امریکی ادارے ولنگٹن کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
حال ہی میں امریکہ میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے:
ولنگٹن کا تجربہ
بھارتی فوج کی روایات و افکار
کا ایک مطالعہ
انگریزی میں اس کا عنوان یہ ہے:
The Wellingtion Experience:
A Study of Attitudes and Values within the Indian Army.
کتاب کا مصنف کرنل ڈیوڈ سمتھ (David Smith) ہے اور اس کا پبلشر سٹمسن سنٹر ہے۔ یہ کتاب ابھی تک پاکستان میں نہیں آئی۔ اگر آئی بھی ہو گی تو اس کی محدود کاپیاں سفارتی بیگ کے ذریعے آئی ہوں گی جو پاکستان ملٹری کے تدریسی اداروں میں تقسیم کر دی گئی ہوں گی۔ گوگل پر بھی اس کی کوئی خاص تشہیر نہیں کی گئی کیونکہ اس کے CEO کا تعلق چنائی (انڈیا) سے ہے۔ سندر بچائی نے یہ ’اہتمام‘ کر رکھا ہے کہ جس منفی تحریر کا تعلق انڈیا سے ہو یا اس میں انڈیا کے کسی ادارے پر تنقید کی گئی ہو تو اس کی زیادہ تشہیر نہیں کرنی۔ چنانچہ زیرِ نظر کتاب کے صفحات کا کچھ معلوم نہیں کہ کتنے ہیں اور نہ ہی اس کی قیمت کہیں دی گئی ہے۔ ایمزن بُکس والے بھی اس سلسلے میں خاموش ہیں۔ لیکن اس بندش کے باوجود امریکہ کو داد دینی چاہیے کہ اس کے بعض ابلاغی اداروں میں اتنا دم ختم ہے کہ وہ ان پابندیوں کے پروا نہیں کرتے…… ولنگٹن، انڈیا کی تینوں سروسوں (آرمی، نیوی، ائر فورس) کا ویسا ہی کمانڈ اینڈ سٹاف کالج ہے جیسا کہ ہمارا کمانڈ اینڈ سٹاف کالج، کوئٹہ ہے۔ ولنگٹن تامل ناڈو میں واقع ہے اور وہاں ہر سال سٹاف کورس کے لئے بیرونی ممالک کے کئی طلباء (سروس آفیسرز) آتے ہیں۔ کتاب کا مصنف کرنل سمتھ شاید ان میں شامل نہیں۔ اس کا تعلق امریکی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی سے ہے۔
امریکہ اس قسم کی حرکتیں پاکستان کے ساتھ بھی کرتا رہتا ہے۔ چونکہ انڈیا اور امریکہ کے تعلقات گزشتہ دو عشروں سے گھی کچھڑی ہوتے نظر آ رہے ہیں اس لئے امریکی وزارتِ دفاع نے ایسے آفیسرز بھی ولنگٹن بھیجنے شروع کر دیئے ہیں جن کے ذمے مختلف طرح کے پروفیشنل ٹاسک لگائے گئے ہیں۔ کرنل سمتھ کے ذمے یہ ٹاسک لگایا گیا کہ وہ اس بات کا اندازہ لگائے کہ انڈین مسلح افواج کے افسروں کی پیشہ ورانہ روایات و اقدار کیا ہیں، ان کی سوچ کیا ہے، ان کا ورلڈ ویو کیا ہے، ان کا پاکستان، چین اور امریکہ سے تعلقات کا پرسپشن کیا ہے وغیرہ وغیرہ…… امریکہ اس طرح کی معلومات حاصل کرکے اپنی دفاعی پالیسیوں کے خدوخال وضع کرتا ہے۔ امریکہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ انڈین فوجی افسروں کی نظر میں ان کو آج کے بین الاقوامی اور علاقائی دفاعی ماحول میں کس کس طرح کے چیلنج درپیش ہیں۔ کرنل سمتھ اب ریٹائر ہو چکا ہے۔ لیکن سٹمسن سنٹر نے اس کو اپنے ہاں ملازمت کی پیشکش کرکے اس کو ایک کتاب لکھنے کا فریضہ سونپا کہ وہ گزشتہ چار عشروں میں جن غیر ملکی (یورپی اور امریکی) افسروں نے ولنگٹن سٹاف کالج اٹنڈ کیا ہے ان کا انٹرویو کرے اور معلوم کرے کہ انڈین فوج کی تینوں سروسیں کس پیشہ ورانہ نہج پر سوچ رہی ہیں۔ سمتھ نے اس موضوع پر جو کتاب لکھی اس کا ذکر کالم کے آغاز میں کر آیا ہوں۔
