میں چاہتاہوں کہ خدامیرے لیے کام کرے
اللہ کو سمجھنے اور جاننے کے لئے پہلے میں اس موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں ۔
اس موضوع پر بہت زیادہ بحث ہوتی ہے کہ نفس کیا ہے؟ نفس کوسمجھ لوں گا تو مجھے اللہ کی بھی سمجھ آجائے گی ۔نفس کو سمجھ لیں کہ اس میں سب سے پہلے نفسِ لواماہے، یہ لاطینی لفظ Lomolime ہے جس کا مطلب ہوتا جانورجیساہوتاہے۔یہ وہ نفس ہے جو ہر کسی کے اندر ہے۔ مثلاً بچے کو کوئی نہیں بتاتا کہ تو نے ماں کا کیسے دودھ پینا ہے اس کے اندر دودھ چوسنے کی طاقت اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ اس کو بھوک لگتی ہے133 چیخ و پکار کرتا ہے133 کیوں کرتا ہے133 اللہ تعالیٰ نے طاقت دی۔ وہ ساری چیزیں جو جانوروں اور ہم میں مشترکہ ہیں،وہ Lomolimeہیں۔ اب یہ بد قسمتی کہیے یا لذتِ نفس کہیے، ہم بڑی عمر میں آکر بھی جانوروں جیسی حرکتیں چھوڑتے نہیں ہیں۔
دوسرانفس جو ہے، وہ ہے نفسِ امارہ۔ امارہ ہے امر!133 لواماکے حصول کے لیے آپ کیاکرتے ہیں۔ آپ لواما کی تسکین کے لیے کیا امر اختیار کرتے ہیں ۔ بھوک لگتی ہے، کھانا تو آپ نے کھانا ہے۔ آپ بھیک بھی مانگ سکتے ہیں، چوری بھی کرسکتے ہیں، کما بھی سکتے ہیں۔ میں نے آج صبح ایک عورت کو سٹرک پار کروائی133 ارے بھائی! سڑک ہی پار کرانی تھی اور کیا کرنا تھا۔ ہم سماجی اقدار کوبھی مذہبی اقدارسمجھنے لگتے ہیں اور پھر لوگوں میں آکر الحمد اللہ کہہ کر سناتے ہیں تاکہ لوگ ذرا تھوڑا سا کہیں133 بابا جی ماشاء اللہ تعالیٰ تہانوں اللہ نے بڑی کرم دتا ہے۔ اس جملے پر وہ ضرور کرےئے گا۔ یہ نفس ہے۔
پھر تیسرا ہے مطمنہ۔ آپ لواما کی تسکین کیسے کرتے ہیں ،اس کاانحصار اس بات پرہوگا کہ اب آپ کی زندگی میں مطمئن ہونے کا جہد ہوسکتا ہے یا نہیں133اب اس کا جواب کون دے گا کہ کیسے ہوگا؟133 اللہ ہو عالم133 کسی کو نہیں پتا۔ جب تو آپ کا فیصلہ خدا کے حق میں ہو، ذات کے حق میں نہ ہو تو مطمئن ہوگا۔ ہوسکتا ہے اگر میں آپ کی جگہ نوکری پر ہوتا اور میں آج بھی جس جگہ نوکری پر ہوں خدا کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں، ایک دن نہ سکون لیا اور نہ ان کو دیا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ یہی جنگ ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے133انسان اللہ پر بھروسہ نہیں کرتا۔
