قائداعظمؒ کی روح کا مشورہ!

قائداعظمؒ کی روح کا مشورہ!
 قائداعظمؒ کی روح کا مشورہ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تقسیم ہند کو سات عشروں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔پاکستان میں اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔

اس موضوع پر بھارت میں تحریر کردہ مواد کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں اس پر مسلسل لکھا جا رہا ہے۔ تاریخی واقعات کے نئے مفہوم تلاش کئے جا رہے ہیں یا انہیں نئے مفہوم دیئے جا رہے ہیں۔ چند سال قبل بھارتی محقق وینکٹ ڈولیپالا کی کتاب" "Creating a New Mediaمنظر عام پر آئی تھی۔

وینکٹ نے اپنی اس کتاب میں قائد اعظمؒ کے متعلق ایک عجیب واقعہ تحریر کیا ہے۔ اس کے مطابق وہ لندن کی برٹش لائبریری میں تقسیم ہند پر تحقیق کر رہا تھا۔

ایک تھکا دینے والے دن کے اختتام پر اس کی نظر ایک غیر معمولی تحریر پر پڑی۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی یہ تحریر قائداعظم کی نجی دستاویزات کے سیکشن میں تھی۔

اس کی سیاہی پھیکی پڑ رہی تھی۔ اس میں 13 مارچ 1955ء کو چھ بجے شام کو ہونے والی قائد اعظم کی روح سے ہونے والی ایک ملاقات کا احوال درج تھا۔ یہ ملاقات ان کی وفات کے تقریباً سات سال بعد اور قیام پاکستان کے آٹھ سال بعد ہو رہی تھی۔ قائد اعظم کی روح سے اس ملاقات کا اہتمام ایک سرکاری افسر مسٹر ابراہیم نے کیا تھا جو اس موقعہ پر ماہرروحانیات کے ساتھ سوالات کرنے کے لئے موجود تھے۔


وینکٹ کے مطابق کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے ماہر روحانیات نے شائستگی کے ساتھ قابل احترام مہمان کی روح کو کرسی پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ جس پر قدرے ناپسندیدگی سے روح نے بتایا کہ وہ پہلے ہی تشریف فرما ہیں اور اس نے یاد دلایا کہ ایک ایسے ہی سیشن کے لئے ان کی پہلے بھی ملاقات ہو چکی ہے۔

ماہر روحانیات نے قائداعظم سے ان کی خیریت دریافت کی کیونکہ گزشتہ موقعہ پر روح نے شکایت کی تھی کہ وہ ’’ایک تاریک اور سرد مقام پر ہے جسے وہ پسند نہیں کرتے‘‘۔ روح نے جواب دیا کہ اب وہ بہت خوش ہیں کیونکہ اب وہ ایک ایسی جگہ پر ہیں جہاں بہت زیادہ روشنی اور پھول ہیں۔

قائداعظمؒ اپنی زندگی میں بہت زیادہ سگریٹ پیتے تھے اس لئے ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا وہ سگریٹ پینا پسند کریں گے؟ مثبت جواب پر روح کے لئے سگریٹ سلگائی گئی اور اسے تار کے ایک سٹینڈ پر رکھ دیا گیا تاکہ جواب دیتے ہوئے روح سگریٹ نوشی سے لطف اندوز ہو سکے۔

مسٹر ابراہم نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا ’’سر! پاکستان کے بانی ہونے کی حیثیت سے کیا آپ قوم کی راہنمائی کرنا پسند فرمائیں گے؟‘‘ اس پر قائد کی روح نے قدرے جھلا کر جواب دیا کہ یہ ان کا کام نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی تقدیر کے متعلق مزید راہنمائی کریں۔ اگرچہ وہ پاکستان کے متعلق اکثر برے منظر دیکھتے رہتے ہیں۔


مسٹر ابراہم نے قدرے پریشانی سے دریافت کیا ’’کیا آپ نہیں سمجھتے کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہو گا؟‘‘


روح نے سردمہری سے جواب دیا ’’میں ایسا نہیں سمجھتا، کیونکہ کسی بھی قوم کے روشن مستقبل کا انحصار ان لوگوں کی بے غرضی اور بے لوثی پر ہوتا ہے جو اس کی قسمت کے مالک ہوتے ہیں۔ وہاں کوئی بھی اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنے کے لئے تیار نہیں ہے‘‘۔


