوئی ہیں؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہوگا۔ لوگ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ تیل کی قیمت جب بھی بڑھتی ہے، ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ ماضی میں چونکہ تیل کی قیمت بتدریج اور مسلسل اوپر جاتی رہی، اس لئے ہم سینکڑوں اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو ہونی شدنی سمجھ کر قبول کرتے رہے۔ہر 15روز بعد تیل کی قیمت بڑھ جاتی تھی اور ساتھ ہی سبزیوں، پھلوں، دودھ، دہی اور دال ساگ کی قیمت بھی اوپر چلی جاتی تھی۔لوکل اور انٹرسٹی ٹرانسپورٹ کا بھی یہی حال تھا۔ لیکن اب اگر تیل کی قیمت کم ہوئی ہے تو لوگوں کو عام شکائت ہے کہ روز مرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتیں وہی کیوں ہیں جو یکم نومبر 2014ء سے پہلے تھیں۔
تیل کی اس قیمت کی کمی کی وجہ تو دراصل بین الاقوامی تیل مارکیٹ میں قیمتوں کی کمی ہے، لیکن ہم اس مشکل موضوع کی طرف فی الحال نہیں آتے کہ گلوبل مارکیٹ میں تیل کی قیمت گرنے کی سٹرٹیجک وجوہات کیا ہیں۔ یہ باتیں ہمارے کنٹرول میں نہیں۔ہم تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سے ہوتے تو شائد بجائے خوش ہونے کے ناراض اور مایوس ہو جاتے لیکن ’’الحمدللہ‘‘ کہ ہم تیل خرچ کرنے والے ممالک میں سے ہیں، اس لئے ہمارے لئے عارضی طور پر ہی سہی، یہ خوشی کا مقام ہے۔لیکن یہ خوشی تنخواہ دار طبقے، پنشن یافتہ طبقے یا اس طبقے کو کوئی ریلیف نہیں دے رہی جس کی آمدن فکسڈ ہے۔ یہ طبقہ جب اپنی گاڑی/ موٹرسائیکل میں تیل بھرواتا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ برائے نام ہی سہی، ریلیف تو مل جاتی ہے، لیکن بازار میں تھوک اور پرچون فروشوں کی پکڑ دھکڑ کا کوئی نظام نہیں۔یہ ان کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ چاہیں تو قیمتیں کم کر دیں یا چاہیں تو برقرار رکھیں۔حکومت کا اشیائے خرید و فروخت کے نرخوں پر کوئی کنٹرول نہیں۔پاکستان میں جس طرح کی جمہوریت ہے اس کا ’’حسن‘‘ یہی ہے کہ یہاں ہر چیز کنٹرول سے باہر ہے۔
تحریک انصاف کے عمران خان صاحب کا دعویٰ ہے کہ یہ کمی ان کی لائی ہوئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اگر گزشتہ تین ماہ سے عوام کی بیداری کا پروگرام نہ چلاتے تو یہ ریلیف کہاں ملتی؟ شائد آپ بھی میری طرح اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکیں گے کہ تیل کی قیمت میں یہ کمی عمران خان کی دھرنا مہم کے طفیل آئی ہے یا عالمی منڈی میں تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے۔۔۔ بظاہر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ کئی برسوں میں کئی بار تیل کی قیمتوں میں اتار آیا لیکن اس کا فائدہ پاکستانی عوام تک نہیں پہنچا۔ اب عمران خان نے حکمرانی کے آداب کے بہت سے بند کھول دیئے ہیں، بہت سے سربستہ حکومتی راز جو پہلے برسر عام نہیں لائے جاتے تھے، بے نقاب کر دیئے ہیں اور بہت سے پنہاں اسرار و رموز کو عیاں کر دیا ہے۔اس لئے قیاس کیا جاتا ہے کہ شائد حکومت نے عمران خان کے تابڑ توڑ حملوں کے خوف سے فیصلہ کیا ہو کہ کچھ بھی ہو یہ کڑوی گولی نگل ہی لینی چاہیے۔
کئی بار مجھے یہ خیال بھی آیا ہے کہ کیا اس قسم کی کڑوی گولی نگلنے کے لئے ہمیشہ ایک عمران خان کی ضرورت ہوتی ہے یا حکمران طبقہ خود ہی اتنا خدا خوف ہوتاہے کہ عوام کے دکھ کا احساس کرنے کا کبھی کبھی ارتکاب کر ہی لیتا ہے؟ عمران خان نے تو یہ مطالبہ بھی کر دیا ہے کہ تیل کی قیمت کی یہ کمی اتنی نہیں جتنی ہونی چاہیے۔اس میں مزید کمی کی جائے اور اس طرح بجلی کی قیمت میں بھی کمی کی جائے۔لیکن میرا خیال ہے یہ بجلی والا معاملہ ابھی الٹی طرف جا رہا ہے۔ بجائے کمی کے اس میں زیادتی ہو رہی ہے۔اگست 2014ء کے بلوں میں جو خوفناک اضافہ کیا گیا تھا اس کی معافی تلافی کا بھی کوئی بندوبست نظر نہیں آتا۔کسی بجلی تقسیم کمپنی نے ابھی تک یہ عندیہ نہیں دیا کہ آنے والے کسی مہینے میں اگست والی زیادتی کا ازالہ کر دیا جائے گا۔ واپڈا نے تو سارا ملبہ ہی بجلی تقسیم کمپنیوں پر ڈال دیا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ بے نظیر بے قصور ہے۔ جو کرتوتیں ہو رہی ہیں وہ بجلی تقسیم کمپنیاں کررہی ہین، کوئی ان سے پوچھے واپڈا اور بجلی تقسیم کمپنیوں کی کیا دو الگ الگ وزارتیں ہیں؟ کیا ان کا وفاقی وزیر کوئی اور خواجہ صفدر ہے؟۔۔۔حکومت نے اپنے وزرائے کرام کی ایک سبھا بھی کئی روز پہلے قائم کی تھی۔ لوگوں کی توقعات تھیں کہ شائد اس میں کوئی مثبت فیصلے کئے جائیں گے۔لیکن حکومت نے صرف وہی فیصلے کئے جو اس کے حق میں مثبت تھے۔ عوام کے حق میں مثبت فیصلے کرنے کا وقت شائد ابھی نہیں آیا۔
عمران خان کی یہ بات ویسے دل کو لگتی ہے کہ ان کے مسلسل دھرنوں اور ان دھرنوں میں حکومتی کرتوتوں کے پوسٹ مارٹم کی وجہ سے تیل کی قیمت میں یہ ریلیف ممکن ہوئی۔اس تناظر میں، میں نے اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ اس میں میڈیا کا کیا اور کتنا رول ہے۔اگر کسی گہرائی میں جا کر دیکھیں تو میڈیا کا ایک رول مثبت اور متحرک ہے اور دوسرا کم فائدہ بخش اور ساکن ہے۔۔۔ میں اس کی تھوڑی سی وضاحت کرتا ہوں۔
میڈیا کا مثبت رول یہ ہے کہ اس نے عمران خان کی دھرنا مہم کو اچھالا، متحرک کیا اور اس کو وہاں وہاں تک پہنچایا، جہاں تک ٹیلی ویژن نشریات کی رسائی تھی۔ 14اگست کو عمران نے جو مہم شروع کی تھی اس کے حق میں اور اس کی مخالفت میں بہت سی بحثیں اور مباحثے اور ٹاک شوز کئے گئے۔ لیکن پلڑا اُس طرف جھکا جس طرف عامۃ الناس کی آہ و بکا اور فریاد وفغاں کا جھکاؤ تھا۔دل سے سچی بات نکلی ہوئی ہمیشہ اثر انگیز ہوتی ہے۔ عمران خان نے جو جو حقائق عوام کے سامنے رکھے، ان کو جھٹلانا سخت مشکل تھا۔ انہوں نے زورِ بیان میں تہذیب و اخلاقِ گفتگو کا وہ قرینہ بھی سخت مجروح کر دیا جو قبل ازیں ایک معمول (Norm) بنا ہوا تھا۔لوگ اس پر حیران بھی ہوئے، جزبز بھی ہوئے اور اسے بنگاہِ کراہت بھی دیکھا اور سنا۔ لیکن کوئی عوامی/ قومی لیڈر جب عوام کی آرزو کو زبان دیتا ہے تو پھر اخلاق و تہذیب کی ردائیں بعض اوقات سلامت نہیں بچتیں اور تار تار ہو جاتی ہیں۔وہ لیڈر اپنے سر پہ الزام تو لیتا ہے کہ اس نے ضابطہ ء اخلاق کو توڑا اور اس کی خلاف ورزی کی لیکن جب لوگ طیش میں آتے ہیں تو وفورِ جوش سے ہوش سلامت نہیں رہتے، سیاسی لیڈر اللہ کے ولی نہیں ہوتے کہ غیض و غضب کو پی جائیں۔ ان کی زبان عوام کی زبان بن جاتی ہے اور لب و لہجہ عامۃ الناس کا روز مرہ ہو جاتا ہے۔
