امریکی صدارتی انتخابات

امریکی صدارتی انتخابات
 امریکی صدارتی انتخابات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تاریخ میں2016ئکے امریکی انتخابات کو اس حوالے سے ضرور یاد رکھا جائے گا کہ ان انتخابات میں دونوں صدارتی امیدواروں نے ایک دوسرے کی ذات پر ایسے ایسے سطحی نوعیت کے حملے کئے جن کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں ملتی۔خود امریکی میڈیا کے بڑے حصوں کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ اس مرتبہ دونوں امیدواروں کی انتخابی مہم نے امریکی جمہوریت کو دنیا کے سامنے ایک مذاق بناکر رکھ دیا۔ ایک دوسرے کو کرپٹ کہنے، جیت کی صورت میں مخالف امیدوار کو جیل میں ڈال دینے، جنسی الزامات،مالی غبن، صدارتی امیدوار (ڈونلڈ ٹرمپ) کو روس کا ایجنٹ قرار دینے اور مخالف امید وار (ہیلری کلنٹن) پر داعش کو فنڈ دینے سمیت کئی الزامات ایسے تھے جن کو بنیاد بناکر چین اور روس جیسے ممالک کے اخبارات اور میڈیا نے امریکی جمہوریت کا خوب مذاق اڑایا۔’’دی واشگٹن پوسٹ ‘‘میں 5نومبرکو In America's democratic showcase, the world sees a model of what not to doکے عنوان سے مضمون لکھا گیا جس میں امریکی صدارتی مہم کو دنیا کے سامنے امریکہ کی ہتک قرار دیا گیا۔ دی نیو یارک ٹائمز جیسے بڑے اخبار نے بھی اپنے اداریوں میں یہی موقف اختیار کیا۔شاید یہ امریکی جمہوریت کا زوال ہی ہے کہ’’ ری پبلکن‘‘ اور’’ ڈیمو کریٹ‘‘ پارٹی کو اس مرتبہ ڈو نلڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن جیسے صدارتی امید وار ملے جن کی ’’دانش‘‘ اور’’ذہانت ‘‘کے مظاہرے پوری دنیا میں دیکھے گئے۔


2016ئکے انتخابات اس حوالے سے بھی یاد گار رہیں گئے کہ انتخابی مہم سے لے کر پولنگ کا وقت ختم ہونے تک امریکی اخبارات، نیوز چینلز اور پولز کے جائزوں میںیہ ثابت کیا جاتا رہا کہ ہیلری کلنٹن کی فتح اور ٹرمپ کی شکست یقینی ہے مگر نتیجہ اس کے برعکس رہا۔ اور تمام پولز کے جائزے دھرے کے دھرے رہ گئے اور اپنے تمام متنازعہ بیانات کے با وجود ٹرمپ واضح اکثریت کے ساتھ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ امریکی میڈیا بھی ٹرمپ کی فتح کو ایک’’ اپ سیٹ‘‘ قرار دے رہا ہے۔ انتخابی نتائج سے بنیادی سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ یورپ، چین اور ایران سمیت کئی ممالک کے ساتھ امریکی معاہدوں، میکسیکو، سیاہ فام افراد، اسلام، مسلمانوں اور خواتین کے حوالے سے انتہائی متنازعہ بیانات دینے کے باوجود ٹرمپ کیسے کامیاب ہوگئے؟ ظاہر ہے ٹرمپ کی فتح میں بہت سے عوامل نے اپنا کردار ادا کیا۔


سب سے پہلے ٹرمپ نے امریکہ کی موجودہ صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے سفید فام اکثریت کو یہ باور کروایا کہ سفید فام افراد میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، غربت اور عدم تحفظ کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کو بھاری تعداد میں تارکین وطن( امیگرینٹس) کا بوجھ اٹھانا پڑرہا ہے۔ اس لئے ایشیا، افریقہ اور میکسیکو جیسے ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو روکنا پڑے گا۔ جاننے والے جانتے ہیں ٹرمپ کا یہ موقف حقیقت پر مبنی نہیں ہے مگر اس کے باوجود ٹرمپ کا یہ سودا سفید فام افراد خاص طور پر چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہا ت میں رہنے والے افراد میں خوب بکا ۔ یہی وجہ ہے کہ 58فیصد سفید فام ووٹرز نے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ جبکہ چھوٹے شہروں اور دیہی علا قوں میں 62فیصد ووٹروں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ ٹرمپ نے اوباما اور ڈیمو کریٹ پارٹی کی گزشتہ آٹھ سال کی خراب کارکردگی کو بھی بھر پور طریقے سے اجاگرکیا۔ بارک اوباما 2008ء اور2012ء میں تبدیلی کا نعرہ لگا کر آئے تھے۔ 2008ء میں اوباما کی جانب سے سابق صدر بش کی جنگی پالیسوں پر بھی شدید تنقید کی گئی تھی مگر اوبامانے اقتدار ملنے کے بعد نہ صرف بش دور کی جنگی پالیسی کو جاری رکھا بلکہ اوباما انتظامیہ کی غلط پالیسیوں کے باعث مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک خانہ جنگی کا شکار بھی ہوئے۔ اوباما کی جانب سے متعارف کروائے جانے والے Affordable Care Act نے بھی ڈیموکریٹ پارٹی کے خلاف اہم کردار ادا کیا۔ اس قانون کے باعث اب امریکی شہریوں کو اپنی صحت کے اخراجات کے لئے چار گنا زیا دہ خرچ کرنا پڑ رہاہے۔ ٹرمپ نے Affordable Care Actپر بھرپور تنقید کی۔2016ء کی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے جہاں ایک طرف ری پبلکن پارٹی کے روایتی دیہی علاقوں سے کامیابی حاصل کی تو وہیں ایسے چھوٹے صنعتی شہروں سے بھی بھاری تعداد میں ووٹ لئے کہ جہاں پربارک اوباما2008ء اور2012ء میں کامیاب ہوئے تھے۔ امریکی میڈیامیں جس طبقے کو’’ سفید فام مزدور طبقہ‘‘ کہا جاتا ہے اس طبقہ سے 2008ء میں بارک اوباما کو 40فیصد ووٹ ملے تھے مگر اس مرتبہ ہیلری کلنٹن کواس طبقے کی جانب سے27فیصد ووٹ ملے۔