مسٹرابراہم نے مزید دریافت کیا ’’آپ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو کیا مشورہ دیں گے؟‘‘
مَیں اب انہیں صرف یہی نصیحت کر سکتاہوں کہ وہ بے لوث ہو جائیں‘‘۔ اس کے بعد روح نے ایک متاثر کن جملہ کہا
’’ملک کاحصول آسان ہوتاہے مگر اسے قائم رکھنا بہت مشکل ہوتاہے۔ مختصرالفاظ میں آج پاکستان کی یہی صورت حال ہے، جس کے حصول کے لئے خون کے دریا بہائے گئے تھے‘‘۔


وینکٹ ڈولیپالا نے اپنی کتاب میں اس دستاویز کا حوالہ دیا ہے اور اس پر قدرے حیرت کا اظہار بھی کیا ہے کہ یہ دستاویز قائداعظمؒ آرکائیوز کا حصہ کیسے بنی۔ مگر ان کی اس تحریر سے بہت سے نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ برصغیر میں انڈیا آفس لائبریری کے ریکارڈ کی بنا پر متعدد کتابیں تحریر کی گئی ہیں۔

ان کے ذریعے 1940ء کے فیصلہ کن عشرے میں اہم قومی شخصیات کے تاریخی کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ 1957ء کی اس تحریر کی ریکارڈ میں موجودگی یہ بتاتی ہے کہ وہاں بہت کچھ ایسا بھی ہو سکتا ہے، جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ وینکٹ ڈولیپالا نے اپنی کتاب میں مجموعی طور پر قیام پاکستان کو ہدف تنقید بنایا ہے اور پاکستان کے مستقبل کے متعلق بڑے سوال اٹھائے ہیں۔ یوں وہ اس مسلسل مہم کا حصہ بنے ہیں جو تقسیم ہند کے بعد سے پاکستان کے خلاف جاری ہے۔

تاہم قائداعظمؒ کے حوالے سے یہ جملہ خاصا اہم ہے کہ پاکستان کو بے لوث قیادت کی ضرورت ہے۔ اسے ایسے راہنما چاہئیں جو اپنی ذات سے بالاتر ہو کر سوچ سکیں۔ جو سرسید کی طرح دردِ دل رکھتے ہوں۔

سرسیدکے خلاف علمائے کرام سرزمین حجاز جا کر ایسے فتوے لے کر آئے جن میں کہا گیا تھا کہ سرسید کا فر ہے اور اس کے ادارے کو چندہ دینا حرام ہے، مگر وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتے تھے کہ میں ان کے کافر بنانے سے کافر نہیں ہو سکتا۔

وہ قوم کو بتاتے تھے ’’تکفیر کا فتویٰ کچھ نئی بات نہیں ہے۔ کون شخص بزرگان دین میں سے بچا ہوا ہے جس کی تکفیر کے فتوے نہیں ہوئے۔ حضرت غوث الاعظم ؒ کی تکفیر کے فتوے ہوئے۔

امام غزالیؒ کافر بنائے گئے۔ جناب مجدد الف ثانی ؒ کافر قرار دیئے گئے اور علما ہی کے فتوے سے ان کی ریش مبارک نوچی گئی اور گوالیار کے قلعے میں مقید ہوئے‘‘۔ سرسید کو علمائے کرام سے جس بڑے پیمانے پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا آج اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ پنجاب کے دورے کے دوران انہوں نے جو کچھ کہا تھا اس سے ان کی بے لوثی اور بے غرضی کی تصویر سامنے آتی ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا۔


’’مَیں فرض کرتا ہوں کہ میں بدعقیدہ ہوں مگر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر ایک کافر مرتد آپ کی قوم کی بھلائی کی کوشش کرے تو کیا آپ اس کو اپنا خادم، اپنا خیر خواہ نہ سمجھیں گے۔ آپ کے لئے دولت سرا بنانے میں جس میں آپ آرام فرماتے ہیں اور آپ کے بچے پرورش پاتے ہیں ۔

آپ کے لئے مسجد بنانے میں جس میں آپ خدائے واحدہ ذوالجلال کا نام پکارتے ہیں۔ چوھڑے، چمار، قلی، کافر، بت پرست، بدعقیدہ سب مزدوری کرتے ہیں، مگر آپ نہ کبھی اس دولت خانے کے دشمن ہوتے ہیں اور نہ کبھی اس مسجد کے منہدم کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔

