تھر کا مور

تھر کا مور
 تھر کا مور

  

اس روز کوئی چھ ماہ بعد وہ اپنی رہائش گاہ سے نکلا، بیساکھیوں کے سہارے چند سو قدم چل کر 'گرجا چوک لاہور کینٹ' گیا، اے ٹی ایم سے کچھ پیسے نکلوائے، بڑے مان اور چاو سے خوبصورت پھولوں کا ایک گلدستہ بنوایا۔ گلدستہ ہاتھ میں تھامے ہوئے اس کے چہرے کی تابانی دیدنی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے ان پھولوں کی ہر پتی اس کی رگوں میں اندگی بن کر دوڑنے لگی ہے۔ واپس آکر ایک بوتل میں پانی ڈالا اور گلدستہ اس میں سجا دیا تاکہ شام تک پھول تازہ رہیں۔ سر شام اس کے فزیو تھیراپسٹ نے اس کی ٹانگ پر لگا پلستر اتار دیا اور کہا کہ اب تم چل پھر سکتے ہو۔ بس پھر کیا تھا اس کے قدم زمین پر نہیں ٹک رہے تھے، تھر کی مٹیالی وسعتوں میں'پیلاں پاوندے مور' اس کے قدموں میں تھرکنے لگے۔۔۔شام ہوئی تو اس نے عمران باجوہ سے کہا، 'بس کر سیٹھا، شاماں پے گئیاں نیں" (بس کرو سیٹھ صاحب، شام ہو چکی ہے)۔ اس کی صحبتیں شفقت اللہ، عمران باجوہ اور ارشاد امین جیسے متروں کے ساتھ قہقہہ بار ہوتیں، ان کی سنگت میں اس کی شامیں رنگین ہو جاتیں، ان کے ہمراہ ایام کی تلخی ہنس کر پی جانے میں اسے کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ اس شام دوستوں نے اس کی صحت یابی کی خوشی میں جشن منانے کا اہتمام کیا۔ تھر کا مور اٹھا، اس نے اپنی محبتوں کے ست رنگی پنکھ پھیلائے اور گلدستہ عمران باجوہ کو پیش کرتے ہوئے کہا، 'تھینک یو مانی، فار ایوری تھنگ' (مانی یار اس سب کچھ کے لیے شکریہ)۔ یہ کہہ کر اس ظالم نے وہاں بیٹھے یار بیلیوں کے دل ایک بار پھر موہ لیے۔ شفقت اللہ بتاتے ہیں کہ اس شام وہ بہت زیادہ خوش تھا، ایسی خوشی اس کے چہرے پر اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ وہ بار بار اٹھتا اور دوستوں کیسامنے اپنے قدموں پر چل کر خوش ہو تا۔ وہ بہت شاداں تھا، اس کا چہرہ ایک طویل اور تکلیف دہ علالت کاٹنے کے باوجود بھی بہت چمک رہا تھا، وہ بہت پر جوش تھا۔

تھر میں پیدا ہوا، ماں کا پہلا بیٹا تھا، باپ نے دوسری شادی کر لی، تیرہ برس کی عمر میں باپ نے گھر سے نکال دیا، دادی کے پاس رہا، لاہور آگیا۔۔۔۔ یہاں اسے وہ دوست ملے جنہوں نے عمر بھر وفا کی، لیکن وہ کسی ایک جگہ ٹکنے والا کہاں تھا۔ دنیا بھر کی خاک چھان ڈالی، کبھی امریکہ تو کبھی برطانیہ ،کبھی نیپال تو کبھی گلگت بلتستان میں ڈیرے۔ملکی اور غیر ملکی جرائد۔۔۔۔حیدر ہر جگہ چھپا، ہر جگہ پڑھا گیا۔ کیسے کیسے تغیرات ، کیسے کیسے انقلابات اس نے نہ دیکھے۔۔۔ ششی تھرور جب اقوام متحدہ میں تھے تو وہ ان کا انتہائی معتمد معاون تھا، کوفی عنان کے ساتھ دو ماہ کام کیا لیکن ایک ساتھی خاتون اہلکار کے ساتھ 'پھڈا' کیا اور نوکری کو لات مار کر اطمنیان کیساتھ چل دیا۔ بے پرواہ، آوارہ، بنجارہ، دوستوں کا دوست، تمام جاننے والوں کا منہ چڑاتا لیکن پھر بھی سب کا جگر ی رہا۔ آوارگی میں حد سے کیسے گزرنا چاہیئے ، اس کی ساری زندگی اس کا نمونہ تھی۔ بہت بڑا انسان دوست اور مساوات کا قائل، اس کے ہاں ظاہر اور باطن کی تمیز نہیں تھی، کھلی کتاب تھا جس کا کوئی ورق کبھی منافقت کی سیاہی سے آلودہ نہیں ہوا۔ ہنس مکھ، محفل کی جان اور دوستوں کا مان۔۔ سائیں شاکر شجاع آبادی نے شاید اسی کے لیے کہا تھا:

پا کہیں دشمن دی فوتگی تے، یا جْھمر دے کہیں پھیر اچ پا

راہ رْلدے شاکرکنگن ہیں، بھانویں ہتھ وچ پا، بھانویں پیر اچ پا

( مجھے کسی دشمن کی موت پر پہنو چاہے جھومر کے پھیروں میں، میں راستے میں پڑے کنگن کی طرح ہوں بھلے ہاتھ میں پہنو جا پیروں میں)

