ممتاز علمی شخصیت : مولانا جعفر قاسمی

ممتاز علمی شخصیت : مولانا جعفر قاسمی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مولانا جعفر قاسمی کا انتقال 12اکتوبر 1991ء کو فیصل آباد میں ہوا، جہاں وہ ایک علمی منصوبے کی تکمیل کے لئے قیام پذیر تھے۔ ان کے جسد خاکی کو تدفین کے لئے چنیوٹ لایا گیا، جہاں پر انہیں خاندانی قبرستان میں، جہاں ان کے برادر بزرگ قاضی غلام محمد مرحوم بھی آسودہ خاک ہیں، دفن کیا گیا۔ نماز جنازہ میں چنیوٹ کے ہزاروں عقیدت مندوں نے شرکت کی۔ مولانا کی وفات پر اظہار افسوس کرنے والوں میں ملک کی اہم اور ممتاز ترین شخصیات شامل تھیں۔ انگلستان میں طویل قیام کے دوران ان کے روابط برٹرینڈرسل ، راجہ صاحب محمود آباد، عاشق حسین بٹالوی، ڈاکٹر مجید نظامی، ڈاکٹر رشید احمد جالندھری اور بے شمار ایسی شخصیات سے رہے جن کا اس زمانے میں لندن میں قیام تھا یا ان کا آنا جانا لندن میں رہتا تھا۔ 

1948ء میں جب ان کے والد ماجد قاضی غلام حسین مرحوم کا انتقال ہوا تو ان کی وسیع زرعی اراضی اور جائیداد کو مولانا جعفر قاسمی اور ان کے دو بھائیوں نے سنبھال لیا، اس اراضی کے تین حصوں میں سے ایک حصہ مولانا جعفر قاسمی کو ملا۔ مولانا جعفر قاسمی اراضی کے بیش تر حصے کو فروخت کرکے اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے، جہاں ’’لنکن ان ‘‘ میں قانون کی تعلیم کے لئے داخلہ لیا۔ جلد ہی انہیں اپنے تعلیمی اخراجات پورا کرنے کے لئے بی بی سی لندن کی اردو سروس سے وابستہ ہونا پڑا۔ یہ وابستگی 1965ء تک جاری رہی، جس کے بعد وہ پاکستان آگئے، جہاں پر جناب محمد حسین صوفی جو طویل عرصہ وفاقی حکومت میں سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے اور مسعود کھدر پوش جو اوقاف کے ناظم اعلیٰ تھے، دونوں حضرات کی سرپرستی سے مولانا جعفر قاسمی کو اوقاف میں اعلیٰ عہدے پر فائز کیا گیا۔ اس دوران انہوں نے متعدد کتابیں تالیف کیں اور اخبارات میں بھی ان کے بیشمار مضامین شائع ہوئے۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے فہم القرآن پروگرام کے ذریعے انہوں نے تقاریر کا ایک سلسلہ شروع کیا، جسے ناظرین نے خاصا پسند کیا۔ ان کی تالیفات میں ’’تاثیر معنوی ایران درپاکستان‘‘ ۔۔۔جو محکمہ اوقاف کی طرف سے 1971ء میں شائع ہوئی اور بابا فرید الدین گنج شکر پر ایک مختصر اور جامع تالیف، جسے آرسی ڈی نے مختلف زبانوں میں شائع کیا، شامل ہیں۔
مولانا جعفر قاسمی کا اصل نام قاضی غلام جعفر تھا۔ قاسمی کا لفظ انہوں نے اپنے جدامجد کے نام کی مناسبت سے اختیار کیا تھا۔ انہی بزرگ کی مناسبت سے قاضی ضیغم حسن کے اکلوتے بیٹے قاسم حسن کا نام رکھا گیا جو بعد میں جواں سالی کے عالم میں انتقال کر گئے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنی کتاب ’’شہر لب دریا ‘‘ میں مولانا جعفر قاسمی پر ایک طویل مبسوط مقالہ تحریر کیا ہے۔امریکہ میں ایشیا کی روحانی شخصیات پر ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں مولانا جعفر قاسمی کا تذکرہ شامل کیا گیا ہے۔ مولانا جعفر قاسمی کے جس اعلیٰ وصف کا مَیں نے قریب سے مشاہدہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ مولانا ہر شخص کواچھا مشورہ دیتے تھے۔ مجھے اوائل عمری ہی میں انہوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ مجھے گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کرنی چاہئے، چنانچہ ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے مَیں نے گریجویشن گورنمنٹ کالج لاہور سے کی، جس کا مجھے بے پناہ فائدہ ہوا۔ مولانا جعفر قاسمی کی قدر کرنے والی شخصیات میں مجیب الرحمن شامی، اشفاق احمد خاں، ڈاکٹر مجید نظامی، جاوید قریشی اور اے زیڈ کے شیردل بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ وہ ایک درویش منش انسان تھے جو مذہبی علوم کا بحر بیکنارتھے ۔ ان کے صاحبزادے ہرسال ان کی یاد میں تقریب منعقد کرتے ہیں۔

مزید :

کالم -