اس وقت آپ مجھ کو اس مدرستہ العلوم کے قائم کرنے میں ایک قلی، چمار کے مانند تصور کیجئے اور میری محنت و مشقت سے اپنے لئے گھر بننے دیجئے اور اس وجہ سے کہ اس کا بنانے والا یامزدوری کرنے والا ایک قلی چمار ہے۔ اپنے گھر کو مت ڈھایئے‘‘۔


اپنی اس تقریر میں سرسید احمد خان نے کہا تھا کہ اگر کوئی دوسرا شخص یہ کام کرنے کے لئے تیار ہے تو وہ اس سے علیحدہ ہونے کے لئے تیار ہیں۔ سرسید احمد کی یہی بے غرضی اور بے لوثی برصغیر کے مسلمانوں کو عزت دلانے کی وجہ بن گئی۔

سرسید کے بعد اقبال پر بھی کفر کے فتوے لگائے گئے، کیونکہ وہ خوابیدہ قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا خواب دیکھ رہے تھے۔ کفر کے فتوے قائد اعظم کے حصے میں بھی آئے۔ انہیں بھی ’’کافر اعظم‘‘ کہا گیا، مگر ان کی عظمت تھی کہ وہ ان لوگوں اور ان کی آئندہ نسلوں کو ہندو کے غلبے سے بچانا چاہتے تھے۔ تحریک پاکستان کے آخری ایام میں جب وہ شملہ کی تاریخی ملاقاتوں کے بعد واپس بمبئی آئے تو ان کی حالت انتہائی خراب تھی۔

ان کے معالج ڈاکٹر پٹیل نے بتایا کہ ان کی بیماری اس سٹیج پر ہے جہاں اکثر مریض کسی سینی ٹوریم میںآرام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر پٹیل نے انہیں بمبئی ریلوے اسٹیشن پر ان کے اعزاز میں منعقد ہونے والے استقبالیہ میں نہیں جانے دیا تھا، کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اگر انہوں نے اس تقریب میں شرکت کی تو وہ زندہ نہیں رہیں گے۔

قائداعظمؒ نے اپنی زندگی سے بھی بڑھ کر قومی مفادکو ترجیح دی۔ وہ پوری جانفشانی، تندہی اور عزم کے ساتھ مسلمانوں کی قیادت کرتے رہے۔ انہوں نے کبھی یہ تاثر نہ دیا کہ وہ بیمار ہیں۔ شاطر ہندو لیڈر اور تیز طرار ماؤنٹ بیٹن کبھی یہ اندازہ نہ لگا سکا کہ جناح موت کے دروازے پر کھڑے ہیں۔

اپنے ایک انٹرویو میں ماؤنٹ بیٹن نے کہا تھا کہ اگر اسے جناح کی بیماری کے متعلق اندازہ ہوتا تو وہ تقسیم ہند کے منصوبے کو موخر کر دیتا۔ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ تقسیم ہند صرف قائداعظم محمد علی جناحؒ کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی۔


پاکستان میں جمہوریت کو ناگزیر قرار دیا جاتاہے۔ وطن عزیز ووٹ کی قوت سے معرض وجود میں آیا تھا۔ یہاں مارشل لا کے طویل ادوارآئے۔ مگر آمر حکمرانوں نے بھی کسی نہ کسی انداز میں عوامی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یوں جمہوریت کے سفر میں مارشل لا آئے اور مارشل لا کسی نئے جمہوری دور کے آغاز پر اختتام پذیرہوئے۔ پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کی وجہ سیاستدانوں کو قرار دیا جاتا رہاہے۔

اس میں سچائی سے انکار ممکن نہیں ہے مگر اس میں بھی شبہ نہیں ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ تنقید سیاستدانوں پر کی جاتی ہے اور اکثر اوقات تو سیاست گالی کا مترادف محسوس ہوتی ہے، مگر اس کے ساتھ ہی سیاستدانوں سے ہی امید وابستہ کی جاتی ہے کہ وہ قوم کے جہاز کو خوشحالی کی منزل کی طرف لے جائیں گے۔

پاکستان میں سیاست دانوں پر ہر طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ آج قوم کو جو مسائل درپیش ہیں اس کی بڑی وجہ بے لوث اور بے غرض قیادت کا فقدان ہے۔ آج ہمیں سیاست دانوں کی بے پناہ دولت کی ہوشربا داستانیں سننے کو تو ملتی ہیں، مگر ایسے لوگ قصہ پارینہ بن چکے ہیں، جن کی بے لوثی اور بے غرضی قوم کا قابل فخر سرمایہ تھی۔

مزید :

کالم -