عقل و دانش کا راستہ
آخر ہم نے بلوغت کا ثبوت فراہم کر ہی دیا۔ ًٰ65ءسال ایک طویل مدت ہے، کئی قومیں ہم سے آگے نکل گئیں ، مگرہم پستی کی طرف عازم سفر رہے، غنیمت یہ ہے کہ ٹھوکر پہ ٹھوکر کھاتے رہے اور آگے بڑھنے کی لگن سے محروم نہیں ہوئے، اب ایک معاملے میں عقل و دانش نے فتح پا لی ہے، ہم جہالت اور تعصبات کے اندھیروں سے نکل آئے ہیں، خط کی بحث ایک منطقی نتیجے تک پہنچ گئی ہے۔اس مسئلے پر قوم شدید الجھن سے دو چار ہو گئی تھی، فرسٹریشن بڑھتی جا رہی تھی اور زندگی کے معاملات اسی ایک نکتے پر اٹک کر رہ گئے تھے۔ اس کا حل بالآخر تلاش کر لیا گیا۔ یہ ایک خواب سا لگتا ہے، یقین کرنا مشکل ہے کہ ہم نے جھگڑا طے کر لیا۔ ہمارے ایک وزیراعظم نے اس کے لئے قربانی دی اور عمر بھر کی نااہلی کی سزا الگ۔خدا خدا کر کے ملک میں جمہوریت بحال ہوئی تھی ،اس کے لئے محترمہ شہید کی جان کا نذرانہ بھی دینا پڑا ، مگر جمہوریت کی گاڑی کو شدید رکاوٹوں کا سامنا تھا۔اب ایک روشنی نظر آئی ہے، اور امید بندھی ہے کہ اگلے انتخابات کا معرکہ سر کر لیں گے اورملک میں انتقال اقتدار کی پُرامن روایت چل نکلے گی۔ سوئس کیس کا حل نکالنے کے لئے قوم وزیر قانون کی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ بلا شبہ انہوں نے تدبر اور فراست کا ثبوت دیا اور عقل ودانش کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا، ان کی پر خلوص کاوش رنگ لائی اور قوم کو ایک عذاب سے چھٹکارا ملا، مگر کیا کیا جائے کہ روشنی کی چھوٹی سی کرن کواندھیروں کی یلغار کا سامنا ہے۔سوات میں معصوم اور نوخیز ملالہ کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے، پوری قوم اس کے لئے دست بدعا ہے۔دہشت گردی نے ہماری قوم کی رگوں کا لہو نچوڑ لیا ہے۔کہیں جائے اماں نہیں ملتی۔ایک طرف امن مارچ ہو رہے ہیں اور دوسری طرف موت مسلط کی جا رہی ہے۔چند سال میں ہزاروںخاندان اجڑ گئے، بچے یتیم ہو گئے، والدین جگر گوشوں سے محروم ہو گئے، بستیاں کھنڈر بن گئیں، سکول راکھ میں تبدیل کر دیئے گئے۔قوم لہو لہان ہے، ملک کا دامن تار تار ہے۔کسی کو ہوش نہیں کہ یہ سب کیا اور کیوں ہو رہا ہے۔ عقل بالائے بام محو تماشا ہے،مگر ملالہ کے سانحے سے قومی دانش سرخرو نکلی۔ اندوہناک سانحہ کی ہرکسی نے مذمت کی، قوم نے شعور کا ثبوت دیتے ہوئے ملالہ کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ہے، میڈیا کا کرادر بھی اس سانحے میںلائق ستائش ہے، جس نے ملالہ کے دُکھ کو اس طرح نمایا ں کیا کہ یہ قوم کا دُکھ بن گیا اور ملک بھر میں لوگوں کے ہاتھ دُعا کے لئے خود بخود اُٹھ گئے، ننھی بچیوںنے بھی بہتے آنسوﺅں کے ساتھ ملالہ کی عافیت کے لئے دُعا کی، اس سانحے نے قوم کے سوئے ہوئے جذبوں کو بیدار کر دیا۔
دہری شہریت کا مسئلہ اچانک ہمالیہ کی بلندی کی طرح ہمارے راستے کی دیوار بن گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں اکھاڑ پچھاڑ کا عمل ایک ایسے وقت میں شروع ہو گیا ہے جب اگلے انتخابات سر پر ہیں، مگر ساتھ ہی ضمنی الیکشن شروع ہو گئے ہیں، ہر کوئی حیران ہے کہ جہاں ساڑھے چار سال گزر گئے، وہاں چند ماہ کی مہلت مل جاتی تو قومی خزانے پر ضمنی الیکشن کا بوجھ تو نہ پڑتا مگر جو کچھ آئین میں درج ہے، اس پر عمل تو ہونا ہے، آئین کو بدلنا ہے تو دو تہائی اکثریت چاہئے اور یہ اکثریت ایوان میں کسی کے پاس نہیں۔ ناچار ہمیں حالات کا سامنا تو کرنا پڑے گا۔ یہ مسئلہ عدالتی فیصلے کی وجہ سے سامنے آیا ہے۔اس پر تبصرہ تو نہیں کیا جا سکتا ،مگر پارلیمنٹ کو اپنی بقا، بالادستی اور وجود کے تحفظ کے لئے سوچ بچار کا عمل ضرور شروع کرنا چاہئے۔ ان دنوں نئے صوبوں کے لئے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ان پر فیصلہ کرنے کے لئے صوبوں کی تائید چاہئے ۔اور اس کا تصور بھی محاذ آرائی کی موجودہ فضا میں محال ہے۔ہمارے پڑوسی ملک میں آدھے پنجاب کو تین صوبوں میں تقسیم کیا جا چکا ہے، پورے بھارت میں درجنوں نئے صوبے بنائے گئے، افغانستان جیسے ملک کے صوبوں کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں پر نہیں گنی جا سکتی۔ پتہ نہیں ہم کیوں چھوئی موئی بنے ہوئے ہیں ۔ لوگوں کے مطالبات سے غرض نہیں تو انتظامی تقاضے ہی مد نظر رکھ لئے جائیں، صوبوں کا مسئلہ حل کرنے میں دیر نہیں لگے گی،مگر اصل مسئلہ عوام کو مطمئن کرنے کا ہے، ان کی محرومیوں ، اُن کے دُکھوں کا درماں کرنا ہے۔پنجاب کے بیشتر علاقے ایسے ہیںجہاں انسان اور مویشی ایک کھالے کا غلیظ پانی پینے پر مجبور ہیں ، دور ِجدید کی باقی نعمتوں کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ تعلیم، صحت، کھیل، تفریح کی سہولتوں کا نام و نشان نہیں، بجلی شہروں میں تو کسی وقت آ جاتی ہے، مگر دیہات میں ایک بار چلی جائے تو دوبارہ آنے کا نام نہیں لیتی۔ نہ جانے ان لوگوں کو انسان کیوں نہیں سمجھا جاتا۔ حکومت کو اس بنیادی مسائل کے حل پر توجہ دینی چاہئے۔ایک حکومت پر کیاموقوف،سبھی سیاسی جماعتوں کے منشور میں مسائل کے عملی حل کا ذکر ہونا چاہئے تاکہ آنے والے انتخابات میں ووٹروں کے لئے پسند نا پسند کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہو، وہ ذات برادری، فرقے ،علاقے ، رنگ و نسل وغیرہ کے تعصبات سے بالا تر ہو کر صرف اور صرف پروگرام کی بنیاد پر ووٹ دیں۔حکومت کے پھیلاﺅ کو کم سے کم کرنا چاہئے، لوگوں کو وہ نظام درکار ہے جس میں ان کے مسائل اُن کی دہلیز پر حل ہو سکیں، انہیں اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ کے چکروں سے نجات ملے۔بد قسمتی سے ہماری سیاسی پارٹیاں نان اشوز میں الجھی ہوئی ہیں ، ان سے عام آدمی کو کیا غرض۔ آئین کی گتھیاں سلجھانا اپنی جگہ اہم ہے، مگر سر پر چھت، پینے کا پانی، کھانے کو دو وقت کی روٹی، بیماری کی صورت میں مناسب علاج، بچوں کے لئے تعلیم اور روزگار کے مواقع ، یہ ہیں عام آدمی کی ضروریات۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے منشور پر نظر ثانی کریں اور عام آدمی کے نقطہ ¿ نظر کو ان میں سمونے کی کوشش کریں ، یہی عام آدمی پاکستان ہے اور یہی ملک کی فلاح اور ترقی کا راستہ ہے۔بلوچستان کے تنازعے پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، یہ صوبہ بے چینی اور انتشار کا نمونہ بن کر رہ گیا ہے، اس کے مسائل کی ذمے داری ڈکٹیٹروں پر عائد ہوتی ہے جو طویل عرصے تک ملک پر مسلط رہے، لیکن جمہوریت کا دور دورہ ہے، تو بلوچستان کو بھی اس کے ثمرات سے بہرہ مند کیا جا ناچاہئے۔یہ درست ہے کہ بلوچستان کا مطلب وہاں کے سردار نہیں ، عوام ہیں جو بے حد پسے ہوئے ہیں۔اس وقت اتفاق سے یہ صوبہ ہماری سوچ بچار کا محور بنا ہوا ہے۔ فوج بھی آئینی حل کی بات کرتی ہے تو تمام فریق سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس صوبے کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی شعوری کوشش کی جائے۔ہمیں اپنے تمام مسائل ہوش وخرد کی روشنی میں حل کرنے ہوں گے، خوش قسمتی سے یہ عمل شروع ہو گیا ہے، اداروں کے تصادم کے خدشات ٹل گئے ہیں۔ اب اتفاق رائے سامنے آرہا ہے، اسی عزم، اسی جذبے ، اسی سوچ ، اسی تدبر، اسی شعور اور فہم کے ساتھ ہمیں اپنے سنگین مسائل سے نجات حاصل کرنا ہوگی