میڈیا کا دوسرا رول جس کو میں نے کم فائدہ بخش اور ساکن کہا ہے، وہ پریس میڈیا کا رول ہے۔ اس سے میری مراد یہ سوال ہے کہ اگر کوئی عمران خان کسی اخبار میں وہی بیان دیتا جو اس نے ٹیلی ویژن پر دیا تو اس کا کیا اثر ہوتا؟ نجانے مجھ جیسے کتنے کالم نگار ہر روز بزعمِ خود اربابِ حکومت کو پندو وعظ سے نوازتے ہیں، ہدائت نامے جاری کرتے ہیں اور تجاویز و سفارشات مرحمت فرماتے ہیں، لیکن کیا کسی کے کانوں پر کوئی جوں بھی رینگتی ہے؟ اگر کسی کو شک ہو تو عمران خان کو کہیں کہ وہ کسی پریس میڈیا میں ہر روز ایک کالم جناب نوازشریف کی ’’مدح‘‘ میں لکھ کر دیکھ لے۔ ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں سے کسی اخبار کا پورا ادارتی صفحہ بھی بھر دیں توتیل کبھی اتنا سستا نہیں ہو گا جتنا پچھلے دنوں ہوا!
الیکٹرانک میڈیا اور پریس میڈیا میں یہی سب سے بڑا فرق ہے۔تحریر میں وہ غیض و غضب نہیں دکھایا جا سکتا جو تقریر میں دکھایا جا سکتا ہے اور ساری دنیا کو بیک وقت دکھایا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے الیکٹرانک میڈیا ایک انقلابی میڈیا ہے اور اس کی تاثیر سے انکار گویا کفر ہے!
ایک دوسرا کفر شوبز کی تاثیر سے انکار ہے۔عمران خان کے دھرنوں میں شوبز کی بے لگام جھلکیاں تو نہیں ہوتیں، لیکن ان کا عکس ضرور ہوتا ہے۔ان کے ساتھ ہی چند گز کی دوری پر علامہ طاہر القادری بھی الیکٹرانک میڈیا پر اپنے جاہ و جلال کا اظہار فرماتے رہے، لیکن ان کے دھرنوں میں چونکہ یہ عکس غائب رہا، لہٰذا ان کو ایک ایسے ملک جانا پڑا، جہاں کا پتہ پتہ اور بوٹا بوٹا شوبز کا عکس بھی ہے اور عکاس بھی۔اس بار جب وہ پاکستان لوٹیں گے تو شائد اپنے آئندہ دھرنوں میں اس ’’کمی‘‘ کا کوئی توڑ کرکے آئیں۔ویسے بھی سیاست کی دنیا اور ہے اور دین کی دنیا اور ہے۔ حضرت علامہ کو چاہیے کہ آئندہ اپنی دھرنا مہم میں دین اور دنیا کو الگ کرکے ’’چنگیزی‘‘ نہ کریں!
قارئین کرام، آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ میرے اس کالم کی زبان بھی میرے معمول کے اسلوب سے تھوڑی سا مختلف ہے اور موضوع بھی۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں کل کسی ڈیپارٹمنٹل سٹور میں اپنی پسند کی جرابیں ڈھونڈ رہا تھا۔ایک شخص میرے قریب آیا اور گھورنے لگا۔ میں نے دریافت کیا: ’’فرمایئے، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘
’’سر، کیا آپ کا نام کرنل غلام جیلانی خان ہے اور آپ اخبار میں کالم بھی لکھتے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں! یہی میرا نام ہے اور کالم نویسی کا قصور بھی کبھی کبھی کر لیتا ہوں‘‘
’’سر، کبھی کبھی ہمارے لئے بھی کوئی کالم لکھا کریں۔آپ کے موضوعات اور باتیں سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں‘‘۔
’’مثلاً کیا لکھوں اور کس پر لکھوں‘‘
’’یہی لکھیں کہ نوازشریف نے تیل کی جو قیمت کم کی ہے تو آٹے دال کی قیمت کیوں کم نہیں ہو رہی؟