انتخابی نتائج کے بعد ایک اور دلچسپ حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ ڈیموکریٹ پارٹی کے پرائمری انتخابات کے دوران ہیلری کلنٹن کے مدمقابل سینیٹر برنی سینڈرز جو ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں عام بلکہ غریب امریکیوں کے حقوق کی بات کر رہے تھے ان کو پرائمری انتخابات میں 13ملین ووٹ حاصل ہوئے۔ ایک ڈیموکریٹ راہنما ہونے کے باعث برنی سینڈرز نے ہیلری سے پرائمری انتخابات ہارنے کے بعد ہیلری کی حمایت کا اعلان بھی کیا اور ان کوووٹ بھی ڈالا۔ مگر انتخابی نتا ئج کے اعداد وشمار یہ ثابت کر رہے ہیں کہ برنی سینڈرز کو حاصل ہونے والے13ملین ددٹرز کی اکثریت نے بھی ہیلری کلنٹن کی بجائے ٹرمپ کو ووٹ دیا اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ڈیموکریٹس پارٹی کے پرائمری انتخابات کے دوران جن ریاستوں میں برنی سینڈرز نے ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے کا میابی حاصل کی تھی۔ ان ریاستوں میں ٹرمپ کو فتح حاصل ہوئی۔ ویسٹ ورجینا، اوکلاہوما، مشی گن، انڈیا نا اور وسکونسن ایسی ریاستیں تھیں جہاں پر سینڈرز بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے مگر اب ٹرمپ نے ان ریاستوں میں کامیابی حاصل کی۔ برنی سینڈرز، ہیلری کے مقابلے میں ایک واضح متبادل پروگرام پیش کررہے تھے اور ٹرمپ بھی اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ تھا اس لئے اس نے4 مئی 2016ء کو یہ ٹویٹ بھی کیا کہ اچھا ہوگا اگر اس کا مقابلہ برنی سینڈرز کی بجائے بے ایمان ہیلری کلنٹن سے ہو۔


ہیلری کلنٹن کی صورت میں ٹرمپ کو ایک ایسا حریف ملا جس نے انتخابی مہم کے دوران کوئی واضح اور عوامی مقبولیت کا حامل پالیسی پروگرام پیش کرنے کی بجائے ٹرمپ پر ذاتی حملے ہی کئے۔ ہیلری کلنٹن ٹرمپ کو روسی صدر پوٹن کا ایجنٹ ثابت کرتی رہی، ٹرمپ کے نجی معاملات کو زیر بحث لاتی رہی، ٹرمپ جب سفید فام امریکیوں میں بڑھتی ہوئی غربت ، بے روز گاری اور عدم تحفظ کا ذکر کرتا تو ہیلری کلنٹن مسئلے کا حل پیش کرنے کی بجائے ٹرمپ پر نسل پرستی کا الزام لگا تیں۔ ان تما م عوامل نے ٹرمپ کی جیت میں اہم کر دار کیا۔ عوامل کیسے ہی کیوں نہ ہوں مگر اب حقیقت یہی ہے کہ امریکی صدارت کے جس اعلیٰ ترین منصب پر ایک زمانے میں جارج واشنگٹن، تھا مس جیفرسن اور ابراہم لنکن جیسے عظیم اور مدبر راہنما براجمان ہوتے تھے اب اس منصب پر ڈونلڈ ٹرمپ براجمان ہونے جارہا ہے۔ایک ایسا انسان جو امریکہ کے بانی راہنما وں اور عظیم سیاستدانوں کی سوچ کے برعکس سیاہ فام نسل اور دیگر غیر سفید فام نسلوں کو امریکہ کے لئے ایک بوجھ تصور کرتا ہو، جو مذہب کی بنیاد پر افراد کو امریکہ سے بے دخل کرنے کی بات کرے، جو فخریہ طور پر یہ اعلان کرے کہ اس کے ارب پتی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ٹیکس ادا نہیں کئے، ایک ایسا انسان جس پر ایک درجن سے زائد عورتیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگا چکی ہوں۔ان سب خصوصیات کا حامل شخص اگر امریکہ کا صدر منتخب ہوگیا ہے تو کیا اس امر کو امریکی جمہوری نظام کا زوال قرار نہیں دیا جائے گا؟

مزید :

کالم -