جب میں آپ سے بھی چھوٹی عمر میں تھا تو میں ہندوستان چلاگیا۔ وہاں ایک جگہ مری کے مانندپوناہے۔ وہاں پر Rishi Cave ہے۔ وہاں پر ہندوؤں کا بہت بڑا بابا ہوا کرتا تھا، سی آئی اے نے اسے مروا دیا۔ اس کا نام تھا بھگوان شری جگنیش۔ اس کے آشرم میں صرف میں نکر پہنتا تھا باقی کوئی نکر بھی نہیں پہنتا تھا۔ یہ وہاں کی سطح تھی اوروہاں یورپی ناشتاملتاتھا۔وہ بحث پسندنہیں کرتے تھے۔ مجھے چونکہ بحث کرنے کی عادت تھی 133 اور یہ زمانہ 1980کی دہائی کااواخرتھا ۔ ہندوؤں نے اپنے بابے کے پاس بھیجا مجھے۔ وہ بابا سات میل دوررشی گیٹس میں رہتاتھا۔اس عمرمیں انسان ساتھ میل چل نہیں سکتا۔۔ وہ جنون تھا، چلے گئے۔ ملے۔ بازو، گردن رگڑے ہوئے منہ پر پھٹکار پڑی ہوئی، سات دن اسی جگہ آپ نے بول وبرازوہیں کرناہے۔ اندر گرم پانی سے غسل کاانتظام تھا،اورسات ستارہ ہوٹل کی سہولیات میسرتھیں۔ انہوں نے ناشتہ کرایا، کھانا کھلایا اور پھر وہ مجھے اپنے گروسے ملانے کے لیے لے گئے۔ انہوں نے اپنے گروکوبتایاکہ ایک مسلمان چھورا(لونڈا)آپ سے ملنے کے لیے آیاہے۔ اس نے بیٹھتے ہی مجھے ایک کپ دے دیا قہوے کا۔اس کامطلب یہ تھاکہ گرونے آپ کی حاضری قبول کرلی۔ جب اس نے قہوہ دیا تو اس میں ڈالتا چلاگیا۔گرم پانی ہاتھ اور کلائی پر گرتا ہی چلا گیا۔ اب عمر دیکھو اور شوقِ پاگل پن۔ جب اس نے ساری کیتلی خالی کردی تومیں نے سوچا وہ میری برداشت دیکھ رہا ہے۔ میں بڑا خوش ہوا۔ نکل آیا سب کچھ، چربی ساری باہر آگئی۔ میں نے کہا،گرو،کیامیں کامیاب ہوگیاہوں۔۔ کہنے لگا ’’اے اورنامردحرامی مسلمانو‘‘ اب اس عمر میں کوئی مسلمانوں کو گالی نکالے اور مسلمانوں کو نامرد کہے تو سوچ سکتے ہیں کیا ردعمل ہوگا133 میں نے تو اپنی عقل سے ہی فلسفہ دیناتھا ناں133 میں نے کہا’’گرو،ہم نامردنہیں ہیں،ہم بہت اچھے ہیں،ہم چارچارشادیاں کرتے ہیں‘‘ اس نے کہا ’’ تم یہ سمجھ رہے ہوکہ میں تمہیں اذیت دینے کے لیے یہ کہہ رہاہوں،نہیں،میں تمہیں ایک پیغام دینے کی کوشش کررہاہوں۔ تمہارا دماغ اتنا گوشت کھا کھا کر سن ہوگیا ہے، تم یہ پیغام نہیں سمجھ سکتے‘‘ ارے بھائی! بھرے ہوئے پیالے کو کوئی نہیں بھرسکتا۔ جب تم بھرے ہوے پیالوں کو بھرو گے تو زخمی ہوگے۔ جب سیکھنا ہو تو اپنے پیالوں کو خالی کرکے لاؤ۔ وہ جلا ہوا تھا بازو، آج تک نہیں بھولا اس کی بات۔۔ پھر اس نے مشورہ دیا۔ اس نے کہا’’ میں سات میل اندررہتاہوں اورمیری عمر104سال ہے اورتم جیسے لوگ پاکستان سے آتے ہیں اورابھی تک تم سمجھتے ہوکہ خدانہیں ہے۔اسی لیے میں تمہیں نامردکہہ رہاہوں۔تم لوگوں کا خیال ہے خدا اتنا کمزور ہے کہ اگر آج میں ایک گھر میں رہا تو شاید میرے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول کے وہ اندر داخل ہونے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ ہوسکتا ہے مسجد کے حجرے میں چلا جائے اور وہاں سے مولوی صاحب کے ذریعے مجھے ملوادے۔ کہتا ہے یہ تمہاری کمزوری ہے۔ تم نے جیبی خدارکھے ہوئے ہیں‘‘
