لاڑکانہ بھٹوز کا شہر ضرور ہے، لیکن یہ پاکستان کا حصہ ہے

لاڑکانہ بھٹوز کا شہر ضرور ہے، لیکن یہ پاکستان کا حصہ ہے
 لاڑکانہ بھٹوز کا شہر ضرور ہے، لیکن یہ پاکستان کا حصہ ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ چودھری خادم حسین
یہ درست کہ لاڑکانہ بھٹوز کا شہر ہے۔ لیکن یہ پاکستان ہی کا حصہ ہے۔ یہاں عباسی بھی رہتے ہیں اور کھوڑو بھی یہیں کے باشندے ہیں اور بھی کئی قبیلوں کے لوگ رہتے ہیں، اس لحاظ سے اس شہر میں کسی کی آمد کو روکا تو نہیں جا سکتا اور نہ ہی کسی کو کسی سے اجازت لینے کی ضرورت ہے اور نہ پہلے کبھی لی گئی، لیکن ہمارے شاہ محمود قریشی بات بنانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں وہ کہتے ہیں 21جنوری کو عمران خان لاڑکانہ آ رہے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں اس روز سونامی لاڑکانہ میں ہوگا تاہم شاہ محمود قریشی کا یہ فقرہ عجیب تاثر کا حامل ہے کہ ”لاڑکانہ آنے کے لئے ہمیں زرداری سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں“۔ معلوم نہیں ان سے کس نے یہ کہا کہ لاڑکانہ جانے کے لئے سابق صدر آصف علی زرداری کی اجازت ضروری ہے، بلکہ پیپلزپارٹی کے رہنماﺅں نے تو عمران خان کی آمد کو خوشی سے قبول کیا اور جلسے کے لئے خوش آمدید کہا ہے۔ لیکن شاہ محمود اس نوعیت کی بات کرکے شاید لاڑکانہ کے عوام کو مشتعل کرنا چاہتے ہیں جن کو بہرحال اشتعال میں نہیں آنا چاہیے کہ جلسہ کرنا سب کا حق ہے۔
شاہ محمود قریشی کو جواب سینیٹر ڈاکٹر جہانگیر بدر نے دیا ہے کہ شاہ محمود لاڑکانہ جا کر سجدے کرتے رہے، ان کی مراد گڑھی خدا بخش حاضری ہے تو یہ الگ بات ہے لیکن یہ شاہ محمود محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں نوڈیرو اور گڑھی خدا بخش میں تقریریں بھی کرتے رہے ہیں۔ان کا ریکارڈ بھی موجود ہوگا وہ لاڑکانہ کے جلسہ سے قبل ان کا مطالعہ کرلیں تو ان کو سہولت ہو گیکہ اس شہر میں اب وہ نئے قائد کی تعریف کریں گے۔
لاڑکانہ کے جلسہ کے حوالے سے کئی اندازے اور تخمینے لگائے جا رہے ہیں لیکن ہماری گزارش اتنی ہے کہ یہ جلسہ بھی عمران خان کے معقول جلسوں میں سے ہی ہوگا کہ روائت کے مطابق جلسے میں صرف لاڑکانہ والے تو نہیں ہوں گے ارد گرد کے شہروں سے بھی لوگ آئیں گے اور پھر شاہ محمود قریشی تو اپنی درگاہ کے مریدین کو بھی ہدائت جاری کریں گے وہ اپنے سجادہ نشین پیر کی خوشنودی کے لئے جلسے میں آئیں گے یہ الگ بات ہے کہ یہ محترم قریشی کو انتخاب میں نہیں جتوا سکے تھے۔ یوں بھی جب شاہ محمود محترمہ شہیدکی جگہ اپنے نئے رہبر عمران خان سے پہلے خطاب میں ان (عمران) کی صفات بیان کررہے ہوں گے تو ان کو محترمہ یاد تو ضرور آئیں گے جو سرائیکی بیلٹ کے دوروں کے دوران خود کہہ کر اپنے سے پہلے شاہ محمود کی تقریر کرواتی تھیں کہ وہ مجمع کو گرما دیں۔
