فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر552

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر552
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر552

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسی ادھیڑ بن میں یکایک اسے روپا کا خیال آیا۔ روپا بھی اس کے گرو ہری داس کی شاگردتھی۔ وہ دونوں ایک ہی گاؤں میں پلے بڑھے تھے۔ دونوں میں بے تکلفی بھی تھی ۔تان سین کو یہ احساس بھی تھاکہ روپا اس کو پسند کرتی ہے تان سین کو بہ خوبی علم تھا کہ روپا راگ ملہار گا سکتی ہے۔ اس کی سنگت میں تان سین کی بیٹی بھی ہم آواز ہو کر تان سین کو اذیت سے نجات دلا سکتی ہے۔ تان سین نے روپا کو سندیسہ بھیجا اور وہ فورا پہنچ گئی کیونکہ اگلے ہی روز اسے دیپک راگ گانا تھا۔ اس تصور سے اسے قدرے اطمینان ہوگیا کہ ایک ایسی ہستی موجود ہے جو راگ ملہار گا کر اس کی مشکلات حل کر سکتی ہے۔
تان سین کے لیے اب یہ ذاتی وقار کا سوال بن گیا تھا کہ وہ شہنشاہ کی یہ فرمائش پوری کرکے نہ صرف اس کی نظروں میں سرخرو ہو جائے بلکہ دنیائے موسیقی پر بھی اس کی دھاک بیٹھ جائے۔ اکبر موسیقی میں تان سین کو اپنا گرو مانتا تھا اور اس کی قدر و منزلت ایک گرو کی طرح ہی کرتا تھا۔ وہ دیوان خاص کی نجی محفل میں بھی گھنٹوں اپنے گرو تان سین کے فن سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا اکبر کو اپنے گرو پر ناز تھا۔ اس کا امتحان مقصود نہ تھا بلکہ دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ ا س نے جس موسیقار کو اپنے گرو کا درجہ دیا ہے وہ صحیح معنوں میں بے مثال فن کار ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اگر اکبر کو دیپک راگ کے اثرات کا علم ہوتا تو وہ خود ہی اپنی فرمائش واپس لے لیتا اور اپنے گرو کی جان کو خطرے میں نہ ڈالتا۔ بہرحال اب یہ تان سین کے لیے ایک چیلنج بن چکا تھا۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر بھی اپنی آبرو قائم رکھنے کا ارادہ کر چکا تھا۔ وہ اپنے شہنشاہ کے فخر و غرور کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر551پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مقرر وقت پر دیوان عام میں شہنشاہ نے دربار سجایا۔ دیوان عام کے باہر دوسرے اہم امراء اور ممتاز موسیقار بھی اپنی جگہوں پر براجمان ہو چکے تھے۔ تان سین کے مخالف بہت خوش تھے۔ اگر تان سین اس امتحان میں پورا اترتا تو اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ اور اگر وہ دیپک راگ گا کر دیئے جلانے سے قاصر رہتا تو اس کی عظمت کا سر بہ فلک مینار زمیں بوس ہو جاتا۔ دونوں صوررتوں میں تان سین کی ہار تھی اور اس کے دشمنوں کی جیت۔
شہنشاہ سے کچھ فاصلے پر تان سین نے اپنی جگہ سنبھالی۔ روپا بھی حاضرین میں شامل تھی۔ سب لوگ دم بہ خود بیٹھے یہ عجیب و غریب تماشا دیکھ رہے تھے۔ جب تان سین نے الاپ شروع کیا تو انسان تو کیا درخت پودے اور دور و دیوار بھی ہہ تن گوش ہوگئے۔ اس نے اپنی سریلی آواز میں الاپ کے بعد دیپک راگ شروع کیا۔ حاضرین پر کیف و سرور کی انوکھی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ محسور سے ہو کر رہ گئے۔ ایسی آواز اور ایسا راگ انہوں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ سب اس کی آواز اور راگ کے سحر میں کھو چکے تھے۔
رفتہ رفتہ راگ میں گرمی پیدا ہونے لگی ۔ گانے والا تو بے خود تھا لیکن سننے والوں کی کیفیت بھی کچھ مختلف نہ تھی مگر جب راگ اپنے نقطہ عروج کی جانب چلا تو فضا میں گرمی سی پیدا ہوگئی۔

