سانحہ ملتان۔۔۔ذمہ داری کا تعین ضروری ہے
ملتان میں برپا ہونے والا سانحہ کوئی نئی بات نہ ہے اس کی تاریخ پرانی اور طویل ہے، لیکن ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ ماضی کو یاد رکھیں یا اس سے کوئی سبق حاصل کرلیں ۔پھر پے در پے رونما ہونے والے سانحات نے پاکستانیوں کی دماغی حالت بھی ایسی کردی ہے کہ انہیں گذشتہ روز کی بھی یا دنہیں رہتی اور اس کمزوری کا ہماری حادثاتی لیڈر شپ نما اشرافیہ کو بخوبی علم ہے جو دوسری اور تیسری درجہ کے خود نما قسم کے جعلی رہنما ،جو ان حادثاتی لیڈر شپ کے تنخواہ دار یا ذاتی ملازم ہوتے ہیں کے ذریعے بھلکڑ اور ہر وقت ،ہر دم ضرور ت مند غریب عوام کو ایک دوسرے کے خلاف پر کشش جعلی نعروں اور سلوگن کے ذریعے اکٹھا کرلیتے ہیں اور پھر انہیں جانوروں سے بھی بد تر سلوک کرتے ہوئے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور کردیتے ہیں ۔مرنے والا تو دنیاوی غموں اور مصائب سے چھٹکارا پالیتا ہے، لیکن ایک طویل اذیت اپنے والدین ،بیوی ،بچوں ،بہن ،بھائیوں اور عزیزوں کے لئے چھوڑ جاتا ہے۔ پاکستانیوں کبھی غم روز گار سے فرصت ملے تو سوچنا کہ ہمارے اور تمہارے کیسے کیسے خوبرو جوان، کتنے چاند، سورج اور ستاروں کی طرح روشن بچے کوڑھی حکمران، خاندانوں کے لئے جیوے جیوے اور آوے آوے کرتے کرتے گمنامی اور حقیقی موت مر گئے، مگر ان لیڈر نما اشرافیا نے تمہارے جنازوں پر کیسے کیسے سیاست کی اور الزامات عائد کیے۔ اگر جمتہ المبارک 10اکتوبر کو ملتان کے قلعہ کہنہ ابن قاسم باغ میں تحریک انصاف کے جلسہ میں برپا ہونے والے سانحہ کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سمیت سرکاری انتظامیہ کے بیانات پر غور کر لیں تو اندازہ ہو گا کہ اظہار افسوس کی بجائے ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے جا رہے ہیں، لیکن کوئی بھی اس سانحہ کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہو رہا۔ ان کے لئے یہ بات اہم نہیں ہے کہ 7قیمتی جانیں ان کی ذاتی سیاسی چپقلش کی بھینٹ چڑ گئی ہیں بلکہ یہ اہم ہے کہ اس سانحہ میں ایک دوسرے کو کس طرح’’فکس‘‘ کیا جائے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جنہوں نے اس سانحہ پر ملتان میں رکنے کی بجائے اسلام آباد جانے کو ترجیح دی کہتے ہیں اس وقوع کی ذمہ داری پنجاب حکومت،ضلعی انتظامیہ اور پولیس پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے بھگدڑ کا ذمہ دار بھی انہیں ہی قرار دیا ہے اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی بات کرتے جا رہے ہیں۔ وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود حسین قریشی کہتے ہیں کہ جلسہ کے شرکاء کے سٹیڈیم سے نکالنے کی ذمہ داری مقامی انتظامیہ اور پولیس کی تھی۔ انہوں نے بھی تمام تر ذمہ داری انتظامیہ اور پولیس پر ڈال دی ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی اور شیری مزاری نے مزید سخت الفاظ میں جو بیان میڈیا کو جاری کیے ہیں اور جو ٹویٹ کئے ہیں اس میں تحریک انصاف کی جلسہ عام منعقدہ کرانے والے ذمہ داران کو کلین سرٹیفکیٹ دیتے ہوئے پنجاب حکومت اور مقامی انتظامیہ اور پولیس پر ملبہ ڈال دیا ہے، لیکن کوئی یہ بات تسلیم یہ غور کرنے کو تیار نہیں ہے کہ اس سانحہ کی اصل محرکات کیا تھی؟ اور اگر ان پر غور کر لیا جائے تو اصل ذمہ داران کا پتہ بھی چل سکتا ہے۔ لیکن کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں ہے کیونکہ انتظامیہ اور پولیس کا موقف بھی یہ ہے کہ تحریک انصاف نے جلسہ عام کی اجازت کے وقت مقامی انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ جو تحریری معاہدہ کیا تھا اس میں واضح تھا کہ جلسہ گاہ کے اندر تمام انتظامات تحریک انصاف کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہو گی۔ اس حوالے سے شیخ رشید اور تحریک انصاف ایک اور مرکزی رہنما نے جلسہ گاہ کے اندر اور پھر بعد میں برملا کہا کہ جلسہ گاہ کے اندر انتظامات ٹھیک یا مناسب نہ تھے۔ میڈیا رپورٹس میں بھی کئی خامیوں کی نشاندہی کی گئی، یعنی اِسی سانحہ میں کسی نہ کسی کا کوئی نہ کوئی قصور ہے تو 7جانیں گئیں اور بیسیوں موت و حیات کی ہسپتال میں جنگ لڑ رہے ہیں۔ کم از کم یہ تو حقیقت ہے نا۔۔۔ تو پھر اس حقیقت کو ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کی نوید دینے والے تسلیم کیوں نہیں کیوں نہیں کرتے اور پرانے ’’پرانے پاکستان‘‘ کے ’’رکھوالے‘‘ اس پر کف افسوس کیوں نہیں ہیں؟؟ کیا پاکستان میں قانون‘قانون نافذ کرنے والے اداروں ‘ انتظامی اور حکومتوں کی ذمہ داری صرف یہی رہے گئی ہے کہ وہ اقتدار کے لئے دست و گریباں سیاسی اشرافیا کی یہی حفاظت‘ پروٹوکول اور نگرانی کرتے رہیں۔ سرکاری سکیورٹی اہلکاروں کے مسلح غول کے غول درجنوں گاڑیوں میں حکومت اور حکومت سے باہر سیاسی اشرافیہ کا کارواں چلاتے رہیں۔ ان حفاظت کرتے اور نہتے پاکستانیوں کے سروں میں سکیورٹی کے نام پر کلاشنکوف کی گولیاں فائر کرتے رہیں‘ اور پھر تمام سرکاری اور حکومتی ادارے مل کر ایسے بھیانک جوائم کو سیاسی قرار دیکر اپنی جان بچاتے رہیں اور عوام کو قبول نہ کرنے والے سکیورٹی کے نام پر تمام سرکاری وسائل استعمال کرتے رہیں۔ ضروری تھا کہ سانحہ ملتان میں تحریک انصاف سمیت تمام متعلقہ ادارے اس کی ذمہ داری قبول کرتے اور آئندہ کے لئے ایسا لائحہ عمل تیار کرتے کہ اس قسم کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں اور نہ حق قیمتی جانیں ضائع نہ ہوں، لیکن اب یہ روایت چل نکلی ہے کہ کوئی بھی وقوعہ ہو اس کی ذمہ داری قبول نہ کریں اور الزام ایک دوسرے کے سر پر تھوپ کر جان چھڑا لی جائے۔ اب عوام کو بھی سوچنا ہو گا کہ سیاسی اشرافیہ اقتدار کی جنگ میں جب انہیں بطور ایندھن استعمال کرتی ہے، تو کم از کم کسی ذمہ داری کو قبول تو کر لیں۔ تا کہ پاکستانیوں کو بھی احساس ہو کہ انہیں ریاست‘ حکومت اور سیاسی اشرافیہ قبول کر رہی ہے، لیکن ان سے اس قسم کے مثبت رویہ کی توقع کم ہی ہے، کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنی گردن بچانے اور کسی دوسرے کی گردن میں، پھندہ ڈالنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، لیکن کب تک۔۔۔پاکستانیوں !! کبھی غم روز گار سے فرصت ملے تو سوچنا تمہارے کیسے کیسے خوبرو جوان ‘ کتنے چاند‘ سورج اور ستاروں کی طرح روشن بچے کوڑھی حکمران خاندانوں کے لئے جیوے جیوے اور آوے ای آوے کرتے کرتے گمنامی کی موت اور حقیقی موت مر گئے۔