حکومت کہیں نہیں جا رہی ، پارٹی میں کوئی بحران نہیں ، گورنر ، وزیر اعلٰی سمیت کے عمل میں مزید تیزی آئے گی : فواد چودھری

حکومت کہیں نہیں جا رہی ، پارٹی میں کوئی بحران نہیں ، گورنر ، وزیر اعلٰی سمیت ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور( سٹی رپورٹر ،مانیٹرنگ ڈیسک ، نیوز ایجنسیاں)وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے آنے والے دنوں میں احتساب کے عمل میں مزید تیزی آنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کرپشن کے خلاف اقدامات نہ کرنا پی ٹی آئی کے ووٹرز سے غداری ہو گی ، کچھ ممالک میں پیسے نکلوانے کیلئے جو طریقے اپنائے جاتے ہیں جمہوری ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ان طریقوں کو استعمال نہیں کیا جا سکتا اس لئے کچھ دیر لگ رہی ہے ،کوئی غلط فہمی میں نہ رہے حکومت کہیں نہیں جا رہی ۔حکومت کو ادائیگیوں کے بحران کا سامنا تھا لیکن اب کچھ آسانیاں پیدا ہوئی ہیں ، (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ ہم بھیک مانگتے پھر رہے ہیں پھر اس کا حل یہ ہے کہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں پاکستان پر چڑھنے والا 84فیصد قرضہ دونوں سیاسی خاندانوں سے نکلوا لیتے ہیں پھر باہر کی ضرور ت نہیں رہے گی،پارٹی میں کوئی بحرانی کیفیت نہیں ،صرف عمران خان لیڈر ہیں اورباقی تمام لوگ ورکرز ہیں ، پیپلز پارٹی سے ہونے والی ملاقات میں یہ کہا تھاکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بڑے بھائی کے منصوبوں کا چھوٹا بھائی آڈٹ کرے اس لئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ پی ٹی آئی کو ملنی چاہیے ، اگر لازماًچیئرمین شپ اپوزیشن کو ہی دینی ہے تو بلاول یا کسی اور کودیدیں ،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والا معاملہ حکومت یا ریاست کا نہیں بلکہ معاشرے کا بحران ہے ، کچھ لوگ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر سیاست کر رہے ہیں اور ان سر گرمیوں کا مذہب سے قطعاً کوئی تعلق نہیں، نظریات کی لڑائی بندوق سے نہیں بلکہ دلائل سے جیتی جاتی ہے ،مذہبی قیادت اس نظریاتی لڑائی کی اونر شپ لے موجودہ حکومت ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں ’’ عدم برداشت کاپھیلتا رجحان اور ریاست کی ذمہ داریاں ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔فواد چوہدری نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی کوشش ہے کہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست کا نمونہ بنایا جائے اور اس کیلئے عملی اقدامات شروع کر دئیے گئے ہیں ۔ اگر ریاست میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ نہ ہوں تو یہ مدینہ کی ریاست سے کوسوں دور ہونے والی بات ہے ۔ ایسی ریاست کی شرائط میں سب سے اہم ترین شرط اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہے اور انشا اللہ پاکستان حقیقی معنوں میں پراگریسو اور فلاحی ریاست ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح وزیر اعظم عمران خان سوچتے ہیں اس طرح کوئی بھی نہیں سوچتا ،کیا کسی دوسرے وزیر اعظم نے مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے 25لاکھ بچوں کے بارے میں سوچا تھا۔کیا کسی وزیر اعظم نے مزدوری کرکے رات کو بغیر سائبان رات بسر کرنے والے مزدوروں کے بارے میں سوچا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے فیصلہ کیا کہ ہمیں غریب ترین لوگوں کو اوپر اٹھانا چاہیے اور ہم ان کا معیار زندگی بلند کرنا چاہتے ہیں ۔ وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ کچی آبادیوں کے رہائشیوں کو سہولیات دینا میرا کام ہے ، کیا ہزاروں روپے تنخواہ لینے والا کوئی شخص ساری عمر اپنا گھر بنا سکتا ہے اسی لئے وزیر اعظم عمران خان نے گھروں کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا ۔ انہوں نے کہا کہ فلاحی ریاست ذاتی ایجنڈا نہیں جبکہ اپوزیشن کا سارا یجنڈا ذاتی ہے ۔ اپوزیشن کا رویہ یہ ہے کہ بڑا بھائی جیل جائے تو چھوٹا بھائی اپوزیشن لیڈر بنے اسے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین شپ دی جائے تاکہ وہ بھائی کا آڈٹ کرے ، عمران خان کی یہ سوچ نہیں ہے کہ اپنے خاندان کو نوازنا ہے ۔ اپوزیشن اور عمران خان کی سوچ اور سیاست میں یہی فرق ہے ۔ عمران خان کی سیاست ملک او رقوم کے لئے ہے جبکہ اپوزیشن کی سیاست ا گھر کے لئے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کئی سال کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے ان کے دور میں کیا کیا واقعات نہیں ہوئے لیکن انہوں نے کبھی احتجاج نہیں کیا ۔ جب وہ حکومت میں ہوں تو حکومت ، آئین ہر چیز صحیح ہوتی ہے لیکن جیسے ہی حکومت سے باہر جائیں تو انہیں جان کے لالے پڑ جاتے ہیں ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ 1988ء کے بعد مولانا فضل الرحمن کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ۔ موجودہ حکومت کی گاڑی ڈیزل کے بغیر اچھی چل رہی ہے کیونکہ اب ہائبرڈ گاڑیاں آرہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹی چھوٹی باتیں اور اختلافات ہو جاتے ہیں ،پی ٹی آئی میں لیڈر شپ کا کوئی بحران نہیں اور عمران خان ہی حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور اس کے بعد پوری پارٹی اس پر متحد اور متفق ہوتی ہے اس لئے کسی کو غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ کسی نے وزیر اعلیٰ کے بارے میں بات کر دی ، گورنر کے بارے میں بات ہو گئی اس سے کوئی بحران کھڑا نہیں ہوا ۔ گورنر ، وزیر اعلیٰ ، وزیر سب ورکر زہیں اور صرف عمران خان لیڈر ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کیلئے سب سے اہم بحران ادائیگیوں کاتوازن تھا او رہم نے 12ارب ڈالر دینے تھے لیکن اب اس میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ نواز شریف اور آصف زرداری کی جماعت کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم بھیک مانگتے ہیں ، ملک پر مجموعی قرضے کا 84فیصد دونوں جماعتوں کے ادوار میں لیا گیا ، اس قرض کو دونوں سیاسی خاندانوں میں بانٹ دیتے ہیں اور ان سے نکلوا لیتے ہیں اور پھر ہمیں باہر کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ باہر کے ممالک میں پیسے نکلوانے کے اور طریقے ہیں لیکن پاکستان میں جمہوریت ہے اس لئے یہاں یہ طریقے آزمائے نہیں جا سکتے اس لئے تھوڑی دیر لگ رہی ہے ۔ یہ پاکستان کے لوگوں کے پیسے ہیں ۔ یہ کہتے ہیں کہ ایوان میں ماحول اچھا رہنا چاہیے جس کا مطلب ہے کہ ان سے مک مکا کر کے چلنا چاہیے اور کرپشن پر بات نہ کی جائے ۔ اگر کرپشن پر بات کی تو ماحول خراب ہو جائے گا اس لئے ان کے کیسز پر بات نہ کریں ۔ میرا موقف ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے کرپشن کے خلاف بات نہیں کرنی اگر ہم نے اس سے پیچھے ہٹ جانا ہے اور ان پر ہاتھ ہولا رکھنا ہے جو ان کی خواہش ہے تو یہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کے ساتھ غداری ہو گی ۔ اس حوالے سے وزیر اعظم کا واضح موقف ہے ہم نے احتساب کے لئے جو اقدامات کئے ہیں ان میں تیزی آئے گی ۔ حکومتیں آنی جانی چیزہوتی ہے ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت کہیں نہیں جارہی اور کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے ۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان 29نومبر کو حکومت کے 100 روز کے منصوبوں کے حوالے سے عوام کو آگاہ کریں گے۔ قبل ازیں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والا معاملہ حکومت یا ریاست کا نہیں بلکہ معاشرے کا بحران ہے ، کچھ لوگ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر سیاست کر رہے ہیں اور ان سر گرمیوں کا مذہب سے قطعاً کوئی تعلق نہیں، نظریات کی لڑائی بندوق سے نہیں بلکہ دلائل سے جیتی جاتی ہے ،مذہبی قیادت اس نظریاتی لڑائی کی اونر شپ لے موجودہ حکومت ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے ،جغرافیے کی وجہ سے افغانستان میں ہونے والے واقعات کے اثرات پاکستان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ جب تک کسی شخص کا سرور کونین حضرت محمد ﷺ سے عشق نہیں ہے وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا ۔ کسی کلمہ گو کے محمد ﷺ کی ذات پر عشق کے حوالے سے کوئی دورائے نہیں ۔ کیوں ایک طبقے کو ضرورت پڑی کہ وہ اس معاملے کو اپنی سیاست کے لئے استعمال کرے ۔ یہ طبقہ ہر ہفتے اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں ملک میں واقعہ ہو گیا ، اس کو ایڈوائزر کیوں لگایا ۔ ان کی ووٹ کی سیاست ان معاملات سے جڑی ہوئی ہے ۔ ان کے خلاف سب سے پہلے بغاوت مذہبی طبقے میں ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ ایسا اس لئے نہیں ہوا کیونکہ پاکستان میں طویل عرصے سے ایک المیہ ہے ۔ یہ نظریات کی لڑائی ہے ، یہ بندوق کے زور پر نہیں جیتی جا سکتی بلکہ اسے دلیل سے جیتا جا سکتا ہے ۔ پاکستان میں مسئلہ یہ ہوا ہے کہ بہت طویل عرصے پہلے سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا کیا یہ پاکستان سے پوچھ کر کیا گیا ، اسامہ بن لادن نے نائن الیون پاکستان سے پوچھ کر کیا ، کیا امریکہ ہم سے پوچھ کر افغانستان میںآیا لیکن ان تمام واقعات کے اثرات پاکستان کو سہنے پڑے ہیں ۔ اپنے جغرافیائی حدود کی وجہ سے پاکستان پر ان واقعات کا اثرپڑا اور پڑ رہا ہے ۔ ایک روایتی جنگ میں ریاست کو شامل ہونا پڑا اور جو فکری سوچ تھی جس کی وضاحت ریاست تھی وہ مانند پڑ گئی ۔ انہوں نے کہا کہ جو مذہبی طبقہ دلیل کی بنیاد پر کھڑا ہوا انہیں اس سفر مین شہید ہونا پڑا ۔ انہوں نے کہا کہ اپنے دور کے بادشاہ بھی صوفیائے کرام کے مزارات میں آنکھیں نیچی کر کے حاضری دیتے تھے لیکن ان صوفیائے کرام کے مزارات پر دھماکے ہوئے ، بے ادبی ہوئی ۔ یہ ناکامی تھی کہ ریاست نے ان واقعات کو تماشائی بن کر دیکھا ۔ دلیل کے مقابلے میں دلیل نہ دے سکی۔ انہوں نے کہا کہ جنہوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا ہی نہیں کہ اصل بات کیا ہے ا س سے ایک فکریہ المیہ پیدا ہوجاتاہے ۔ یہاں ریاست دلیل کے مقابلے میں دوسری دلیل کے لوگوں کو بچا نہیں سکی جن کے پاس بندوق تھی اور دوسرا نہتا تھا ۔ جب تک ریاست یقینی نہیں بنائے گی اور برابری کا ماحول نہیں دے گی مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں بہتری آرہی ہے اور ہم مایوسی نہیں بلکہ بہتری کی طرف جارہے ہیں ۔ مذہبی طبقات اور معاشرے کو نظریاتی جنگ کی آنر شپ لینا ہو گی ۔ ریاست کا فرض ہے کہ ایسا ماحول دے جہاں بات دلیل سے ہو سکے اگر بندوق والے اورنہتے کے درمیان بات ہو گی تو پھر لڑائی ہو گی ۔ مذہبی قیادت سے درخواست ہے کہ ماضی میں ریاست ان کے ساتھ نہیں کھڑی تھی لیکن یہ حکومت مذہبی قیادت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے ۔حکومت پہلی بار سرکاری سطح پر ربیع الاول کو منا رہی ہے ۔ 20نومبر کو منعقد ہونے والی رحمت اللعالمین کانفرنس کا افتتاح وزیر اعظم عمران خان کریں گے جس میں دنیا بھر سے علمائے کرام کو مدعو کیا گیا ہے ۔ ہم نے مل کر اس لڑائی کو ان ہاتھوں میں جانے سے روکنا ہے جو مذہب اور معاشرے کی خدمت نہیں کر رہے ۔
فواد چودھری