حیدر رضوی۔۔۔ اس شام بھی شمع محفل تھا اور چند ماہ پہلے کا ایک حادثہ کسی آسیب کی طرح ہم سب کے دلوں پر سایہ بن کر پھیلا ہوا تھا لیکن حیدر رضوی اس سب سے ماورا ہو کر محض آج کا جشن منارہا تھا۔ اپریل میں لاہور ریلوے سٹیشن کی چیک پوسٹ پر کھڑے گارڈ کی غلطی سے چیک پوسٹ کے کھمبے کیساتھ لٹکا بھاری بھرکم پتھر اس کی دائیں ٹانگ پر گرا، سرجری ہوئی، پلستر سے علاج ممکن نہ تھا، اس کی ٹانک شکنجے میں کس دی گئی تاکہ ہڈی جڑ سکے۔ دو ماہ پہلے اس کی ٹانگ قدرے بہتر ہوئی تو ڈاکٹروں نے پلستر لگا دیا۔ اس تمام عرصے میں وہ عمران باجوہ کا مہمان رہا جنہوں نے اس کے علاج معالجے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی، دوستی کا حق ادا کرنا تو کوئی ان لوگوں سے سیکھے۔ حالانکہ میں بہت سے ایسے نام نہاد 'انسان دوستوں' کو جانتا ہوں جو آج اس کے پرانے دوست ہونے کے دعویدار ہیں لیکن جب وہ تکلیف میں تھا تو یہ حضرات اس کا فون اٹھانے تک کے روادار نہیں تھے۔

رات کے پچھلے پہر وہ محفل سے اٹھا، آرام گاہ کی جانب جا رہا تھا کہ گلاس وال کیساتھ ٹکرایا،کچھ زخم آئے مگر اس بے پرواہ نے ہمیشہ کی طرح پرواہ نہ کی۔ شیشہ لگنے سے ٹخنے کے قریب ایک رگ کٹ گئی، خون بہتا رہا اور وہ مزے سے لیٹا رہا۔ مست آدمی تھا، بے خبر رہا، جب سانس لینا دشوار ہوا تو اس نے جنبش کی، مگر تب تک تھر کا مور اڑ چکا تھا۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ کاری زخم ایک انچ سے زیادہ گہرا تھا، سر ماتھے اور چہرے پر بھی چند خراشیں آئیں تھیں۔ ڈاکٹر سہیل غنی سے روداد بیان کی تو ان کا ماننا تھا کہ عین ممکن ہے کہ اس حادثے سے پہلے حیدر کو دل کا دورہ پڑا ہو۔ وجہ جو بھی ہو اس کی روح آزاد ہو گئی ، دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ بہت خوشی سے رخصت ہوا، انتہائی تکلیف دہ مگر بھر پور زندگی گزارنے کے بعد وہ جگر ی اپنے تمام چاہنے والوں کو ہمیشہ کے لیے اداس کر گیا۔

کل خاب ڈِٹھم جو مرگیا ہاں، جگ سوگ منیندا رہ گئے

کوئی تیار میڈے جنازے دا ، اعلان کریندا رہ گئے

(کل خواب میں اپنی موت کا منظر دیکھا ، دنیا سوگ مناتی رہ گئی، کچھ ایسے بھی تھے جو میرے تیا ر جنازے کا بس اعلان ہی کرتے رہ گئے)

کل شام شفقت اللہ نے مجھے حیدر سے ہوئی آخری اور یادگار فیس بک گفتگو پڑھائی۔ نویں محرم کی شام تھی، اہل بیت کے لیے حیدر کی حب کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا، وہ قطعاً مذہبی نہ تھا، لیکن اس روزشہدائے کربلا کے لیے اس کی گفتگو میں ایک خاص عقیدت پیدا ہو گئی تھی۔ وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے شفقت اللہ سے سوال کیا، شفقت صاحب،" کیا یہ ممکن ہے میں حیدر کو ابھی فیس بک پر میسج کروں اور اس کا جواب آجائے؟" جذبات پر ضبط نہ رہا، یوں لگا جیسے حیدر آس پاس ہے اور ابھی اچانک وہ آن ٹپکے گا اور اپنے مخصوص انداز میں دوستوں کو گالیوں سے نوازے گا اور زور سے گلے لگ کر پوچھے گا۔۔ جگر کیسے ہو؟ کہاں غائب تھے؟ اور پھر اس کی سنگت میں شام سجے گی، اور محفل جوبن پر آتے ہی حیدر اپنے مخصوص انداز میں شاہ حسین کو یاد کرے گا۔۔

متراں دی مجمانی کارن دل دا لوہوچھانی دا

کڈ کلیجہ کیتا بیرے، سو بھی ہیں نالائق تیرے

ہور توفیق نہیں کجھ میرے، اِک کٹورا پانی دا

سیج ستی نینیں نیند نہ آوے، ظالم برہوں آن ستاوے

لِکھاں کتاب، بھیجا در تیرے، دل دا حرف پچھانی دا

راتیں درد دیہیں در ماتی، ہن نیناں دی لائی آکاتی

کدی تے موڑلے پاوو جھاتی، ویکھو حال نمانی دا

عجیب آدمی تھا، مست، من موجی، خود آزاد ہو گیا اور دوستوں کی محفلیں ویران کر گیا مگر کیا پتہ وہ اب کسی اور تھر میں کسی اور دشت کی بے انت ویرانیوں کو اپنے پنکھ پھیلائے انجمن آراء کیے ہوئے ہو۔ تھر کا مور بھلا کہاں قید پسند کرتا ہے؟

مزید :

کالم -