’’اسرائیل ایک حقیقت ہے‘‘

’’اسرائیل ایک حقیقت ہے‘‘
’’اسرائیل ایک حقیقت ہے‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ جملہ کچھ عرصہ سے عرب ریاستوں میں زبان زدِ عام ہوتا جا رہا ہے، حال ہی میں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو اومان کے سلطان قابوس بن سعید السعید کی دعوت پر اومان کے دورے پر گئے۔ اُن کے ہمراہ اُن کی اہلیہ سارہ، انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداران کے علاوہ ’’موساد‘‘ کے چیف بھی تھے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ تاحال اسرائیل اور اومان کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا یہ دورہ ایک ’’سرپرائز‘‘ تھا،لیکن واقفانِ حال جانتے تھے کہ ایسا ’’سرپرائز‘‘ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے اور اِس کی وجہ مشرقِ وسطیٰ میں عرب حمایت یافتہ اور ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہے۔

اگرچہ خلیج کی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان خفیہ رابطے قائم تھے اور ایک دوسرے سے حساس معلومات کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا تھا،لیکن اسرائیل فلسطین تنازعہ کی وجہ سے اسے ظاہر نہیں کیا جاتا تھا،لیکن اب مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ نے اپنے ’’اثرات‘‘ ظاہر کر دیئے ہیں کہ جب اسرائیل نے اسے ’’اپنے مقصد‘‘ کے حصول کی طرف پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عرب ریاستیں اسرائیل کے ایک فوجی اور معاشی طور پر مضبوط ریاست ہونے کا فائدہ اُٹھا سکیں گے۔


امریکی صدر ٹرمپ نے اس دورہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے مشرقِ سطیٰ میں امن اور استحکام کے علاوہ فلسطین اسرائیل مسئلے کے حل کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا ہے اور اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ مستقبل میں اسرائیل اور عرب پڑوسی ایک دوسرے کے اور قریب آتے جائیں گے اور اپنی سلامتی کو لاحق خطرہ (ایران) مشترکہ لائحہ عمل کے ذریعے مقابلہ کریں گے۔


اس دورہ کے لئے اومان کا انتخاب اِس لئے بھی کیا گیا کہ اومان ایک عرصہ سے مختلف عوام کے درمیان ایک پُل اور رابطے کا ذریعہ ہے۔ 2015ء میں طے پانے والے امریکہ اور ایران کے درمیان ایٹمی معاہدہ کی ابتدائی تیاری میں بھی اومان کے ذریعے بیک چینل مذاکرات ہوئے تھے۔اسرائیل کے وزیراعظم سے پہلے فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی سلطان قابوس کی دعوت پر اومان کا دورہ کیا تھا،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسطینی حکام پر اردن اور سعودی عرب بہتر انداز میں اثر انداز ہو سکتے ہیں۔عالمی سیاست میں کچھ بھی اچانک نہیں ہوتا، محرکات کا ایک طویل عمل ہوتا ہے جو کامیاب بھی ہوتا ہے اور ناکام بھی۔1993ء میں اوسلو (ناروے) میں طے پائے جانے والے معاہدے (اسرائیل فلسطین) کے بعد 1996ء میں شمعون پیریز نے اومان کا دورہ کیا اور تجارتی معاہدے پر دستخط کئے۔ ایک دوسرے کے ساتھ کھلی تجارت شروع کی،لیکن یہ معاہدہ 2000ء میں ختم ہو گیا، جب اسرائیل نے فلسطین میں تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا اور ردعمل کے طور پر دوسرا انتفادہ یعنی مزاحمتی تحریک شروع ہوئی۔


اسرائیل کے وزیراعظم کا دورہ اومان سرپرائز ضرور تھا،لیکن اس سے پہلے بحرین نے بھی اسرائیل کے ساتھ بہت قریبی روابط قائم کئے ہوئے ہیں اور اُس کی وجہ بھی ایران کی طرف سے اپنی سلامتی کا خطرہ ہے اور اس نزدیکی اور قربت میں اسے سعودی عرب کی مکمل حمایت حاصل ہے،لیکن یہاں بھی باقاعدہ سفارتی تعلقات کے قیام میں رکاوٹ فی الحال اسرائیل فلسطین مسئلہ ہے،لیکن مستقبل میں؟ بہرحال قریبی روابط1994ء سے قائم ہیں۔


ستمبر میں امریکی شہر لاس اینجلس میں ہونے والی ایک کانفرنس میں بحرین کے شہزادہ تصرین حماد بن عیسیٰ الخلیفہ نے شرکت کی اور ایک یہودی میوزیم کا دورہ بھی کیا۔اس کانفرنس کے دوران اسرائیلی نمائندے نے اپنے خطاب میں کہا کہ بحرین عرب لیگ کی طرف سے اسرائیلی معاشی تجارتی بائیکاٹ کا حامی نہیں اور چاہتا ہے کہ بحرین اور اسرائیل کے شہری بلا روک ٹوک ایک دوسرے کے مُلک میں آئیں جائیں اور قوی امکان ہے کہ مستقبل قریب میں ہمارے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہو جائیں۔ بحرین واحد عرب ریاست ہے،جہاں یہودیوں کی عبادت گاہ موجود ہے۔ واحد ریاست ہے جہاں ایک یہودی خاتون ھدی عذرا ابراہیم 2013-1018ء امریکہ میں سفیر کی حیثیت سے تعینات رہی ہیں۔ 2015ء تک یہودیوں کی مذہبی رسم اور مقدس دن Hanukkah Candle Light باقاعدگی سے منائی جاتی رہی ہے۔


