پیاز کی برآمد اور عوام!
پاکستان سے بنگلہ دیش کو تین سو ٹن پیاز برآمد کیا جائے گا۔ بنگلہ دیش کی تاشو انٹر پرائز نے پاکستان کی روشان انٹرپرائزیز کو یہ آرڈر دیا۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے مطابق بنگلہ دیش سے یہ آرڈر قریباً پندرہ سال کے بعد ملا ہے اور اس کے بعد مزید تجارت بھی ہو گی۔ یہ تین سو ٹن پیاز بارہ کنٹینروں میں بھیجاجائے گا۔بنگلہ دیش سے پیاز کے آرڈر کا پس منظر یہ بھی ہے کہ بھارت نے اپنے ملک میں سبزیوں کی کمی کے بعد بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے سبزیوں کی برآمد بند کر رکھی ہے اور اور یوں بنگلہ دیشی کمپنی نے پاکستان سے رجوع کیا ہے۔ جہاں تک برآمدات کا تعلق ہے تو یہ زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہوتی ہیں اور اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں یوں بھی موجودہ حکومت نے درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے کا فیصلہ کیا ہوا ہے، تاہم اس مشق میں بھی ملک کے عوام کا مفاد پیش نظر رکھنا لازم ہے اور برآمدات میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے باعث ملک کے اندر قلت پیدا نہ ہو جائے۔ اس وقت ہمارے اپنے ملک میں اشیاء خوردنی اور ضروریہ میں سے سبزیوں اور پھلوں کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ یوں تو ہر سبزی ہی مہنگی ہے تاہم اس وقت ٹماٹر اور پیاز بہت زیادہ مہنگے ہو گئے ہیں ٹماٹر تو تین سو روپے فی کلو کو چھو رہے ہیں، یہ نرخ پاکستان کی تاریخ کا بالکل نیا ریکارڈ ہے۔اسی طرح معیاری پھل بھی برآمد ہوتے ہیں تو ملک کے اندر قیمت زیادہ ہو چکی ہوئی اور یہاں کے شہری درجہ دوم کے پھل مہنگے لے کر کھانے پر مجبور ہیں۔عوام اب احتجاج پر اتر آئے ہیں اور یہ سلسلہ اب گلی، محلوں، دفاتر اور بازاروں تک ہے۔ عوام کو یہ بھی دکھ ہے کہ کسی بھی اپوزیشن جماعت نے ابھی تک گرانی کے مسئلہ کو اپنے احتجاج کا موثر اور صحیح حصہ نہیں بنایا۔ ابھی گزشتہ روز ہی سوشل میڈیا پر ٹماٹر کی قیمتوں کے خلاف احتجاج ہوا اور تجویز کیا گیا کہ ٹماٹروں کا بائیکاٹ کیا جائے۔وزیراعظم اور ان کے رفقاء اور معاشی ٹیم کو اس صورت حال پر گہری فکر سے غور کرنا چاہیے کہ عام شہری اب مہنگائی کے ہاتھوں بہت ہی مجبور ہو چکے ہیں اور دلوں اور باتوں میں ہونے والا احتجاج سڑکوں پر بھی آ سکتا ہے۔