یہ اپنی جگہ تاہم تحریک انصاف اس سے قبل ننکانہ اور گوجرانوالہ جیسے شہروں میں بھی جلسے کرے گی اور یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے انتخابی مہم جاری ہو، اب تو صورت حال کچھ یوں بھی ہو گئی کہ عمران خان اور مسلم لیگ (ن) میں مکالمہ بازی کا مقابلہ ہے، کپتان نے بات کی اسحاق ڈار نے جواب میں تجویز مسترد کردی اور شاہ محمود قریشی کے ساتھ ساتھ خود عمران خان اور شیریں مزاری نے دعویٰ کر دیا کہ یہ بالکل آئینی اور قانونی ہے جبکہ اسحاق ڈار کہتے ہیں جوڈیشل کمیشن بنانا چیف جسٹس کا کام ہے اس میں مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ جوڈیشل کمیشن بہرحال فاضل جج صاحبان پر مشتمل ہوتا ہے۔
یہ تنازعہ اپنی جگہ ،کپتان تو خوش ہوں گے کہ انہوں نے اعتراض کیا اور جسٹس تصدق حسین جیلانی نے بھی چیف الیکشن کمشنر بننے سے معذرت کرلی اور کہا کہ سب کو اتفاق ہو تو وہ غور کر سکتے ہیں، لیکن یہاں تو تحریک انصاف نے اعتراض کر دیا ہے۔ اب تو یہ احساس ہوتا ہے کہ سیاست دان کسی بھی مسئلہ پر اتفاق رائے میں ناکام ہو رہے ہیں، اب یہ عمران خان کی وجہ سے ہو یا پھر ڈاکٹرطاہرالقادری کا فرمان ہو، بہرحال چیف الیکشن کمشنر کی نامزدگی 13نومبر تک مشکل ہوگئی اس کا اگلا حل یہ ہے کہ حکومت اور قائد حزب اختلاف اپنی اپنی طرف سے تین تین نام تجویز کر دیں اور یہ چودہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلے جائیں جو دو ہفتوں میں ایک نام پر متفق ہوکر تجویز کرے گی اور تجویز کردہ شخصیت کو مقرر کردیا جائے گا، یہ بھی ہو گیا تو مستقل حل نہیں ہوگا کہ ایجی ٹیشن جاری ہے، واحد حل وہی ہے جس کی کنجی کپتان کے پاس ہے کہ پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات منظور کرائی جائیں اور پورا الیکشن کمیشن ہی نئے ضابطوں کے تحت نیا بنے، بہرحال اسے بھی بحران ہی کہا جارہا ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما، سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے ایک بار پھر گرینڈ الائنس (وسیع تر سیاسی اتحاد) کی بات کی ہے۔ہم ان سطور میں بتا چکے ہوئے ہیں کہ وسیع تر سیاسی اتحاد کے لئے ڈاکٹرطاہر القادری کی عوامی تحریک، عمران خان کی تحریک انصاف، چودھری برادران کی (ق) لیگ اور شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کے درمیان اس مسئلہ پر مذاکرات بھی ہوتے رہتے ہیں، تاہم اس میں جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے علاوہ پیر پگارو کی فنکشنل لیگ کو شامل کرنے کی جورائے اور خبر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔غالباً اسے ہی گرینڈ الائنس کہا جا رہا ہے اور یہ خدمت اب چودھری شجاعت حسین انجام دینے کی کوشش کررہے ہیں، اس بارے میں تاحال کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ عمران خان، ڈاکٹرطاہرالقادری، پیر پگارو اور سراج الحق تو لیڈنگ رول سے کم پر راضی نہیں ہو سکتے، ایسے میں نصراللہ خان یاد آتے ہیں کہ وہ ہوتے تو پریذیڈیم بنا کر کام چلا لیتے جو اب ذرا مشکل ہے، بہرحال یہ منزل ابھی دور ہے، اس وقت تو 30نومبر اور مذاکرات والی بات چل رہی ہے، نتیجے کا انتظار کرنا ہوگا۔


مزید :

تجزیہ -