مجھے وہ بات بھی سمجھ آگئی۔ میراتعلق متوسط طبقے سے ہے۔ میرے والد صاحب نے عدلیہ چھوڑی۔ پتا ہے کس واسطے133 میر اعجیب ہی باپ ہے ، خدا کی قسم! وہ ہائیکورٹ سے شملہ پہاڑی آتے تھے، جہاں سے انہوں نے ایک پان اور ایک سگریٹ روز خریدنا ہوتا تھا ، وہ سڑک کے دوسری طرف تھا۔ جو پولیس والا ان کے ساتھ ہوتاتھا ،اس نے کہا ’’شاہ جی آپ حفظ مراتب نہ توڑا کریں۔ ادھر نہیں جانا‘‘
ابا نے دفتر جانا چھوڑ دیا۔ کہتے ہیں یہ میرے پان کے راستے میں آتا ہے ۔آج تک ہم نے اپنے باپ کو کبھی کام کرتے ہی نہیں دیکھا133 زندگی گزر ہی گئی۔ اور خدا کی قسم آج بھی میرا کام لاہور میں بہت ہے۔ میں حکومت کاچوبیس گھنٹے کاملازم ہوں133 کیونکہ وہ روٹی لگی ہے تو لگی ہے۔ نہیں لگی تو اللہ تعالیٰ میرے اس بیسویں گریڈ کا محتاج ہے یار!133 کمال کرتے ہو133 اگر اللہ محتاج ہے تو پھر مجھے اللہ بدل لینا چاہیے۔ یہ کمزوراورضعیف دلائل ہیں133 کہ اچھا استعفیٰ دے دو133 تمہارے خیال میں اللہ تعالیٰ نے مستقبل کاکوئی منصوبہ نہیں بنایاہوا۔ اللہ تعالیٰ اس ٹھنڈے کمرے میں نہیں آسکتا۔ اس نے ضرور تمہاری مسجد میں آنا ہے جہاں کے غسل خانوں میں سے بدبو آرہی ہے133 خداسات ستارہ نہیں بلکہ بیس ستارہ خداہے۔وہ تمہارے لیے کام کرسکتاہے ،اب تمہیںیہ فیصلہ کرناہے کہ تمہارا رب کتنابڑا ہے۔ تمہارا فیصلہ اگر چھوٹا ہے تو اللہ نے پتا ہے کیا کہا133 حدیثِ (مفہوم) قدسی ہے 133 غور کرنا133 کہا ’’میں ویسا ہی پلٹتا ہوں جیسا مجھ سے مانگنے والا گمان کرتا ہے۔ تم بالشت آؤ گے، میں ہاتھ آؤں گا۔ تم چل کے آؤ گے، میں بھاگ کر آؤں گاتو مجھے گمان تو اچھا کرنا چاہئے ناں ۔ میں ذہنی طور پر نامرد ہی ٹھیک ہوں133 گمان اچھا کرو! خدا کی قسم خدا ایسے نہیں آئے گا۔ میں زندگی میں سب سے کم کام کرتا ہوں۔ مجھے میرے بھائیوں نے کہا کہ امریکہ آبادہوجاؤ۔ میں نے کہا، نہیں یار133 بہت زیادہ دباؤہوتاہے،میں گھر پر بیٹھ کر آرام سے ٹیلی ویژن دیکھنا چاہتا ہوں۔ اب میں صرف ٹیلی ویژن دیکھتا ہوں،چینل تبدیل کرتا ہوں۔ کتابیں پڑھتا ہوں 133بس اللہ کے بندے!133 مجھے کیافکر کہ اللہ نے کہاں سے دینا ہے، مجھے کیوں فکر کرنی ہے؟ جب مجھے فکر کرنی ہے تو پھر پتا ہے کیا ہوگا؟ میں خدائی کام کررہا ہوں۔ میں خدائی کام کررہاہوں جومیں نہیں چاہتا۔میں چاہتاہوں کہ خدامیرے لیے کام کرے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