خلیج اور مشرقِ وسطیٰ کی عرب ریاستوں کی نسبت بحرین کی اسرائیل سے قریبی تعلق قائم رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایران ایک زمانے میں بحرین کے ایران کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتا رہا ہے۔ بحرین کی آبادی کا بڑا حصہ شیعہ ہے اور ایران سے قریبی، دینی، فطری،روحانی تعلق قائم رکھے ہوئے ہے۔ بغاوت بھی ہوئی،لیکن سختی سے کچل دی گئی۔ اس کے بعد بحرین اور امریکہ کے درمیان بھی مضبوط فوجی تعلقات قائم ہیں اس پس منظر میں بحرین ہمسایوں کی نسبت اپنی سلامتی کو ایران سے زیادہ خطرہ محسوس کرتا ہے اور یہی احساس اسرائیل میں بھی ہے اور یہی ان کا مشترکہ مفاد بن گیا ہے۔


آج کل عرب دُنیا میں سفر کرتے ہوئے کہیں کہیں فلسطین کا مسئلہ سنائی دے گا۔ اکثر یہی جملہ سنائی دے گا،جو اِس مضمون کا عنوان ہے، کسی زمانے میں فلسطین کے ایشو پر عرب دُنیا متحد تھی، اب پوری عرب دُنیا قطر کے علاوہ ایران سے اپنی اپنی سلامتی کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے متفق ہے، بلکہ ایک اہم عرب شخصیت نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ’’اسرائیل کا موجود اور وجود ہونا بہتر سمجھتے ہیں نا کہ اسرائیل کا وجود اور موجود نہ ہونا‘‘


گزشتہ ایک دہائی میں بعض،بلکہ خصوصاً دو عوامل ایسے ہیں،جنہوں نے عربوں اور اسرائیل کے درمیان فاصلے کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پہلی تو یہ کہ اسرائیل نے توانائی کی پیداوار میں اتنی ترقی کی ہے کہ وہ اب توانائی ایکسپورٹ کرتا ہے۔ حال ہی میں اسرائیل اور مصر کے درمیان 15ارب ڈالر کا دس سال پر محیط ایک معاہدہ ہوا ہے، جس کے تحت مصر اسرائیل سے گیس خریدے گا اور اُسے آگے یورپ اور افریقی ممالک کو ایکسپورٹ کرے گا۔یہ معاہدہ ماضی کی اِن دشمن قوتوں کو قریبی دوست بنا رہا ہے۔دوسرا ایک خاموش معاہدے کے تحت خلیج تعاون کونسل کے اراکین اسرائیل سے خفیہ معلومات کا معاہدہ، ٹیکنیکل علوم اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کا تبادلہ اس وقت بھی کر رہے ہیں۔

دوسری بڑی وجہ یہ بن گئی کہ عرب ریاستوں کی فلسطین کے ایشو پر دلچسپی اور توجہ کم ہو گئی ہے، کیونکہ وہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ وہ اِس مسئلے پر کوئی زوردار ’’دباؤ‘‘ بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو پائے اور خود فلسطینی بھی اپنی جدوجہد میں متحد نہیں ہیں، بلکہ دھڑوں میں تقسیم ہیں اور اِس بات پر زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں کہ محمود عباس اور پی ایل او کی قیادت کا متبادل کون ہو گا؟نہ کہ فلسطینی عوام کی مشکلات کم کرنے کی طرف توجہ دیں، اُن کے حقوق کا تحفظ ممکن بنائیں۔


یہ سارے محرکات ایسے ہیں، جنہوں نے سُنی عرب ریاستوں میں احساس پیدا کرنا شروع کر دیا ہے کہ شیعہ ایران سے لاحق اُن کی سلامتی کے لئے اسرائیل کا وجود اور ’’نزدیکیاں‘‘ضروری ہیں۔اس کے علاوہ ’’عرب اسپرنگ‘‘ نے بھی انہیں اپنے اندرونی اور داخلی مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے کا احساس دِلا دیا ہے۔ خلیج تعاون کونسل کے اراکین میں سے کویت کا ذکر ضروری ہے کہ جب یاسر عرفات نے صدام حسین کے کویت پر قبضہ کی حمایت کی تھی، اُس کے بعد بڑے پیمانے پر کویت سے ان کا جبری انخلا شروع ہوا اور کویت کو فلسطین کے مسئلے پر کوئی دلچسپی نہیں رہی، حمایت تو دور کی بات ہے،

لیکن مقامی آبادی کے دباؤ پر اور اسرائیل کا دارالحکومت منتقل کرنے کا فیصلہ بھی انہی عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان باقاعدہ سفارتی اور تجارتی تعلقات کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے (بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل نے اہم عرب ریاستوں کو اعتماد میں لے کر یہ فیصلہ کیا ہے) یہی صورتِ حال سعودی عرب کی بھی ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کے راستے میں ایک مضبوط رکاوٹ اور عرب ریاستوں کا مددگار ہے(بالواسطہ) یہ تمام عوامل اور محرکات مل کر عرب دُنیا میں یہ احساس پیدا کرتے ہیں کہ ’’اسرائیل ایک حقیقت ہے‘‘۔

مزید :

رائے -کالم -