فکرِ اقبالؒ کے وارث:جسٹس جاوید اقبال

فکرِ اقبالؒ کے وارث:جسٹس جاوید اقبال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہماری نسل کے وہ پاکستانی جنہوں نے حکیم الامت اور شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کو نہیں دیکھا ، ان کو ہمیشہ فرزندِ اقبال جسٹس (ر) جاوید اقبال سے ملنے کا اشتیاق رہا ہے۔ یہ شوق اور تجسس مضافات سے آنے والوں کے دلوں میں پاکستان اور نظریۂ پاکستان سے خلوص اور محبت کی وجہ سے ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔ اسے کوشش کر کے بھی کم نہیں کیا جا سکتا۔ہم بھی ایسے ہی دیہاتی وقصباتی لوگوں میں شامل رہے ہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو ملنا ہمارے لئے بھی ایسے ہی تھا جیسے ہم علامہ اقبالؒ کا خطبہ الہ آباد سننے کے لئے بے تاب ہوں۔ سب سے پہلے پنجاب یونیورسٹی سینٹ ہال میں اقبالؒ میموریل لیکچر کے موقع پر ان سے ملنے اور سننے کا موقع ملا۔ اس سے قبل ہم نے یہ پروپیگنڈہ بھی سن رکھا تھا کہ فرزندِ اقبال اپنے والد کے افکار اور خیالات کی نفی کرتے ہیں۔ اس لیکچر میں تو ہمیں تضاد ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملا۔ ہاں البتہ جن باتوں پر علامہؒ نے اپنے حالات کے مطابق ذرا کم فوکس کیا تھا ،آج انہی باتوں پر فرزندِ اقبال زیادہ فوکس کر رہے تھے۔ یعنی فکر اقبالؒ کی تشریح وہ اپنے مزاج اور نظریات کے مطابق کر رہے تھے۔
دراصل ہمارے پاکستانی معاشرے کی ایک بڑی اکثریت کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ علامہ اقبالؒ کا پوری دنیا ،بالخصوص پاکستان میں مقام اور اہمیت کیا ہے؟ وہ تو بھلا ہو عطاء الحق قاسمی صاحب کا کہ انہوں نے الحمرا کے لان میں علامہؒ کا مجسمہ نصب کروا دیا ،تاکہ نئی نسل اپنے بزرگوں سے پوچھتی رہے کہ یہ کس کا مجسمہ ہے؟ اس بہانے بڑوں کو بھی علامہؒ کے بارے میں کچھ نہ کچھ جاننے کی ضرورت پڑ جاتی ہے، ورنہ ہم سے پہلی نسل کے بزرگ قرآن و حدیث کے بعد کلام اقبالؒ کو سبقاً سبقاً روزانہ پڑھنے اور اپنی یادداشت کا حصہ بنا لینے کے عادی تھے۔ محفلوں میں اکثر کلام اقبالؒ بہت ترنم اور لے کے ساتھ پڑھا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے گورنمنٹ کالج شیخوپرہ میں ایک صاحب نے علامہؒ کی مشہور غزل:
یہ گُنبد مینائی، یہ عالمِ پہنائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی تنہائی
کچھ اس انداز سے سنائی کہ ہال میں مکمل سناٹا طاری ہو گیا ،ہر کوئی جھوم جھوم کر داد دے رہا تھا، اس غزل میں بھی علامہؒ نے اپنا پیغام ضرور دیا ہے :
بھٹکا ہوا راہی میں، بھٹکا ہوا راہی تو
منزل ہے کہاں تیری؟ اے لالہء صحرائی
اپنی شاعری میں انہوں نے جگہ جگہ یہی کہا ہے :
میں کہ میری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگذشت کھوئے ہوؤں کی جستجو

ایک طرف ہمارے معاشرے کی ایک بڑی اکثریت اقبالؒ کو محض ایک اسلامی شاعر، فلاسفر، بانی نظریۂ پاکستان اور تصورِ پاکستان کا خالق سمجھتی ہے، اس لئے ان کا نام بہت احترام سے لیتی اور ان کے کلام کو اپنی روحانی تسکین اور بالیدگی ایمان کے لئے لازمی تصور کرتی ہے۔ ان کے ہاں اقبالؒ کسی نہ کسی صورت میں مل ہی جاتا ہے، بلکہ وہ اپنی روز مرہ زندگی میں قدم قدم پر موقع کی مناسبت سے کلام اقبالؒ کے خوبصورت حوالے بھی دیتے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی اس محدود ترین اقلیت کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو مذہب کو اپنے ’’انقلابی‘‘ نظریات کے عملی نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہے ،ان کے ایک دو افراد نے دبے لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ اقبالؒ کی شاعری بھی کسی افیون سے کم نہیں ہے۔ اس کو پڑھ کر بہت سے نوجوان گمراہ ہوئے ہیں۔ الحاد پر مبنی ان لوگوں کا اپنا انتہا پسندانہ نقطہ نظر ہے۔اپنے تاریخی اور سیاسی تجزیوں میں بھی گھما پھرا اقبالؒ پر تنقید کے نشتر چلانے سے باز نہیں آتے۔ یہ بجا کہ فیض، فراز اور جالب بھی انقلابی شعرائے کرام تھے، لیکن عظمتِ رفتہ کو دوبارہ زندہ کرنے کا جذبہ اور پیغام صرف اقبالؒ نے دیا ،چنانچہ وہ یہ مصرعے لکھنے سے بھی نہیں چوکتے:
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
یہ مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالین ہیں ایرانی
لہو رُلاتی ہے مجھے جوانوں کی تن آسانی
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج، دیکھ چکا صدف صدف
اس طرح کے مصرے تو کلام اقبالؒ میں گنتی کے ملتے ہیں مجموعی طور پر اقبالؒ کا پیغام ایک رجائیت، امید، انقلاب اور پوری دنیا کو اسلام کے رنگ میں رنگ دینے کا پیغام ہے
اک ولولہ تازہ دیا تو نے دلوں کو
لاہور سے تابخاکِ بخارا و سمر قند
ہمارے معاشرے میں فرزندِ اقبالؒ جسٹس جاوید اقبالؒ اور ان کے ہم نواؤں کا ایک علم ،دلائل اور منطق سے مسلح افراد کا بھی ایک موثر گروہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ ان لوگوں نے اصل وارثانِ اقبالؒ ہونے کی وجہ سے فکر اقبالؒ کے ان گوشوں پر زیادہ روشنی ڈالی۔ بلا شبہ یہ گروہ بھی نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ، اسلام کے پیغام کو وسیع ترین تناظر اور روشن خیالی کے حوالے سے دیکھنے والے سکالروں اور حقیقی دانشوروں پر مشتمل تھا، اس لئے یہ سبھی علمِ و حکمت او رفلسفے کے پیکر، تحمل وبردباری اور برداشت کے عملی نمونے، نہایت عاجزی اور خاکساری سے اپنی زندگی گزار گئے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا ،حکیم الامت اپنے اشعار اور ہدایات کے ذریعے ان کی تربیت کرتے رہے تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں اپنے فرزند سے بار ہا مخاطب ہو کر ہدایات اور دعائیں دیں:
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اپنی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد خاموش اور لاتعلق نہیں بیٹھے رہے ،بلکہ فکر اقبالؒ کی تشریح اپنے زاویہ نظر اور مزاج کے مطابق کرتے رہے۔ مشکل اور پیچیدہ فلسفیانہ اصطلاحات اور الفاظ کی بجائے اگر سادہ ترین الفاظ میں بات سمجھنی ہو تو یوں سمجھ لیجئے کہ ان وارثانِ اقبالؒ نے زیادہ زور اس پر دیا کہ اقبالؒ نے مسلمانوں کی زبوں حالی کا تجزیہ کرتے ہوئے کن اسباب کی نشاندہی کی ہے۔ بقول فرزندِ اقبالؒ ’’علامہ اقبالؒ نے اپنے پیغام میں مسلمانانِ عالم کے زوال کا سبب تین چیزوں کو قرار دیا تھا، لیکن بد قسمتی سے یہ تینوں چیزیں کچھ علاقائی تفاوت اور فرق کے ساتھ ابھی تک نہ صرف موجود ہیں، بلکہ ان تینوں کی جڑیں عوام میں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ آسانی سے ختم نہیں کی جا سکتیں۔ نتیجتاً ہم زوال در زوال کا شکار ہیں۔ خود اپنے وطنِ عزیز پاکستان کی کرپشن، دہشت گردی، بد امنی اور قتل و غارت گری کی موجودہ صورتِ حال کو ہی دیکھ لیں، کون سا شعبہ بچا ہوا ہے اور کون ہے جسے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع ملا اور وہ اس قوم پر محض خدا خوفی کی وجہ سے احسان کر گیا ہے۔
بقول وارثانِ اقبالؒ علامہ کے خیال میں ’’ملوکیت‘‘ ایک ایسی لعنت ہے جس نے کئی اسلامی ممالک میں مستقل اور کچھ ممالک میں وقفے وقفے سے آکر عوام الناس کو بڑی طاقتوں کا بالواسطہ طور پر غلام بنا رکھا ہے۔ ان کو چند زندگی کی بنیادی آسائشیں تو مہیا کی ہیں ،لیکن ریاست کے انتظام و انصرام اور حکومتوں کی غلط پالیسیوں پر تنقید برائے اصلاح کی ان کو ہرگز اجازت نہیں ہے۔ دوسری بڑی لعنت اور بیماری بہت مستحکم خانقاہی نظام ہے جو برصغیر پاک و ہند اور کئی اسلامی ممالک میں بہت زیادہ مضبوط ہے۔ جہاں ملوکیت کا شکنجہ مضبوط ہے، وہاں یہ خانقاہی نظام بہت کم ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے ،اقبالؒ کے بقول خانقاہی نظام سے مراد صرف مزاروں پر حاضری دینا ہی نہیں،بلکہ معاشرے کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مختلف شرک اور بدعات کو اختیار کر لینا ہے یا پھر مزار کے ایک کونے میں ڈیرا لگا کر باقی دنیا ومافیہا سے بے خبر ہو جانا اور معاشرے میں کوئی مثبت کردار ادا نہ کرنا خانقاہی نظام کی بد ترین شکلیں ہیں۔ اقبالؒ نے انپے اردو ،فارسی کلام اور خطبات میں اس خانقاہی نظام کو جگہ جگہ ایڈریس کیا ہے اور کسی لگی لپٹی کے بغیر بہت کھل کر لکھا ہے: مثلاً
اے پیر حرم رسم و رہ خانقاہی چھوڑ
مقصود سمجھ مری نوائے سحری کا
ان کی نوائے سحری یہی تھی کہ ’’یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے۔۔۔ خداوند تیرے یہ سادہ لو دل بندے کدھر جائیں، کہ درویشی بھی عیاری، سلطانی بھی عیاری، حتی کہ اقبالؒ اس خانقاہی نظام کو ایک باقاعدہ منظم شیطانی کام قرار دیتے ہیں۔ اپنی مشہور نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں وہ شیطان کے منہ سے اپنے چیلوں کو یہ نصیحت کرتے ہوئے دکھاتے ہیں:

مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
تیسری بڑی خرابی اور لعنت ’’ملائیت‘‘ ہے۔ جاوید اقبالؒ جسے غصے میں ’’کٹھ ملائیت اور تھیو کریسی‘‘ کہا کرتے تھے، یعنی منبر و محراب پر براجمان فرد کا محدود علم ،نہایت محدود سوچ اور تنگ نظری۔ علامہؒ اس روش کے سخت خلاف تھے۔ ان کے خیال میں امتِ مسلمہ کی ترقی اور خوشحالی اس وجہ سے بھی رک جاتی ہے اور نتیجتاً ساکت و جامد ہو جانے کی وجہ سے جہالت کا اندھیرا چھایا رہتا ہے۔ علامہؒ فرماتے ہیں کہ ’’عشق بے چارہ نہ مُلا ہے نہ زاہد نہ حکیم۔۔۔ علامہ کے دور میں یہ عفریت اس قدر بڑا نہیں تھا جبکہ فی زمانہ کئی وجوہات کی بناء پر یہ ملائیت اب باقاعدہ کاروبار بن چکی ہے۔ فرقہ پرست علمائے کرام نے اپنی اپنی دکانیں کھول رکھی ہیں بلا شبہ جہاں خدمتِ اسلام اور خدمت انسانیت کا کام بھی ہو رہا ہے لیکن مستقبل کے کٹھ مُلا بھی تیار ہو رہے ہیں۔ حضرت علامہؒ نے تو یہ نہیں کہا ،لیکن بعد میں ہمارے ہاں سبھی علائے کرام کو گالی دینا ایک فیشن بن گیا۔ ماڈرن کہلانے اور ترقی کا زینہ سمجھا جانے لگا۔ یہ روش بھی اپنی جگہ بہت مکر و فریب اور سیاست کا باعث ثابت ہوئی۔ جن لوگوں کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا نا ممکن یا مشکل نظر آتا ہے، وہ یہ شارٹ کٹ ڈھونڈ کر مولوی کو گالی دے کر اپنی جان چھڑالیتے ہیں، تاکہ خدا و رسول ؐ کی مرضی کی بجائے اپنی من پسند اور مرضی سے آزادانہ زندگی بسر کی جائے۔
حضرت علامہ نے ’’مولوی‘‘ کو اندھی تقلید کرنے کی بجائے اجتہاد اور اجماع کا درس دیا۔ فرزندِ اقبال بھی ان چیزوں کی ضرورت پر بہت زور دیتے تھے، لیکن اجتہاد کرنے کے لئے اس کی مطلوبہ شرائط اور معیار کو پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے، ورنہ یہ اجتہاد مزید گلے کا پھندہ بن جاتا ہے ۔اس کی تفصیلات بھی علامہؒ نے اپنے خطبات ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ ۔۔۔ میں بیان کر دی ہیں، لیکن افسوس ہم نے مغرب سے آئی ہر چیز کو اب تک سینے سے لگا رکھا ہے ۔ایسے میں اوریا مقبول جان کی تائید کرنا پڑتی ہے کہ ہماری قوم بحیثیت مجموعی بہت محسن کش قوم ہے ہم نے بانیانِ پاکستان کے اصل وارثوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو ایک فوجی ڈکٹیٹر کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ اس کے بعد فرزندِ اقبالؒ کو ذوالفقار علی بھٹو نے الیکشن میں ہرا کر تصورِ پاکستان پیش کرنے والوں کو ان کی نیکی کا خوب صلہ دیا۔ ’’نیکی‘‘ کے دونوں کام اس نظامِ جمہوریت کی وجہ سے سر انجام پائے جس کے بارے میں حضرت علامہؒ فرما گئے تھے: ’’بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے‘‘ ۔یہاں پر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ وارثِ فکر اقبالؒ نے ان کی تعلیمات سے عملی انحراف کیا تو ان کے ساتھ زمانے نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ان باقی خاندانوں کے ورثاء کو ہندوستان کی طرح ملک کی بھاگ ڈور ویسے ہی تھما دی جاتی۔ عین ممکن تھا کہ مسائل کا انبوہ کثیر جو اس وقت ہے، نہ ہوتا یا اتنی شدت اور تباہ حالی کی صورت میں نہ ہوتا۔ بہر حال وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ بالکل مختلف رہی اور نہ جانے یہ ریت اس نگر میں کب تک قائم رہے گی، بقول انور مسعود:
درپیش ہے بے سمت مسافت کی اذیت
اس دَور کا انساں ہے دانش کے بھنور میں
اسی لئے تو علامہؒ نے فرمایا تھا:
آہ وہ تیرِنیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف

مزید :

کالم -