کرنل (ر) سمتھ کا ایک سیر حاصل انٹرویو ایک ابلاغی ادارے (The Diplomat) نے کیا ہے۔اس ورچوئل انٹرویو میں بہت سے سوال پوچھے گئے جن سب پر اس مختصر کالم میں تبصرہ ممکن نہیں۔ لیکن ایک سوال جس کا تعلق بالخصوص پاکستان سے ہے، اس کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ سوال یہ تھا:
سوال: آپ کی یہ کتاب جو ایک ضخیم مقالہ بھی ہے اسی طرح کی ایک مفصل سٹڈی ہے جو آپ نے پاکستان کے بارے میں کی تھی اور جو 2018ء میں کتاب کی صورت میں شائع ہو چکی ہے۔پاکستان کی یہ سٹڈی ان امریکی افسروں کی آراء پر مشتمل تھی جنہوں نے سٹاف کالج کوئٹہ اٹنڈ کیا تھا…… اگر میں یہ سوال کروں کہ آپ صرف تین ایسی مماثلتوں (Commonalities) کا ذکر کریں جو باوجود اس کے کہ ان ممالک کے درمیان بہت سے اختلافات ہیں تو وہ مماثلات کیا ہوں گی؟
اس سوال کا جو جواب کرنل سمتھ نے دیا وہ یہ تھا: ”سٹاف کالج کوئٹہ اور سٹاف کالج ولنگٹن میں بہت سی مماثلات ایسی ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے اختلافات کی بھی ایک فہرست گنوائی جا سکتی ہے۔ لیکن آپ نے چونکہ ان اختلافات کے بارے میں نہیں، صرف تین مماثلات کے بارے میں پوچھا ہے تو اس لئے میرا جواب یہ ہوگا کہ یہ تین مماثلات یہ ہیں:
1۔ وراثتی، اداراتی اور شجرہ جاتی کلچر
2۔جدید طریقِ جنگ کے ڈاکٹرین کے سلسلے میں بے خبری۔
3۔ ایک دوسرے کے بارے میں غیر شفاف اور الجھا ہوا نقطہء نظر
جہاں تک پہلی مماثلت کا تعلق ہے تو یہ دونوں ادارے (کوئٹہ سٹاف کالج اور ولنگٹن سٹاف کالج) ایک ہی ’والدین‘کی اولاد ہیں۔ دونوں برطانوی دولت مشترکہ کے ماڈل کے پیروکار ہیں، دونوں کے سٹوڈنٹ ایک ہی پس منظر سے آتے ہیں اور ان کی سلیکشن کے طور طریقے بھی بالکل ایک جیسے ہیں۔ دونوں اداروں میں دیکھا گیا ہے کہ نقل لگانے کا کلچر مشترک ہے۔ دونوں کے انٹری امتحانات سابق سٹاف کالج داخلے کے ٹیسٹوں، ایکسرسائزوں اور ریسرچ پیپروں پر انحصار رکھتے ہیں۔ ولنگٹن میں ان کو (Previous Course Knowledge) "PCK" یا اردو میں (سابق کورس نالج) کہا جاتا ہے اور کوئٹہ میں ان کا نام ”چھاپا“ ہے۔ ان دونوں تدریسی اداروں کے اساتذہ اور سینئر افسروں کو بھی یہ سب کچھ معلوم ہے کیونکہ وہ خود بھی اسی ’راہگزر‘ سے گزر کر آئے ہوتے ہیں، اس لئے ان ’چھاپوں‘ کو گوارا کر لیتے ہیں اور کالج میں کسی موضوع پر نقد و نظر ہوتی ہے تو جدتِ افکار کی بجائے ’چھاپوں‘ کے اظہار کا بُرا نہیں منایا جاتا۔
جہاں تک دوسری مماثلت کا تعلق ہے تو جدید ڈاکٹرین (طریقِ جنگ اور فلسفہ ء جنگ) کو ڈسکس کرنے کی بجائے دوسری جنگ عظیم کی مثالوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جدید افکار و تصورات جنگ سے ’پرہیز‘ کا راستہ اختیار کرنے میں عافیت جانی جاتی ہے۔ ان دونوں کالجوں میں مشترک اور مخلوط آرمز کے آپریشنوں، انٹیلی جنس کے رول، لاجسٹکس اور فضائی سپورٹ سے بالعموم صرفِ نظر کرنے پر گزارا کیا جاتا ہے۔ ولنگٹن میں تو چونکہ تینوں سروسوں کے طلبا آتے ہیں اس لئے مخلوط (Combined) آرمز (Arms) کے آپریشنوں کے سلسلے میں کچھ نہ کچھ ڈسکشن سننے اور دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ لیکن جہاں تک سٹاف کالج کوئٹہ کا تعلق ہے تو اس ادارے میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ ’آرمی‘ کے ساتھ بالخصوص نتھی کر دی جاتی ہے اور ائر فورس اور نیوی کے نقطہ ہائے نظر کو چنداں اہمیت نہیں دی جاتی۔
