ورلڈکڈنی ڈے،گُردوں کو سمجھئے
پروفیسرڈاکٹر سجاد صادق
دنیا بھر میں صحت کا شعور اجاگر کرنے کے لئے بیماریوں کے دنوں کو مخصوص کیے جانے کے رجحان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہر عمر کافرد کم ازکم اس بات میں دلچسپی ضرور لینے لگا ہے کہ صحت کا خیال رکھنا ناگزیرہے ۔آج کا دن بھی کئی ملکوں میں گردوں کے حوالے سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے متعلق آگہی پھیلانے کےلئے مخصوص ہے۔اگرچہ سال کے کچھ اور مہینوں میں بھی کڈنی ڈے کی روایت ہے تاہم بارہ نومبر کو ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا جاتاہے کہ لوگوں میں زیادہ سے زیادہ شعور پیدا کردیا جائے تاکہ وہ اپنے گردوں کی حفاظت کریں کیونکہ گردوں کی بیماری انتہائی خطرناک پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہے اور روزمرہ کی عام مصروفیات اور غذائیں بھی اس مرض کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی کل آبادی کا دسواں حصہ گردوں کے خطرناک مرض میں مبتلا ہےاور ہر سال مختلف بیماریوں میں جو لوگ مر جاتے ہیں ان میں گردوں کے مرض میں مبتلا ہوکر مرنے والوں کی شرح ستائیسویں نمبر پر ہوتی ہے۔ہر سال بمشکل بیس لاکھ کے قریب کڈنی کے مریضوں کا ڈائیلسز ہوپاتا ہے اور باقی ماندہ اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔پاکستان میں بھی گردوں کے علاج کے جدید سہلوتیں موجود ہیں لیکن جس شرح سے یہ مرض بڑھ رہا ہے اسکے مقابلے میں یہاں سہولیات ناکافی ہیں۔
آج ہمارے ہاں بڑھتے ہوئے گردوں کے مسائل ہمیں ان احتیاطی تدابیر کو جا ننے ، سمجھنے اور اپنانے کی اہمیت کو بڑھا رہے ہیں جو کہ ہمیں ہر ممکن حد تک محفوظ اور صحت مند رکھ سکیں۔ گردے ہمارے جسم میں موجود زائد پانی اور فاسد مادوں کے اخراج کا نظام ہیں۔خون کی صفائی، خون کا دباﺅ، خون میں موجود سرخ خلیات اور ہڈیوں کی مضبوطی کا انحصار گردوں کی بہترین حالت پہ ہے۔
پاکستان کی آبادی کا 65 فیصد حصہ دیہی علاقوں پہ مشتمل ہے اور ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ صحت کی بنیادی سہولیات کا شہروں میں بھی یا تو فقدان ہے یا یہ عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور۔ گردے فیل ہونے کے کیسز سالانہ ایک بڑااضافہ دکھا رہے ہیں۔ اور ستم بالائے ستم کہ ہمارے پاس کوئی مستند،پورے ملک کے حوالے سے اعداد و شمار تک نہیں۔ ایک سروے کے مطابق ہمارے ہاں ہرسالانہ 10 لاکھ میں سے 100 افراد کے گردے فیل ہورہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد کو تو پتہ تک نہیں چلتا کہ انہیں گردوں کے مسائل کا سامنا ہے اور جب تک اندازا ہوتا ہے، پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے۔
ایسی صورتحال میں ان حقائق کو جا ن لینا بہتر ہے جو کہ گردوں کے مسائل پہلے تو پیدا اور پھر بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ گردے بہت سی وجوہات سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ جن میں قوت مدافعت کے نظام کا غیر فعال ہونا، مختلف قسم کے انفیکشن اور بلڈ شوگر وغیرہ۔ اوراگربروقت تصحیح ہو جائے تو فوری علاج ، غذائی اور رہن سہن میں تبدیلی بہت کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔
اگر کوئی بھی فرد پہلے سے بلڈ شوگر ، ہائی بلڈ پریشریا دل کا مریض ہے تو اسے جان لینا چاہئے کہ اب ہر اس احتیاط پہ عمل کرنا ہے جو کہ گردوں کے حوالے سے ضروری ہے۔ مزیدبرآں، خاندان میں گردوں کے امراض کا ہونا مزید اس ضرورت کو بڑھا دیتا ہے۔ لیکن ٹھہریے پریشان ہونے کی بجائے ذیل میں دی گئی ہدایات کو اپنائیے اور ایک محفوظ زندگی گزائیے۔
۱۔ ہائی بلڈ پریشر خطرے کو بڑھا دیتا ہے، لہٰذا اسے قابو میں رکھنے کا اہتمام کیجئے اور باقاعدگی سے چیک کیجئے۔
۲۔ اپنے آپ کو فٹ رکھئے، ورزش کیجئے جو کہ آپ کے بلڈ پریشر کو بھی کنٹرول کرنے کا مستند ذریعہ ہے۔
۳۔سگریٹ سموکنگ سے اجتناب کیجئے کیونکہ سموکنگ گردوں کو خون کی سپلائی کو سست کر ڈالتی ہے اور نتیجہ گردوں کے افعال کی کمزوری کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
۴۔ متناسب اور مناسب کھانا پینا بلڈ شوگر جیسے مسائل یا تو پیدا نہیں ہونے دیتا اور اگر ہوں تو ان کو بہتر انداز میں کنٹرول کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ اور پھر گردوں کی صحت مزید یقینی ہوتی ہے۔
۵۔ اگر آپ ہائی بلڈ پریشر یا بلڈ پریشر کے مریض ہیں ، یا آپ وراثتی طور پر خاندان میں گردوں کے امراض کا رجحان رکھتے ہیں تو سستی مت کیجئے اور باقاعدگی سے ہر کچھ عرصے بعد اپنے رینل پروفائل ٹیسٹ کرواتے رہا کیجئے۔
۶۔صاف پانی کا استعمال زیادہ کیجئے تا کہ جسم سے سوڈیم ، یوریا اور دیگر فاسد مادوں کا اخراج ہوتا رہے۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