جہانگیر بدر کی پہلی برسی، اور چند یادیں!
سیاست گرم ہے، جلسے ہورہے ہیں، یوں احساس ہورہا ہے انتخابات ہونے والے ہوں اگرچہ حکمران جماعت کے ساتھ حزب اختلاف (پی، پی،پی) بھی مقررہ وقت کی بات کرتی ہے، دوسری سیاسی جماعتیں بھی ہم نوا ہیں، صرف تحریک انصاف کے عمران خان ہیں جو قبل از وقت انتخابات مانگ رہے ہیں، الیکشن کمیشن کی طرف سے حلقہ بندیوں کی تلقین اور پارلیمانی گروپوں میں عدم اتفاق، معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں کل پیش ہونا ہے، عمران خان روز جلسہ کرتے ہیں، اب مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف نے بھی رابطہ عوام مہم کا اعلان کردیا، اس سلسلے کا پہلا جلسہ 20نومبر کو ایبٹ آباد میں ہے، دوسرا شیخوپورہ اور تیسرا ملتان میں ہوگا، پاکستان پیپلز پارٹی بھی میدان میں اترنے والی ہے، بلاول 5دسمبر کو اسلام آباد میں جلسہ سے خطاب کریں گے جو پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کی گولڈن جوبلی کی تقریبات کا آغاز ہوگا اس کے بعد وہ بھی جنوبی پنجاب کا رخ کریں گے اور ملتان کے قلعہ کہنہ قاسم باغ میں جلسہ سے خطاب کریں گے، پھر چل سوچل یہ پی پی کا کہنا ہے، یہ سب یوں عرض کیا کہ آج کل کے دور کے جلسے بہت ہی مہنگے ہیں، لاکھوں سے بات آگے نکل گئی ہے، ماضی میں ایسا نہیں تھا۔
ہمیں یاد ہے کہ ایم، آر، ڈی کا دور تھا، جنرل ضیاء الحق صدر تھے، مخالف سیاسی جماعتوں کا اتحاد تحریک چلا رہا تھا، طے پایا کہ لاہور میں جلسہ ہو گا، مقام موچی دروازہ تھا، نوابزادہ نصراللہ مرحوم کی رہائش کم دفتر میں اجلاس ہوا ہمارے جہانگیر بدر(بادشاہ) پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر تھے، جلسے کے اخراجات کی بات آئی، اس سلسلے میں نوابزادہ نصراللہ کی زبانی سنئے، اس اجلاس کی خبر کے لئے حاضر ہوئے نوابزادہ معمول کے مطابق حقے کی نے منہ میں لئے دھواں نکال رہے تھے، بولے۔
لوجی! ہنیر پے گیا۔ جہانگیر بدر صاحب کہتے ہیں، جلسے کے لئے اخراجات کی ضرورت ہے اور رعائت کراکے آٹھ لاکھ روپے خرچ ہو جائیں گے وہ بولے! ہم تو چند سو میں جلسے کرتے تھے، اب کیا دور آگیا، پچاس سو، کرسیاں، چند دریاں اورلاؤڈ سپیکر سے جلسہ ہوجاتاتھا، اب بات لاکھوں کی ہے، جب ہم نے جہانگیر بدر سے پوچھا کہ کیا اتنی رقم کا تخمینہ ہے تو انہوں نے بتایا کہ آج کا جلسہ مذاق نہیں، کرسیاں آئیں گی، سٹیج بنے گا اور موچی دروازہ سے اکبری دروازہ تک نئے ساؤنڈ سسٹم کے ساتھ لاؤڈ سپیکر لگیں گے، پھر بینر اور بل بورڈ بھی تیار کراکے لگائے جائیں گے، یہ الگ بات ہے کہ انتظامات کے باوجود یہ جلسہ، جلسہ گاہ میں نہ ہوسکا کہ انتظامیہ نے باغ میں پانی چھوڑ دیا تھا، بدر نے متبادل انتظام کے طور پر ٹرالروں کا انتظام کررکھا تھا، سڑک پر ان سے سٹیج بنالی گئی اور پھر جلسہ ہوگیا، ماردھاڑ بھی ہوئی کہ ضلعی انتظامیہ نے اپنی سکیم کی ناکامی کے بعد بدلہ پولیس کے لاٹھی چارج سے لیا جو سٹیج سے دور دور ہوئی۔
یہ واقعہ اضافی ہے، بات تو میں نے ماں کے بادشاہ کی کرنا تھی، جو پھر سب کا بادشاہ ہوا اور بابو مشتاق(مرحوم) نے اسے جیل کا بادشاہ قرار دیا تھا کہ یہ ایک ایسا سیاسی اسیر رہا جب بھی گرفتار ہوا، سزا پوری بھگتی، مجھے یاد ہے کہ کم از کم تین بار ایک ایک سال پوری کی تھی، حتیٰ کہ اپنی شادی کے بعد پکڑا گیا، کوٹ لکھپت جیل کا مہمان بنا تو بھی پورا سال ہی گزارا اور کوڑے بھی سہے، اس عرصہ کی خاص بات یہ تھی کہ اسے اس کے بڑے صاحبزادے ذوالفقار علی بدر(علی بدر) کی پیدائش کی اطلاع جیل میں ہی دی گئی اور یہ خبر اور کسی نے نہیں جہانگیر بدر کی والدہ نے دی، جو اس کی سیاست کی نگہبان تھیں کہ وہ نہ صرف جگہ جگہ پیروی کرتیں بلکہ جیل ملنے جاتیں تو دیگچوں کے حساب سے اس کے پسندیدہ کھانے بھی لے کر جاتیں، وہ کتنا کھا لیتا ہوگا وہاں سب اسیر مل کر کھاتے تھے۔
