ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 8
کنیزیں اورحرم
بادشاہ کی ذاتی رہائش گاہ سے ایک سمت حرم کا راستہ نکلتا ہے جہاں بادشا ہوں کی کنیزیں رہا کرتی تھیں ۔ خیال رہے کہ خلفاء شادیاں نہیں کرتے تھے بلکہ کنیزیں رکھا کرتے تھے ۔ ان میں سے جو کنیز بادشاہ کی اولاد کو جنم دیتی وہ ممتاز حیثیت اختیار کر لیتی اور جس کا بیٹا تخت نشین ہوجاتا وہ والدہ سلطان کالقب پا کر حرم کی سرپرست بن جاتی۔ شادیاں نہ کرنے کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب بایزید یلدرم کو تیمورلنگ نے 1402میں ایک جنگ میں شکست دے کر اسے قیدکر لیا تو اسے پنجرے میں قید کر کے دربار میں لایا گیا اور اس کی بیویوں کو برہنہ کر کے اہل دربار کو شراب پلانے پر معمور کیا گیا۔
اس ذلت آمیز سلوک سے سلطان قید ہی میں مرگیا۔ تیمور کے بعد یلدرم کے اولعزم بیٹوں نے عثمانی سلطنت کا اقتدار اور عزت کئی زیادہ بڑ ے پیمانے پر بحال کر دی لیکن اس کے بعد انھوں نے شادیاں کرنے کے بجائے کنیزیں رکھنے کو ترجیح دی۔تاہم بہت سے محققین کے نزدیک یہ سب افسانہ ہے ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 7 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بادشاہ کا حرم
مسلمان بادشا ہوں کے حرم کی داستانیں بہت مشہو ر ہیں ۔ تاہم ترکی کے سلاطین اس معاملے میں سب سے زیادہ آگے رہے ۔ ان کا اقتدار چونکہ اہل مغرب کے علاقوں پر بھی قائم ہو چکا تھا اس لیے مشرق کے ساتھ مغرب کی حسین ترین سفید فام خواتین بھی ان کے حرم میں کثرت سے موجود رہتی تھیں ۔یہ خواتین بادشاہ کے دل بہلانے کا سامان ہی نہیں تھیں بلکہ اس کی طاقت ، عظمت اور مرادنگی کا ایک اظہار بھی تھیں ۔ دنیا بھر سے خریدی گئی یا تحفے میں ملی ہوئی یہ لڑ کیاں شاہی محل لائی جاتیں ۔ ان کی تربیت کی جاتی۔ ان کے حسن کو نکھارا جاتا اور پھر بادشاہ کے حرم میں شامل کر لیا جاتا تھا۔
حرم کی یہ عمارت وہیں موجود تھی۔ ہم نے وہاں جانا چاہا تو معلوم ہوا کہ اس کا ٹکٹ چھ بجے بند ہو چکا ہے ۔یہ ایک بند سی جگہ تھی۔ یہاں اس زمانے میں خواجہ سراؤں کے علاوہ کسی اور کو داخلے کی اجازت نہ تھی۔جو لڑ کی یہا ں ایک دفعہ داخل ہوجاتی وہ گویا ساری زندگی کے لیے ایک سنہری پنجرے کی اسیر ہوجاتی۔ دنیا بھر کی نعمتیں یہاں موجود تھیں ، مگر ظاہر ہے کہ بادشاہ کس کس کو اور کتنی دیر تک اپنا قرب عطا کرتا۔ہاں جن کا نصیب جاگتا اور جو بادشاہ کی منظور نظر بن جاتیں ان کا سکہ ہر جگہ چلنے لگتا۔باقی لڑ کیاں حسد اور محرومی کا شکار ہوکر اس سنہری پنجرے میں زندگی گزاردیتیں ۔
حرم عثمانیوں کے ہاں ایک انسٹیٹیوشن بن گیا تھا۔ سلیمان عالیشان کے بعدایک دور میں تقریباًسوا سو سال تک حرم کی خواتین کا اثر و رسوخ اتنا بڑ ھا کہ بادشا ہوں سے زیادہ ان کا حکم چلتا تھا۔آگے سلیمان عالیشان کی ملکہ حورم سلطان کے ضمن میں اس کا تفصیلی ذکر ہو گا۔
موجودہ دور میں کنیزیں
چند برس قبل سلیمان عالیشان کی زندگی پر بنا ہوا ترکی کا ڈرامہ پوری اسلامی دنیا خاص کر عربوں اور ہمارے ہاں نشر ہوا اور بہت شوق سے دیکھا گیا۔اس میں بادشاہ کے حرم میں موجود حسین و جمیل خواتین کو نیم عریاں لباس میں دیکھ کر کچھ لوگوں کو یہ شوق چرایا کہ اسلام میں غلامی کے جواز میں آواز اٹھانا شروع کر دیں ۔ مجھے پے در پے اس حوالے سے سوالات آنا شروع ہوگئے ۔ پہلے تو سمجھ میں نہیں آیا کہ لوگوں کو اچانک کنیزوں سے اتنی دلچسپی کیوں ہوگئی۔بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ ڈرامے میں دکھائی گئی خوبصورت کنیزوں کی کارستانی ہے کہ لوگوں کو اس ’’اسلامی حکم‘‘ کو دوبارہ زندہ کرنے کا خیال آنے لگا تھا۔
اس کے بعد مجھے متعدد مضامین اور مکاتیب میں اس حوالے سے اسلام کا موقف واضح کرنا پڑ ا۔ ہمارے ہاں لوگ چونکہ تعصبات کے اسیر ہوتے ہیں اس لیے علمی باتوں سے زیادہ قائل نہیں ہوتے ۔ چنانچہ ایسے لوگوں سے آخر کار مجھے یہ کہنا پڑ ا کہ کر لیجیے آپ غلامی کو زندہ۔ مگر یاد رکھیے کنیزیں کمزوروں کی عورتوں کو بنایا جاتا ہے ۔اس وقت مسلمان کمزور ہیں ۔ اگر آپ اس کے جواز کے قائل ہوگئے توپھر شکایت مت کیجیے گا طاقتور لوگ آپ کی بہنوں بیٹیوں کو کنیزیں بنا کر بازاروں میں بیچ رہے ہیں ۔ویسے اس کے لیے کسی باہر کی طاقت کی ضرورت نہیں ۔ آپ کے ہاں بھی بہت ہوس پرست جیب میں پیسے ڈالے گھوم رہے ہیں ۔ انھیں اخلاقی اور قانونی جواز مل گیا تو کسی کی بہن بیٹی کی خیر نہیں ہے ۔
تاہم جو لوگ علمی اور فکری طور پر چیزوں کو سمجھنا چاہیں ان کے لیے میرا ارادہ ہے کہ غلامی کے حوالے سے یہ سارے مضامین انشاء للہ ایک جگہ جمع کر کے شائع کر دیے جائیں ۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 9 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں