سیاسی جماعتوں کے بیرونِ ملک دفاتر

سیاسی جماعتوں کے بیرونِ ملک دفاتر
سیاسی جماعتوں کے بیرونِ ملک دفاتر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کاش ہماری سیاسی جماعتیں اپنے بیرونِ ملک دفاتر بند کرنے پر غور کریں۔
اسلامی انقلاب کے بعد ارض فارس کے سوکھے دھانوں پر چھاجوں مینہ کچھ ایسابرسا کہ آئے دن ملک بھر میں کہیں نہ کہیں کوئی اجتماع، سیمینار، کانفرنس یا تربیتی ورکشاپ ہوتی رہتی ہے۔ قزوین میں واقع امام خمینی انٹرنیشنل یونیورسٹی اس کام میں کیوں پیچھے رہتی۔ وہاں کے شعبہ سیاسیات نے اس نسبت سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اعلان کیا تو خیال آیا کہ لگے ہاتھوں شاید کچھ تاریخی مقامات کی زیارت ہو جائے ۔ ابتدائی کاموں میں اولین مشق اس تحقیقی مقالے کا مختصر مجوزہ خاکہ ہوا کرتا ہے جو ایسی کسی کانفرنس کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے۔ اگر کانفرنس کے منتظمین اسے منظور کریں تو گویا تیاری کے لئے کمربستہ ہوا جا سکتا ہے۔ایران کی دستوری تاریخ میں 1906ء اور 1980ء کے دو دستور ہیں۔ ان دونوں کے مطابق ایران امام غائب کے تصور پر قائم ایک ایسی ریاست ہے جس کے روزمرہ امور فقہ جعفری اثنا عشری کے تحت چلانا دستوری تقاضا ہے۔ میں نے ان دونوں دستاتیر کے مطالعے کو پیش نظر رکھ کر کچھ تجاویز مرتب کیں۔ ضروری مراحل سے گزر کر بالآخر قزوین سے دعوت نامہ آ گیا۔

محبّی ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی، کہ اپنی وضع کے ایک ہی فرد ہیں، کو علم ہوا تو بڑے خوش ہوئے۔ انہیں کہیں خبر مل جائے کہ کسی نے کچھ لکھا ہے تو سارے کام چھوڑ کر اس لکھے ہوئے کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتے ہیں۔ چین انہیں تب آتا ہے جب وہ لکھا ہوا پڑھ لیں۔ وہ مشتاق یوسفی کے ان خان اورنگ زیب خان کے مثل ہیں جنہیں کوئی بتا دیتا کہ پرسوں جنگل کے فلاں حصے میں فلاں درخت پر ایک فاختہ بیٹھی تھی تووہ اسی وقت بندوق کندھے پر لٹکا کر اسے شکار کرنے چل پڑتے تھے۔ ڈاکٹر فاروقی صاحب کو میں نے رواروی میں بتایا کہ اس طرح کا مقالہ پیش نظر ہے حالانکہ ا بھی کچھ زیادہ سنجیدگی نہیں تھی۔ بس پھر کیا تھا۔ انہیں نہ بتاتا تو خود سوچ کر دیگر کاموں میں لگ جاتا، لیکن آنجناب کو اس وقت چین آیا جب لکھا ہوا مقالہ ان کے ہاتھ میں پہنچ گیا۔

جب انہوں نے افسراعلیٰ کی حیثیت سے میری چھٹی کی درخواست دیکھی جو صرف ایک ہفتے کے لئے تھی کہ اس سے کم کوئی پرواز دستیاب نہ تھی تو بجائے منظور کرنے کے فوراً طلب کر لیا۔ ’’ آپ ایران جیسے اسلامی ملک میں جا رہے ہیں جواسلامی تاریخ و تہذیب کی اپنی نوعیت کی ایک ہی مثال ہے، او ر وہ بھی صرف ایک ہفتے کے لئے ؟ دیکھئے! ایک ہفتے میں سے دو دن تو آنے جانے کے رکھ لیں، تین دن کی کانفرنس ہے، بھئی ڈاکٹر صاحب باقی دو دنوں میں آپ کیا دیکھ پائیں گے؟کم از کم دو ہفتوں کے لئے آپ کو جانا چاہیے دو ہفتے کم از کم‘‘۔


گھر آ کر اس بابت اعلان کیا تو بچوں کی تو کلغیاں گر گئیں، لیکن بیگم کو سو فی صد ڈاکٹر فاروقی صاحب کا ہم نوا پایا: ’’یہ کیا آپ وقت کو بھی پنساریوں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ نہ آپ فلم دیکھیں، نہ کوئی ٹی وی ڈرامہ، نہ کسی پارک میں جانے پر آپ رضامند ہوں، کچھ وقت اپنے اوپر بھی صرف کیا کریں، ہر وقت کتابیں اور قلم یہ کوئی زندگی ہے۔‘‘ اب تھوڑا سا اختلاف نوکِ زبان پر آیا ہی تھا کہ بچوں کی طرف خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوئے انہیں ڈانٹا: ’’تم لوگوں کو تو بس باپ ہی کی بغل میں گھسے رہنا اچھا لگتا ہے کبھی ماں کا بھی خیال کر لیا کرو۔

‘‘ خیریت یہ گزری کہ یہ ماں ذرا جدید دور کی ہے ورنہ ہمارے وقتوں کی ماؤں کی بغل میں ایک مرغا ہوا کرتا تھا جس کے برتے پر وہ صبح نہ ہونے کی دھمکی یوں دیا کرتی تھیں: ’’بتیس دھاریں نہیں بخشوں گی۔‘‘ اس تمام دانتا کِل کِل کے آخر میں بیگم کا قولِ فیصل وہی ڈاکٹر فاروقی صاحب کے علمی پیرائے کا غیر علمی اور نسوانی بیان تھا: ’’میں تو کہتی ہوں ایک ہفتہ تو اس کانفرنس کی نذر ہو جائے گا۔ سُنیے! وہاں سے زعفران اصلی اور خالص ملتا ہے۔ اتنا ضرور لانا کہ کچھ بڑی آپا کو بھی دیا جا سکے۔سنا ہے مہنگا ہوتا ہے، پر پلاؤ زردے پر ڈالوں گی تو محلے بھر میں ڈھنڈیا پٹے بغیر پٹ جائے گی۔ زعفران آخر زعفران ہے! ہاں تو کانفرنس سے سیدھے گھر ہی واپس آنا ہے یا کہیں منڈی بازار، وہ تو آپ کو اس کاہو کا ہی نہیں ہے۔ مسز شجاع بتا رہی تھیں وہاں کے عود کی بات ہی کچھ اور ہے۔ میں تو کہوں دو ہفتوں کے لئے جائیے دو ہفتوں کے لئے !‘‘


قارئین کرام! اس بات سے کون اختلاف کر سکتا ہے کہ جس طرح کھانے کے دو اہم اجزا۔۔۔روٹی یا چاول اور سالن۔۔۔ ہوتے ہیں باقی بروزن صحت دیگر اجزا بس زبان کا لپکا ہوتے ہیں ویسے ہی انسان کی تمام زندگی دو بڑے دائروں میں گردش کرتی ہے: ایک معاشی تگ و دو کا دائرہ جس کا مرکزہ ڈاکٹر یوسف فاروقی تھے، دوسرا دائرہ ازدواجی زندگی سے عبارت ہوا کرتا ہے جس کے دونوں نصف قطر کے بیچ میں زوجہ محترمہ یعنی پتنی تھی۔ اب آپ نے ان دونوں یعنی میری کل کائنات میں سے ہر دو کے اقوال زریں میرے بارے میں پڑھ لئے ہیں۔ دونوں کا کہنا تھا کہ میں دفتر اور گھر سے ذرا فاصلے پر ہوں، تاکہ دفتر اور گھردونوں سکون سے چل سکیں۔ یوںآپ خواتین و حضرات بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ باقی مخلوقِ خدا مجھ سے کس قدر بیزار ہو سکتی ہے۔


قزوین کی امام خمینی بین الاقوامی یونیورسٹی کی یہ بین الاقوامی کانفرنس صلائے عام تھی۔ آسٹریلیا اور لاطینی امریکہ کو چھوڑ کر تمام برِاعظموں میں سے اسکالر اپنے اپنے مقالوں کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ غالب تعداد بہرحال ایرانیوں ہی کی تھی۔ یونیورسٹی اس طرح کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس کرا رہی تھی لہٰذا ان کے بہت سے امور توجہ طلب تھے۔ ایک دن اسٹاف روم میں چند ایرانی پروفیسروں کے ساتھ ظہرانے پر غیررسمی گفتگو ہوئی۔

جس تہذیبی روایت کی یافت کی خاطر کُو بہ کُو میںیہاں تک پہنچا تھا، معلوم ہوا وہ روایت گلی بازاروں میں تو کیا جامعات میں بھی دھندلکے کا شکار ہو چکی ہے۔ پھر خیال آیا، ماضی سے نکل کر مآل پر نظر رکھنے والے تیزگام ہی منزل پر جا کر سستاتے ہیں۔ موضوع سخن میری نسبت سے علامہ اقبال پھر اسلامی ریاست اور ہوتے ہواتے پاکستانی سیاست میں آن اٹکا۔ اس موقع پر خصوصاً اور علاوہ ازیں بالعموم اندازہ ہو ا کہ ہمارے اس وقت کے صدر جناب آصف علی زرداری صاحب کی شہرت یکساں کمیت کے ساتھ پوری دنیا میں اشاعت کے مراحل سے گزر چکی ہے۔