تیسری مماثلت کا تعلق ایک دوسرے کے بارے میں غیر شفاف اور مبنی برتعصب افکار کا پس منظر ہے۔ ولنگٹن اور کوئٹہ کے سٹاف کالجوں کے سٹوڈنٹ ایک دوسرے کو حقیر، ناچیز اور ناقابلِ التفات خیال کرتے ہیں۔ یہ دونوں نظریاتی افکار جذباتیت سے لبریز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ان کالجوں میں ایکسرسائزیں کروائی جاتی ہیں تو ایک فریق دوسرے حریف کو حقیر گرداننے میں دیر نہیں لگاتا۔ وہ اپنے ’دشمن‘ کے پرخچے اڑانے کو تیار رہتا ہے، اسے پرِکاہ سمجھتا اور بعض اوقات تو مضحکہ خیزی کی انتہاؤں تک چلا جاتا ہے۔ یہ کانسپٹ کہ دشمن حقیر اور ناچیز ہے، طرفین کے لئے زہرِ قاتل ہے۔ دشمن کو کبھی بھی حقیر نہیں سمجھنا چاہیے لیکن اس کا کیا علاج کہ گزشہ 73برسوں میں طرفین کی افواج اسی نظریئے کی پیروکار نظر آتی ہیں۔ اپنی اہلیتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور حریف کی حیثیت کا مضحکہ اڑانا ایک کلچر بن چکا ہے۔ ان طلبا میں ایک تعداد ان افسروں کی بھی ہوتی ہے جنہوں نے اقوام متحدہ کے پرچم تلے غیر ملکوں میں جا کر غیر ملکی افواج کے ساتھ کچھ وقت گزارا ہوتا ہے۔ غیر ملکی افواج کے افسروں سے انٹرایکشن کے دوران ان کے ساتھ مختلف پیشہ ورانہ امور پر نقد و نظر کیا ہوتا ہے۔ یہ سٹوڈنٹ جب کوئٹہ اور ولنگٹن کے سٹاف کالجوں میں جاتے ہیں تو ان میں اس طرح کی جذباتیت بہت کم دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ لوگ حقیقت پسندی کی طرف مائل ہوتے ہیں“۔
قارئین محترم! یہ مضمون کالم نہیں اور نہ ہی کوئی روائتی تبصرۂ کتب ہے۔ میرے کالم کا عنوان چونکہ ’شمشیروسناں اول‘ ہے اس لئے اگر یہ آرٹیکل آپ کو خشک اور بے کیف بھی نظر آئے تو اسے گوارا کر لیجئے۔
کرنل سمتھ نے پاکستان کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ پر جو کتاب لکھی تھی، میں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے شائد تین چار کالموں پر ایک سیر حاصل مضمون لکھا تھا۔ اور میں حیران ہوا تھا کہ مجھے اگلے ہفتے سٹمسن سنٹر، امریکہ سے وہ کتاب موصول ہوئی تھی جس کو میں نے گوگل پر تلاش کرکے اس پر تبصرہ لکھا تھا…… اندازہ فرمایئے کہ وہ لوگ (امریکی) کس قدر ہوشیار، خبردار اور بیدار مغز ہیں کہ اردو میں تبصرہ پڑھ کر کتاب کی کاپی کالم نگار کو براہِ راست بھیج دیتے ہیں۔ کرنل سمتھ نے چونکہ سٹاف کالج کوئٹہ اٹنڈ کیا ہوا تھا اس لئے وہ ’تھوڑی بہت‘ اردو بھی جانتا تھا۔(اور جانتا ہے کہ ابھی تک حیات ہے)۔
کرنل سمتھ کے اس انٹرویو کا صرف ایک سوال منتخب کرکے یہ کالم لکھا گیا ہے۔ باقی پانچ سوال اور بھی ہیں جو چین اور انڈیا اور امریکہ کے بارے میں ہیں، ان کی مسلح افواج کے بارے میں ہیں، اس خطے کے بارے میں ہیں جس کو ساؤتھ ایشیا کہا جاتا ہے اور چین اور انڈیا کے درمیان جو ملٹری سٹینڈ آف چل رہا ہے اس پر ہیں۔ اس لئے کوشش کروں گا کہ آنے والے ایام میں (انشاء اللہ) ان پر بھی اسی طرح کا نقد و نظر کروں اور قارئین کو بتاؤں کہ امریکہ اور انڈیا کے سٹرٹیجک تعلقات کے ضمن میں ان کے انٹیلی جنس ادارے کیا کہتے ہیں۔