اب پاکستانی اور چینی کرنسی میں کاروبار ہوگا 

اب پاکستانی اور چینی کرنسی میں کاروبار ہوگا 
اب پاکستانی اور چینی کرنسی میں کاروبار ہوگا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کی جانب سے گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنا بھارت سمیت پاکستان کے دیگر اہم حریفوں کو ہضم نہیں ہورہا۔انکی نظریں ہمارے ملک کا انفراسٹرکچر تباہ کرنے کے لئے ان عناصر پر جمی ہوئی ہیں جو چین سے بدگماں کرکے پاکستان میں خرابی پیدا کرسکتی ہیں۔ ان حالات کا ادراک چین کو بھی ہے لہذااس نے پاکستان کے ساتھ دوستی نبھاتے ہوئے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ عالمی دباو کے باوجود گوادر بندرگاہ کو اقتصادی مسائل کے خاتمے کیلیے استعمال کرے گا تاکہ پاکستان کے توانائی سمیت دیگر اہم مسائل کو حل کرنے کیلیے مالی اعانت فراہم کی جاسکے۔ذرائع کے مطابق چین اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کیلیے بھی چین نے فیصلہ کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان آئندہ سے دو طرفہ تجارتی لین دن امریکی ڈالر کے بجائے مقامی کرنسی میں کیا جائے گا ۔چین اور پاکستان کے تاجروں کو یہ سہولت ہوگی کہ وہ باہمی تجارت اپنے اپنے ملکوں کی کرنسی میں کریں ۔
معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایسے حالات میں جب کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے اگر چین اور پاکستان کے درمیان تجارتی لین دین مقامی کرنسی میں شروع ہوجاتا ہے تو اس سے پاکستان بیرونی ادائیگیاں وقت پر کرنے کے ساتھ ساتھ تیزی سے گرتی ہوئی اپنی کرنسی کو بھی سہارا دے سکے گا اور ڈالر کے تیزی سے ختم ہوتے ذخائر کو بھی وقتی طور پر سنبھالا دیا جاسکتا ہے ۔گوادر پورٹ خطے کی جغرافیائی لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور خیال کیا جارہا ہے کہ پاک چین معاہدے پر عملدرآمد سے جنوبی ایشیائی ممالک میں پاکستان کا کردار مزید بڑھ جائیگا اور پاکستان آئی ایم ایف سمیت دیگر غیر ملکی مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط سے نجات حاصل کرنے کے لیے چین سے باآسانی مدد حاصل کرسکے گا۔ اگر موجودہ صورتحال میں چین گوادر پورٹ کو بھی مزید فعال بنا دیتا ہے تو اس سے ملکی معیشت کو فائدہ ہوگا اور پاکستان خطے میں اپنا کھویا ہوا مقام بھی حاصل کرسکے گا۔ تاہم اس کے قوم کو بھی صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔یہ وقت بہت کڑا وقت ہے جس میں سے قوم گذر گئی تو یقینی طور پر پاکستان ایشیا کا ٹائیگر بننے کا خواب پورا کرسکے گا ۔

۔

 نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -