اظہارِ رائے کی آزادی بے لگام نہیں (3)

اظہارِ رائے کی آزادی بے لگام نہیں (3)
اظہارِ رائے کی آزادی بے لگام نہیں (3)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کون باشعور شخص نہیں جانتا کہ نام نہا ددہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے لڑی جانے والی یہ جنگ سراسر اسلام کے خلاف جنگ ہے، جس کا اظہار اُس وقت کے امریکی صدر بش نے crusade( صلیبی جنگ) کا لفظ استعمال کر کے کر دیا تھا۔ امریکہ کی قیادت میں عالم کفر کے متحدہ لشکر کی یہ یلغار تیسری عالمی جنگ کا نقطہ آغاز تھی، اور افغانستان کو اصل ہدف اس لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں سے خلافت اور اسلامی جہادی تحریک (جنرل مرزا اسلم بیگ کے الفاظ میں اسلام کی مزاحمتی قوت)کا احیاءہو رہا تھا، جو مستقبل میں امریکہ کے سر پرستوں کے لئے خطرہ بننے والی تھی، چنانچہ اِسی بات کا اظہار صہیونی اور صہیونی مسیحی کر رہے تھے۔ بہت عرصہ پہلے یہودی ربیوں اور عیسائی پادریوں نے امریکی انتظامیہ کو یہ یقین دلادیا تھا کہ ہمیں اصل خطرہ خراسان سے ہے۔ اپنے دعوے کے ثبوت میں حیران کن طور پر انہوں نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ مسلمانوں کے پیغمبر نے 1400 سال پہلے یہ بات فرمائی تھی کہ جب تم خراسان کی جانب سے سیاہ جھنڈے آتے ہوئے دیکھو تو ان میں شامل ہو جاﺅ، کیونکہ اس میں خلیفة اللہ امام مہدی ہوں گے۔اور یہ (بھی فرمایا تھا ) کہ خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے۔ انہیں کوئی نہیں روک سکے گا، یہاں تک کہ بیت المقدس میں نصب ہوں گے۔
یہودی ربیوں کے مطابق سیاہ جھنڈے والا یہ لشکر طالبان ہیں ،ان کا خاتمہ کرنا بہت ضروری ہے۔ امریکی صدر سینئر بش کے دوست مائیک ریونس نے بھی یہی بات کہی تھی۔ بقول اُس کے: ”امریکہ کی بقا کے لئے اسرائیل کا ہونا ضروری ہے اور خود اسرائیل کی بقا کو دنیا بھر میں اگر کہیں سے چیلنج کا سامنا ہو سکتا ہے تو وہ” خراساں“ کے مسلمان ہیں۔ تھامس فرائیڈ مین نے تو بڑی وضاحت سے کہاتھا کہ یہ جنگ انسداد دہشت گردی کے لئے نہیں، اسلامی نظریے کے خاتمے کے لئے ہے۔ اس نے لکھا تھا: ”اگر نائن الیون کا سانحہ فی الواقع تیسری عالمی جنگ کا آغاز تھا تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ جنگ کس کے لیے ہے؟ ہم دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے نہیں لڑ رہے۔ دہشت گردی تو محض ایک ذریعہ ہے۔ ہم ایک نظریے کو شکست دینے کے لئے برسرپیکار ہیں۔ دوسری عالمی جنگ اور سرد جنگ سیکولر مطلق العنانیت، نازی ازم اور کمیونزم کی شکست و ریخت کے لئے لڑی گئی تھی۔ اب تیسری عالمی جنگ مذہبی مطلق العنانیت کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔ یہ دنیا کے بارے میں ایک ایسا نظریہ ہے جو کہتا ہے کہ صرف میرے ہی دین کو سب پر بالادستی حاصل ہونی چاہیے اور ایسا اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جب دنیا کے دیگر تمام مذاہب کے بطلان کا اعلان ہو جائے۔ یہی بن لادن ازم ہے، لیکن نازی ازم کے برعکس مذہبی مطلق العنانیت کے خلاف جنگ صرف فوجیں ہی نہیں لڑ سکتیں ۔ یہ جنگ سکولوں مسجدوں گرجوں اور صومعوں میںلڑی جائے گی اور اِس نظر یے کو شکست دینے کے لئے اماموں، پادریوں اور یہودی سکالروں سے بھی مدد لینی پڑے گی“.... (بحوالہ نیویارک ٹائمز 27 نومبر 2001 ء).... اوباما نے اپنے دور اقتدار میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس کھلی ناانصافی کی جنگ سے امریکہ کو کیوں نہیں نکالا۔ عسکری محاذ پر لڑی جانے والی اِس جنگ کو میڈیا کی بھرپور معاونت حاصل رہی۔ مغربی میڈیا نے جس طرح اصل حقائق کو دنیا کے سامنے آنے سے روکے رکھا، یہ جھوٹ، دھاندلی اور بے ایمانی کی بد ترین مثال ہے۔ اب یہی میڈیا اس جنگ کو اپنے ہاں زیادہ شدت کے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے۔ توہین رسالت پر مبنی کارٹونوں کی اشاعت کے بعد گستاخانہ فلم نے شیطنت اور ابلیسیت کی تمام حدیں پار کر لی ہیں۔ اوباما کی عین ناک تلے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ عیسائیت اور اسلام کو لڑانے والے ”سیاست کار“ اپنے مذموم مقاصد،اپنی عالمی بالادستی، گریٹر اسرائیل کے قیام کے ایجنڈے اور مسجد اقصیٰ کو شہید کر کے تھرڈ ٹمپل بنانے کے منصوبے کے تحت یہ سب کچھ کر رہے ہیں، مگر وہ ان کا راستہ روکنے کی بجائے اُن سے پوری طرح مفاہمت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ امریکی سیاست کی تشکیل اور پالیسی سازی کے پس پردہ مسیحی صہیونی عناصراور تحریکوں کا بنیادی کردار ہے، جن کاعقیدہ ہے کہ” یہودی اللہ کے چنے ہوئے لوگ ہیں“....لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی مدد کرنا محض ایک سیاسی عمل نہیں، بلکہ ایک مذہبی فرض ہے۔
تہذیبی تصادم کے شعلوں کو ہوا دینے کے لئے ”عالمی راہزن “اور ان کے صلیبی گماشتے گستاخانہ فلم پر اپنی حکومت کی خاموشی (بلکہ حمایت) سے شہ پا کر اب پوری مغربی دنیا میں نہایت جارحانہ انداز سے اسلام مخالف مہم شروع کر چکے ہیں۔ میڈیا ان کی پشت پر ہے۔ امریکی و مغربی میڈیا کا ایک سرسری جائزہ بتاتا ہے کہ ایک منظم اور مربوط انداز میں ان تمام اسلام مخالف اور گستاخ رسول افراد کو مغربی میڈیا کے ذریعے سامنے لایا جا رہا ہے جو حال و ماضی میں گستاخانہ حرکات کے مرتکب ہوئے ہیں۔ شاتمین اسلام امریکی پادری ٹیری جونز، ڈچ رکن پارلیمان گیرٹ ویلڈر، پامیلا گیلر، ولیسٹر گارٹ اور سلمان رشدی سے رابطے کر کے ان کے انٹرویو شائع کئے جا رہے ہیں۔ نیویارک کے اسٹیشنوں اور شہر بھر کی ٹیکسیوں پر اسلام اور جہاد مخالف اشتہار لگائے گئے ہیں اور یہ سلسلہ روز بروز دراز ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں اسلام اور جہاد مخالف مہم میں امریکی یہودیوں کی تنظیم جیوش کانگریس اور دوسری انتہا پسند تنظیمیں پیش پیش ہیں۔ نیویارک کی عدالت نے بھی ایسے اشتہارات ہٹانے کی درخواست رد کر دی ہے۔
امریکی صدر مردان کے ایک چرچ پر ہونے والے حملے پر تو چراغ پا ہیں جو ممکنہ طور پر غصے سے بھرے مخلص مسلمانوں یا پھر امریکی ایجنٹوںکی کارروائی ہو سکتی ہے اورپھر تمام ممالک کو دعوت دیتے ہیں کہ ”انتہا پسندی“ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ مگر انہیں امریکہ و یورپ میں اسلام کی بے حرمتی، مذہبی حقوق کی پامالی، اسلامی شعائر کی بے حرمتی، حجاب پر پابندی، میناروں کی تعمیر کی مخالفت، جہاد کے خلاف مہم، اسلام کے نظام زندگی اور اس کی درخشاں تہذیب کے خلاف ریاستی اقدامات اور میڈیا وار نظر نہیں آتی۔ کیا کبھی اس پر بھی ان کے جذبات بھڑکیں گے؟
مَیں اس صورت حال پر غور کرتا ہوں تو مجھے "The Clash of Civilization" کے مصنف پروفیسر ہنٹنگٹن کے سچائی سے مملو یہ الفاظ یاد آجاتے ہیں کہ ”مغرب کے لئے اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی (دہشت گردی) نہیں خود اسلام ہے“.... لیکن معاً میرا ذہن اللہ تعالیٰ کے ان الفاظ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جو قرآن میں آئے ہیں:
ترجمہ:”پیروان باطل چاہتے ہیں کہ حق و صداقت کا جو نور الٰہی روشن کیا گیا ہے، اسے اپنی مخالفت کی پھونک مار کر بجھا دیں، مگر وہ یاد رکھیں کہ اللہ اپنے اس  نور( صداقت کی روشنی) کو درجہ¿ کمال تک پہنچا کر چھوڑے گا، اگرچہ کافروں (باطل پرستوں) کو برُا لگے“۔
اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے :
ترجمہ:”جو جھاگ ہے وہ بے مصرف سوکھ کر زائل ہو جاتا ہے اور جو (پانی) انسانوں کے لئے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہرا رہتا ہے“۔
جناب اوباما!اسلام سچائی ہے اور سچائی روشنی۔ روشنی تیز تر ہوتی رہے گی ، اسے جبر کی قوت سے بجھایا نہیں جا سکتاکہ اس روشنی کا محافظ خود خدا ہے، محمد مصطفےٰ ﷺ ہیں اور خدا و رسولﷺ کے وفادار وہ عالمی شمشیرزن ہیں، جن کی شاندار مزاحمت اور حیران کن استقامت سے نہ صرف واشنگٹن اور دیگر نیٹو دارا لحکومتوں میں کرسی ہائے اقتدار پر براجمان کٹھ پتلیوں پر لرزہ طاری ہے، بلکہ اسلام کے خلاف گیم کے اصل منصوبہ ساز عالمی رہزن بھی سکتے میں ہیں۔ بلاشبہ :
”اسلام“ کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دو گے
(ختم شد)  ٭

مزید :

کالم -