آج اسے دنیا سے رخصت ہوئے ایک سال ہوگیا، اس کی اہلیہ اوربچوں نے برسی کا اہتمام کیا ہے، علی بدر نے کہا انکل، ماما کی ہدایت ہے کہ پہلی برسی ہے، گھر پر ہی ہونا چاہئے( ماشاء اللہ۔ اب تو لان خاصا بڑا ہے) یہ میری تجویز کا جواب تھا کہ برسی تعزیتی ریفرنس کی صورت میں بڑے ہال میں ہو، بہر حال آج مرحوم کی رہائش گاہ پر احباب جمع ہوں گے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی آئیں گے، (عرض کروں، کہ محترمہ اپنی زندگی میں بادشاہ پر جو اعتبار کرتی تھیں اس کی مثال یہ ہے کہ وہ بچوں کے سیاسی استاد کی حیثیت رکھتے تھے اور بچے بھی بہت احترام کرتے اور اب بھی یاد کرتے ہیں)۔
جہانگیر بدر کو یاد کرتے ہوئے ایک پورے دور کی یادیں امڈ آتی ہیں، لکھنے بیٹھیں تو دو تین کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، ہمارے اور اس کے تعلقات کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں، یہ برسوں پر محیط ہیں، محلے داری، عزیز داری، دوستی اور مشترکہ کاوشیں ساتھ ساتھ تھیں، اس کی عرفیت کا ذکر کیا تو بتاتا چلوں کہ وہ خود تو والدہ کو ’’ماں جی‘‘ یا ’’حاجی صاحب‘‘ کہتا کہ ’’خالہ‘‘ نے کافی پہلے حج کیا تھا البتہ اس کی والدہ نے بچپن ہی سے اسے بادشاہ کہنا شروع کردیا تھا، اس عرفیت کی تشہیر سنٹرل جیل کوٹ لکھپت سے زیادہ ہوئی جہاں باغبان پورہ والے بابو مشتاق(مرحوم) بھی ایک مقدمہ میں زیر حراست تھے، ان کے درمیان گہری دوستی تھی اور برداشت حوصلہ اور خوش گپیوں نے ہی اس عرفیت کولقب بنایا تھا۔
جہانگیر بدر نے اپنی سیاست کا آغاز تو ہیلی کالج آف کامرس کی تعلیم کے دوران طالب علم کی حیثیت سے کیا تھا اور پہلی جیل یونیورسٹی آرڈی ننس کے خلاف تحریک میں کائی تھی، ان دنوں کی بات ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کا نام سیاسی افق پر گونج رہا تھا، وہ جیل میں تھا، جب رہا ہو کر آیا تو طلباء کی بھاری تعداد اور دوستوں نے اس کا زبردست استقبال کیا، ریلوے سٹیشن سے اسے گھر(اندرون دہلی دروازہ) لایا گیا اور گھوڑے پر بٹھادیا گیا تھا، اسی دوران ایک طالب علم دوست نے اس کے ہاتھ میں پیپلز پارٹی کا جھنڈا بھی تھما دیا اور پھر بھٹو کے نعرے بھی شروع ہوگئے، بادشاہ نے پیپلز پارٹی سے ناتا جوڑا تو مرتے دم تک قائم رہا، اس کے خون میں وفاتھی، پارٹی نے (بھٹو سے بے نظیر تک) اسے عزت دی تو اس نے بھی پارٹی کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا، نرم، گرم ماحول بنتے بگڑتے رہے پارٹی میں بھی اسے مخالفت کاسامنا کرنا پڑا لیکن حمائت اور محبت اتنی ملی کہ اسے مخالفوں کی مخالفت کا کوئی غم نہ ہوا، جہانگیر بدر کی پوری سیاست اور اس کے اعلیٰ مدارج تک پہنچنے میں اس کے چند ایسے دوستوں کا بہت زبردست کردار ہے، جو آج بھی اسے یاد کرتے ہیں، عرفان اشرف (عرفی) میاں محمد اکرم، راشد بٹ(مرحوم) اور احسان سہیل کے نام تو کسی تردید کے بغیر لئے جاسکتے ہیں، میاں ارشد (مرحوم) کی تو وفات بھی نیب کے دفتر میں ہوئی جہاں ان کو بدر کے خلاف شہادت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی، اس کے مخالف تو اب بھی ہوں گے لیکن چاہنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔
بات طویل ہوگئی، کالم کی جگہ متحمل نہیں ہوسکتی، دوباتیں عرض کرکے ختم کرتا ہوں، ایک تو یہ کہ جلسے کرانے یا جلسوں کا انتظام کرنے میں وہ بے مثال تھا، بے نظیر بھٹو کا مینار پاکستان کا جلسہ ایک مثال تھا، اس کے انتظامات کے دوران وہ گرا اور دونوں ٹانگیں تڑا بیٹھا تھا اس کے ساتھ اس کی وفاداری بے مثل رہی، بعض مواقع پر مخالف کامیاب ہوئے،دل برداشتہ ہو کر بھی کہیں نہ گیا، پارٹی نے بھی اسے بہت کچھ دیا، قومی اسمبلی کی رکنیت، سینٹ میں نشست اور وفاقی وزارتیں یہ سب محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرف سے خراج تحسین تھا بات ختم کرتے ہیں، میں نے فیس بک پر بادشاہ کو یاد کیا تو ہمراز احسن (رازو) نے لندن سے لکھا، ’’چودھری صاحب! جہانگیر بدر کے ساتھ ہماری بہت یادیں وابستہ ہیں‘‘ جی! یہ سچ ہے لیکن ان سب کو تحریر کرنے کے لئے کتاب کی ضرورت ہے، اللہ مرحوم کی مغفرت کرے، بہت خوبیوں والا تھا۔