جیسے جیسے راگ آگے بڑھ رہا تھا حرارت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ پہلے تو حاضرین اس تبدیلی سے بے خبر رہے لیکن جب درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہونے لگا تو دیوان عام اور آس پاس کے باغات کی سرد ہوا گرم ہونے لگی۔ سب حیران تھے کہ اچانک گرمی میں اضافہ کیونکر ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد انہیں احساس ہوا کہ یہ درجہ حرارت گانے والے کی آواز کے باعث بڑھ رہا تھا۔ حاضرین پسینے میں شرابور ہوگئے۔ آس پاس کے اشجار کے پتے خشک ہوگئے۔ حوض کا پانی گرم ہو کر ابلنے لگا یہاں تک کہ پانی میں سے بھاپ اٹھنے لگی۔ حاضرین اور شہنشاہ شدید گرمی محسوس کر رہے تھے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے تغیرات بھی ان کی آنکھوں کے سامنے تھے لیکن اب تان سین ایسے مقام پر آچکا تھا کہ ا سے خود اپنا بھی ہوش نہ تھا۔ وہ راگ میں مگن گاتا رہا یہاں تک کہ گرمی انتہا کو پہنچ گئی۔ دیکھنے والوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا جب انہوں نے تان سین کے سامنے رکھے ہوئے دیپ ایک ایک کرکے روشن ہوتے دیکھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے دیئے روشن ہوگئے۔ شہنشاہ بے اختیار تخت سے اٹھ کھڑا ہوا۔ تمام درباری بھی احتراماً اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ سب اس عظیم موسیقار کو خاموشی کی زبان میں خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔
دیپ روشن ہوگئے تو ماحول کی تپش میں بھی رفتہ رفتہ کمی پیدا ہوگئی مگر تان سین بدستور اپنے راگ میں کھویا ہوا تھا۔ اسے کسی چیز کا ہوش نہ تھا۔ یکایک اس کے جسم میں کپکپاہٹ پیدا ہوگئی جیسے بہت سردی لگ رہی ہو۔ راگ ختم ہو چکا تھا۔ دیپ روشن ہوگئے تھے۔ شہنشاہ اور درباری تان سین کی ہنر مندی کے قائل ہو چکے تھے اور اب تان سین پر سب کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ وہ سر تاپا کانپ رہا تھا۔ سب لوگ اس کی اس کیفیت کو حیرت اور پریشانی سے دیکھ رہے تھے۔
روپا پہلے تو راگ میں کھوئی رہی تھی۔ جب راگ ختم ہوا اور اس نے تان سین کی بگڑتی ہوئی حالت کو دیکھا تو اس کے ہاتھ پیر پھول گئے اور وہ یہ بھول گئی کہ دیپک راگ ختم ہوتے ہی اسے راگ ملہار شروع کرنا تھا تاکہ دیپک راگ کے اثرات پر قابو پا لیا جائے۔ وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر تان سین کی حالت دیکھ رہی تھی۔ اس کے جسم پر آبلے پڑ چکے تھے اور وہ بالکل نڈھال سا ہو کر گر گیا تھا۔ شہنشاہ اور درباری حیران و پریشان دیکھ رہے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔ کیوں ہو رہا ہے اور اس کا علاج کیا ہے۔
اچانک تان سین کی بیٹی سرسوتی نے لپک کر روپا کو جھنجھوڑا اور یاد دلایا کہ اسے فوراً راگ ملہار شروع کرنا ہے ورنہ صورت حال قابو سے باہر ہو جائے گی۔
روپا یکایک ہوش میں آگئی۔ آگے بڑھ کر وہ تان سین کے پاس جا بیٹھی اور اس نے الاپ شروع کیا تو شہنشاہ اور درباریوں کو ایک ا ور نئے اور حیرت انگیز تجربے سے گزرنا پڑا۔
الاپ کے بعد راگ ملہار شروع ہوا ور حاضرین پھر ایک جادوئی کیفیت میں ڈوب گئے۔ جوں جوں راگ کی لے تیز ہو رہی تھی فضا میں تبدیلی رونما ہونے لگی تھی۔ یکایک آسمان پر بادل چھا گئے۔ سرد ہوا کے جھونکے چلنے لگے۔ اشجار جھومنے لگے اور پھر بادل گرجنے لگے۔ شہنشاہ اور درباری اس منظر کو بھی حیرت اور بے یقینی سے دیکھ رہے تھے۔ روپا نے راگ گانے میں اپنے تن من کا زور لگا دیا تھا۔ اسے خود علم نہیں تھا کہ وہ ایک تاریخ ساز کارنامہ سر انجام دے رہی ہے۔ اگر تان سین کی حالت زار اس کی آنکھوں کے سامنے نہ ہوتی تو شاید وہ اپنے فن کی معراج تک نہ پہنچتی۔ تان سین کی زندگی کو خطرے میں دیکھ کر اس کے اندر ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوگیا تھا۔ وہ جی جان سے راگ گانے میں مصروف تھی۔
اور پھر درباریوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ گھنگھور گھٹائیں ایک دم برسنے لگیں۔ پہلے بوندا باندی ہوئی اور اس کے بعد موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ برستا ہوا پانی تان سین کے زخم خوردہ جسم پر مرہم کا اثر دکھا رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی حالت سنبھلنے لگی۔ آبلے غائب ہوگئے جیسے پانی انہیں اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ہو۔ رفتہ رفتہ وہ نارمل ہونے لگا یہاں تک کہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ روپا کی طرف پیار اور عقیدت سے دیکھ کر وہ بے اختیار مسکرانے لگا۔
راگ ختم ہوا تو جیسے ساری فضا ساکت ہوگئی۔ ہر شخص پانی میں شرابور تھا۔ شہنشاہ اور درباری اب تک اپنی اپنی جگہ پر کھڑے سحر زدگی کے عالم میں یہ جادو بھرا تماشا دیکھ رہے تھے۔ آج انہوں نے اپنی آنکھوں سے موسیقی کا جادو چلتا ہوا دیکھا تھا۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا مگر یہ ایک حقیقت تھی جو ان کی آنکھوں کے سامنے رونما ہوئی تھی۔
راگ ملہار ختم ہوا تو دیئے بجھ گئے تھے۔ ہر طرف بہار کا سا سماں تھا۔ روپا راگ ختم کرنے کے بعد پیار بھرے غرور سے تان سین کو دیکھ رہی تھی۔ وہ یہ حقیقت فراموش کر چکی تھی کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی اور بھی وہاں موجود ہے۔
جب ہوش و حواس بحال ہوئے تو شہنشاہ اکبر بے اختیار آگے بڑھا اور اس نے تان سین کو گلے لگا لیا۔ درباری اور تان سین کے حریف اب ندامت سے سر جھکائے کھڑے تھے۔ تان سین کو شہنشاہ نے اعزاز اور انعام و اکرام سے نوازا۔ اس کے ساتھ ہی روپا کے کمال فن کے اعتراف کے طور پر اسے بھی انعام سے نوازا گیا۔ شہنشاہ کی نگاہ میں اب تان سین کا مقام پہلے سے بھی بلند تر ہو گیا تھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)