ڈاکٹر تحسین فراقی کے خلاف مقدمہ…… لمحہ  ئ فکریہ

ڈاکٹر تحسین فراقی کے خلاف مقدمہ…… لمحہ  ئ فکریہ
ڈاکٹر تحسین فراقی کے خلاف مقدمہ…… لمحہ  ئ فکریہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کہا جاتا ہے جن قوموں میں استاذ کی عزت نہ کی جاتی ہو اِس کو اس کا جائز مقام نہ دیا جاتا ہو وہ قومیں مردہ قومیں کہلاتی ہیں،ان کا مستقبل روشن نہیں مخدوش ہوتا ہے۔آج مَیں ایک ایسے بلند مرتبہ استادوں کے استاد، نامہ نگار، نقاد، شاعر،عظیم ادبی شخصیت محقق محترم ڈاکٹر تحسین فراقی کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر کے ذریعے ان کے بے داغ ماضی، شاندار حال کو داغدار کرنے کی مذموم سازش سے پردہ اٹھانا چاتا ہوں،افسوس اتنے بڑے اردو دان اور دانشور پر قیامت بیت گئی ہمارے لاعلمی صحافی دوست ان کی جھوٹی ایف آئی آر کی سنگل اور ڈبل کالم سے زیادہ خبر نہ دے سکے۔ اہل ِ پاکستان کے لیے تاریخ ساز خدمات انجام دینے والے پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی کو ذاتی مفاد اور اَنا کی تسکین کے لئے سرمایہ پاکستان کو تھانوں کے ذریعے نیچا دکھا کر اپنی سیاسی دکان کو چار چاند لگانے والے سیاسی پنڈتوں کی ایسی خوفناک داستان ہے جس کی تاریخ میں درجنوں مثالیں موجود ہیں۔راقم گزشتہ20 سال سے کم از کم سیاست دانوں کی مداخلت،اور تھانہ کلچر کی تبدیلی کے علمبرداروں کے دعوے کرنے والوں کو نعروں اور تقریروں سے آگے دیکھنے سے محروم رہا ہے۔

آج بھی جب سوا تین سال گزرنے کو ہیں،تبدیلی کے نعرے کا علم بلند کر کے ایوانِ اقتدار تک پہنچنے والوں کی بے بسی دیکھ  رہا ہوں،اور چیلنج کرتا ہوں گزشتہ30 سال سے جاری تھانہ کلچر میں رتی برابر تبدیلی نہیں آئی،بلکہ تھانوں میں سیاسی مداخلت کی جڑیں اور مضبوط ہوئیں ہیں۔پسند کے تھانیدار لگانے کی روش تھانہ محرر تک کی تعیناتی تک دام مقرر ہیں،عوام کو دہلیز پر انصاف دینے کی باتیں آج بھی نعروں اور کالموں تک محدود ہیں۔تھانہ کے گیٹ کیپر سے لے کر جیل کے گیٹ کیپر تک سب ایک نیٹ ورک کا حصہ بن چکے ہیں۔ چھ سال کے بچے پر مقدمہ چار سال کے بچے کو تھانے میں بند رکھنا، خواتین سے تھانے میں بدتمیزی،جوئے کا نیٹ ورک،بھکاریوں کو چوکوں سے پکڑ کر ان کی جیبیں خالی کر کے چھوڑنا، سفارش اور پیسے لے کر ایف آئی آر درج کرنا ہمارے تھانہ کلچر کی پہچان ہے،منشیات فروشوں کی سرپرستی کون کرتا ہے یہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔


عظیم سکالر اور دانشور ڈاکٹر تحسین فراقی پر  تھانہ گڑھ مہاراجہ ضلع جھنگ میں ای ٹیگ GM-10/22/2021-3362 نمبروں کے ساتھ مقامی سیاسی اثرو رسوخ رکھنے والوں کی ایما پر درج کی گئی ایف آئی آر پاکستان کے معروف سیاست دان چودھری ظہور الٰہی پر بھینس چوری کا مقدمہ بنانے کی یاد تازہ کر دی ہے،مَیں سر پکڑے ڈاکٹر تحسین کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر دیکھ رہا تھا تو مجھے وہ کہاوت یاد آ رہی تھی دنیا میں قتل سب سے بڑاگناہ نہیں ہے سب سے بڑا گناہ میں بہتر، مَیں اچھا، مَیں برتر کی دوڑ ہے جو زندگی میں شاید پوری نہیں ہوتی۔ حرص اور ہوس کا پیٹ دنیاوی خواہشات سے نہیں بھرتا، بلکہ قبر کی منوں مٹی بھرتی ہے۔


میری نظروں سے جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل جناب امیر العظیم کا آئی جی پنجاب جناب راؤ سردار علی خاں کے نام خط گزرہ جس میں ہی قومی معاملہ کا تذکرہ ہے، جس کا میں آج کے کالم میں تذکرہ کر رہا ہوں۔ امیر العظیم صاحب بھی آئی جی پنجاب کو17اکتوبر 2021ء  کو تھانہ گڑھ ماہراجہ ضلع جھنگ میں ڈاکٹر تحسین فراقی کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کا حوالہ دے کر فرما رہے ہیں کہ میں معروف علمی اور ادبی شخصیت جو پوری دنیا میں ایک منفرد مقام کی حامل ہے۔ اس کے خلاف ہونے والی سازش کی تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہوں۔وہ فرماتے ہیں ڈاکٹر تحسین فراقی مجلس ترقی ادب کے سربراہ رے ہیں انہیں بغیر کسی وجہ کے انہیں اپنے منصب سے ہٹا دیا گیا ہے۔انہوں نے اپنے غیر آئینی انداز میں کی گئی سبکدوشی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ان کا کہنا ہے چند نادان لوگ ڈاکٹر تحسین فراقی کے خلاف ناجائز ہتھکنڈے استعمال کر کے انہیں اپنا کیس ہائی کورٹ سے واپس لینے کے لئے دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔ مجھے افسوس ہوا ہے پولیس ان ناجائز ہتھکنڈوں میں شریک ہو کر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔ آخر میں آئی جی سے مطالبہ کرتے ہیں ایسے پولیس اہلکاروں کے خلاف فوری ایکشن لیا جائے،جو اس مکروہ کھیل میں شریک ہیں۔امیر العظیم صاحب کا مطالبہ اور آئی جی پنجاب کو توجہ کا خط بڑا بروقت ہے،نفسا نفسی کے دور میں حق ِ علم بلند کرنا معمولی بات نہیں ہے۔


پاکستان میں ریٹائر ہونے والی شخصیات سے ایسا سلوک نیا نہیں ہے،کرسی پر موجود ہونے پر دن رات سلام کرنے اور تحفے تحائف دینے والے کرسی جاتے ہی ان کی تکفیر میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
نئے پاکستان میں تبدیلی کا مزا تو پورا پاکستان لے رہا ہے اس کے باوجود حق تو یہ ہے ادا نہ ہوا، کے فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے ہم حق بات کہنے کی جسارت کرتے رہیں گے۔آج کل جب وزیراعظم کے جانے کی ہر بندہ خواہش کر رہا ہے۔ مجھے جناب عمران خان کی فلسفانہ تقریریں اور خطاب سن کر بے ساختہ جنرل ضیاء الحق کی تقریریں اور پُراثر خطاب یاد آ رہے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے دونوں لیڈروں میں مشترک کیا کیا ہے،اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں، جواب بھی دیجئے اور آنے والے وقت کا فیصلہ بھی خود ہی کیجئے!

مزید :

رائے -کالم -