جو روایات اور جُگتیں ملک کے اندر لوگوں کو سننا سہنا پڑتی ہیں، ملک سے باہر انہی روایات اور جُگتوں سے ہر طبقے کے لوگ مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ مجال کہ موصوف سے متعلق مرویات میں کہیں الحاقی مواد شامل ہو۔ روایت باللفظ اوّل تا آخر روایت باللفظ ہی سننے کو ملتی ہے۔ علی ہذا القیاس روایت بالمعنی بھی انہی خطوط پر۔ کھانے کی میز پر وہ تمام کڑوی کسیلی باتیں سننے کو ملیں جو ملک کے اندر اکثر اوقات آن ائر رہتی ہیں۔ کچھ زیادہ توجہ نہ کی کہ علمی روایت کے امین ایک دوسرے ہی لب و لہجے اور آداب و اصطلاحات کے خوگر ہوا کرتے ہیں، لیکن یہ خیال بھی وہیں سے ذہن میں آیا کہ اسناد و مراتب ہوں یا کسی کا بسیر ا طبقاتی بلندی پرہو، انسانی ذہن ہمیشہ سے تین ہی کُرّوں کا اسیر رہا ہے۔

اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے حامل افراد ، مدبر اور دور اندیش ہوتے ہیں۔ یہ لوگ گاؤں کے اَن پڑھ چاچے تایے ہوں ، یا سرونسٹن چرچل یا ایئرمارشل نور خان، کائنات کے نظام میں انہی کا رکھ رکھاؤ کام کرتا ہے۔قدرے کم سوجھ بوجھ والے لوگ فکروفلسفہ کے امین تو نہیں ہوتے، لیکن تاریخ سے استنتاج کر لیتے ہیں۔ رہے پست ذہنی سوچ والے تو یہ لوگ آپ کو پروفیسروں میں بھی مل سکتے ہیں۔یہ حاملین جُبّہ و دستار بھی ہوسکتے ہیں۔یہ جرنیل بھی ہو سکتے ہیں اوریہ لوگ غاصبین منصب قضا بھی ہو سکتے ہیں۔جس کسی کو یقین نہ آئے وہ ملک کی موجودہ صورتِ حال اور ملک چلانے والوں کی ذہنی سطح کا طائرانہ جائزہ ہی لے لے، اسفل السافلین ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ ان ایرانی پروفیسروں کی اکثریت بھی اس تیسرے زُمرے سے متعلق تھی۔

تھوڑی دیر تو میں صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب آصف علی زرداری صاحب کی کردار کشی سہتا رہا، لیکن جونہی انہوں نے مجھے براہ راست مخاطب کر کے استفسارات کرنا شروع کیے تو پھر آستینیں چڑھانا ہی پڑیں: ’’حضرات میں کافی دیر سے آپ لوگوں کی باتیں سن سن کر اندر ہی اندر کڑھ رہا ہوں۔ آپ لوگوں کو اور کچھ تو کیا آداب میزبانی بھی بھول چکے ہیں۔ کیا آپ کو احساس نہیں ہے کہ آپ میرے صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں۔ بصد شوق مزید کہیے!۔۔۔ لیکن یہ کچھ کہنے کے بعد فی الحقیقت آپ مجھے بھرپور اجازت دے رہے ہیں کہ میں آپ کے صدر مملکت اور رہبر مجلس خبرگان پر پانچ سو مرتبہ تبریٰ بھیجوں۔ جی! ذرا جگر تھام کے بیٹھیں کہاں سے آغاز کروں؟ صدر مملکت سے یا مجلس خبرگان کے آیت اللہ سے؟‘‘


آپ نے شاید ہی کبھی یہاں اپنے ہاں کسی غیرملکی گروپ یا کسی غیرملکی سیاسی جماعت کو اس کے اپنے ملک کی سیاسی قیادت کے خلاف نعرہ زن دیکھا ہو ، یا کبھی احتجاج کی ایسی کوئی شکل نظر آتی ہو۔بدقسمتی یہ ہے کہ اپنے ہاں کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے غیرمما لک میں اپنے اپنے دفاتر کھول رکھے ہیں۔ ملک کے اندر کے سیاسی اختلافات انہی چھچھوری حرکتوں کے ذریعے یہ تمام سیاسی جماعتیں بڑی ڈھٹائی سے بیرون ملک برآمد کرتی ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو وہاں، جس مثالی ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے، اسے تمام سیاسی جماعتوں نے پارہ پارہ کر رکھا ہے۔

اس کا نقصان کسی اور کو محسوس ہو یا نہ ہو ، پاکستان کے ہر دردمند شہری کا جگر اسی حرکت سے چھلنی ہوتاہے۔ یہ جو ایرانی پروفیسر بڑھ بڑھ کر بول رہے تھے، یہ ہمارے اپنے اعمالِ بد کا نتیجہ ہے ۔ ایک دوسرے کو کسی حد تک ہم برداشت کریں یا نہ کریں، اپنے اور دوسرے کے اعمال خبیثہ کی اشاعت بیرونِ ملک تو نہ کریں۔ اگر کسی کے علم میں ہو کہ کسی افغانی یا برمی سیاسی جماعت کا کوئی دفتر پاکستان میں ہے تو مجھے جان کر اپنی رائے سے رجوع کرنے میں ذرا تامل نہیں ہوگا۔ افغانی اور برمی یہاں لاکھوں میں ہیں، لیکن مجال کہ اپنی سیاسی قیادت کے بارے میں لب کشانی کریں۔
کاش ہماری سیاسی جماعتیں اپنے بیرونِ ملک دفاتر بند کرنے پر غور کریں۔

مزید :

رائے -کالم -