عرب شخصیات کو تلور اور دیگر پرندوں کے شکار کیلئے اجازت نامے جاری
کراچی (ویب ڈیسک)پانچ عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے شاہی خاندان کے افراد کو تلور سمیت سائبیریا سے آنے والے آبی پرندوں کے شکار کے اجازت نامے جاری کر دیے گئے اجازت ناموں کے حصول کے بعد عرب شاہی خاندان کے قافلے سی۔130 کے ذریعے بھاری سامان، ایئرکنڈیشن خیمے، گاڑیاں اور آلات سمیت سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے الاٹ کردہ علاقوں میں پہنچنا شروع ہو جائیں گے جہاں وہ نومبر سے مارچ تک ان پرندوں کا شکار کریں گے۔
واضح رہے کہ تلور بین الاقوامی طور پر ریڈ لسٹ میں شامل ہے جس کی نسل کو معدومیت کا خطرہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق60 سینٹی میٹر لمبا اور 140 سینٹی میٹر پروں کے پھیلاﺅ کے حامل اس پرندے کی کل تعداد دنیابھر میں ایک لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے۔ پاکستان میں اس پرندے کی دو فیصد آبادی ایک سیزن میں شکار ہو جاتی ہے۔ مقامی اخبار کے مطابق اس پرندے کے انڈے اور چوزے قطر، بحرین، سعودی عرب، یو اے ای میں افزائش نسل کے لئے منتقل کر دیئے جاتے ہیں۔ 1992ءسے2004ءتک مختلف عدالتیں اس پرندے کے شکار پر پابندی عائد کرتی رہیں تاہم اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے بعد اس پرندے کے شکار پر سے پابندی ختم کی جاتی رہی ہے۔ تلور منگولیا، سائبیریا، سینٹرل ایشیا کے سرد علاقوں سے سخت سردی میں ساڑھے پانچ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ پانچ سے سات دنوں میں طے کر کے ٹھٹھہ، دھابیجی، جنگ شاہی، جامشورو، جھمپیر، خیرپور، نواب شاہ، ننگرپارکر، مچھ، چاغی، ڈیرہ بگٹی، قلعہ سیف اللہ، چشمہ بیراج، چولستان، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان، بہاولپور اور دیگر علاقوں میں پہنچتا ہے۔تلور کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان کے مذکورہ علاقوں میں تربیت یافتہ بازوں کی خریدوفروخت بھی عروج پر پہنچ جاتی ہے جن کی قیمت لاکھوں روپے میں ہوتی ہے۔
روزنامہ پاکستان کی تازہ ترین اور دلچسپ خبریں اپنے موبائل اور کمپیوٹر پر براہ راست حاصل کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
عرب شہزادوں کے میزبان مقامی بااثر سیاستداں اور دیگر بااثر افراد ہوتے ہیں۔ عرب شہزادوں کو ایک پرمٹ پر10 پرندے ایک دن میں شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے تاہم کسی قسم کا چیک نہ ہونے کے سبب شکار کی تعداد مقررہ تعداد سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ 2014ءمیں بھی بلوچستان ہائی کورٹ نے تلور کے شکار پر پابندی عائد کی تھی تاہم پابندی کے خلاف اپیل کے بعد انہیں شکار کی اجازت دے دی گئی۔