پاکستان کا قومی نظام عرصہ درازسے پسماندگی کا شکار ہے، سید تراب علی
لاہور(ایجوکیشن رپورٹر) سماجی تنظیم نے لڑکیوں کی تعلیم اور معاشرتی تبدیلی پراجیکٹ کے تحت گزشتہ روز پریس کلب لاہور میں پراجیکٹ کے متعلق میڈیا بریفنگ کا انعقاد کیا جس کا مقصدآواز فاﺅنڈیشن کی لڑکیوں کی تعلیماور اسکولوں سے اخراج پر مبنی ریسرچ سٹڈی کے حوالے سے میڈیا کے ارکان کو بریفنگ دی گئی ، میڈیا بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے پراجیکٹ منیجر سید تراب علی گیلانی نے کہا کہ پاکستان کا قومی نظام عرصہ درازسے پسماندگی کا شکار ہے تعلےم پر صرف مجموعی داخلی پےداوار کا2.4فےصد خرچ کےا جا تا ہے۔اگر اس کو بےن الاقوامی سطح ُپر موازنہ کےا جائے تو 4.9فےصدحصہ تعلےم کا عالمی ترقےاتی اہداف کے حصول کے لئے خرچ ہو رہا ہے۔ 22 فےصدلڑکےاں47 فےصدلڑکوں کے مقابلہ مےںپرائمری تعلےم مکمل کر تی ہےں سکول مےں بے داخلی کا تناسب پرائمری سے ہائی سکول مےں زےادہ ہے۔محکمہ UNESCOکے تعلےمی شمارےا ت کے مطابق پاکستان مےںڈھائی کروڑ سے زےادہ بچے سکول سے بے داخل ہےں اور لڑکےوں کی بے داخلی کا تناسب لڑکوں کے مقابلے میں زےادہ ہے ۔صوبہ پنجاب خصوصی طور پر ساﺅتھ پنجاب مےں لڑکےوں کے تعلےم کے حالات بہت ماےوس کن ہےں َساﺅتھ پنجاب کے بہت سارے حصوں مےں پرائمری کے بعد لڑکےاں سکول نہےں جاتےں ،ضلع مظفر گڑھ کی ّبادی 41.9لاکھ ہے۔ جس میں خواتین کی تعداد 47.61فیصد ہے اور اس کی 87 فیصد آبادی دیہاتوں میں آباد ہے۔
ضلع مظفر گڑھ کو تعلیمی لحاظ سے 36اضلاع میں سے (تعلیمی لحاظ سے کمی) میں 35ویں نمبر پہ رکھا گیا ہے۔ جو کہ بہت پریشان کن حالات ہیں۔ تعلیم کا تناسب 20.5فیصد ہے اور لڑکےوں کی تعلیم کا تناسب 19.2فیصد ہے۔ پاکستان کے سماجی رہن سہن کے مطابق 100لڑکےوں میں سے 22لڑکےاں سکول میں داخل ہوتی ہیں۔ اور ان میں سے 19لڑکےاں پرائمری تعلیم مکمل کرتی ہیں۔ اور سکول سے بے داخلی کا تناسب پرائمری سے مڈل میں اور بھی زےادہ ہے۔ اور 19میں سے 13لڑکےاں جن کی عمر 10سے 12سال ہے وہ مڈل میں داخلہ لیتی ہیں۔ اور 19میں سے 10لڑکےاں جن کی عمر 13سال 16سال ہے وہ ہائی سکول میں داخلہ لیتی ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سماجی تنظیم کی کمیونیکیشن آفیسرشازیہ نواز نے کہا کہ تنظیم کی رپورٹ کے مطابق جنوبی پنجاب میں 10میں سے 07 لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں ِ، اور کچھ لڑکیاںجو شادی کے بعد اپنی تعلیم کسی نہ کسی طرح جاری رکھنا چاہتی ہیں ، سکول انتظامیہ انکو داخلہ دینے سے انکارکر دیتی ہیں ،ہم نے اس مسئلہ کی مزید چھان بین کی اور باقاعدہ طور پر ایک ریسرچ سڈی کی تاکہ ایسی بچیوں کی تعداد اور وجوہات کا پتہ چل سکے،