ما یو س کا لم نگار کے نام
ہما رے پسندیدہ قلم کار پررات کو ایک اور کیفیت طا ری ہو جا تی ہے جس دنیا میں ہم بستے ہیں وہ اس سے آ گے کے مقام پر پہنچ جا تے ہیں۔ مگرایسی ما یو سی میں انہیں میں نے پہلی باردیکھا ہے، انسان ما یوس ہو تو ہاتھ میں قلم پکڑ نے کی بجا ئے اندر سے خالی با نسری پکڑ نی چا ہئے جس سے نت نئی دھنیں اور نغمے تو بلند ہو تے رہتے ہیں۔
اکثر اوقات وہ مخصوص آ بِ حیات کی تا ثیر اور اسرا و رموز ہم پر کھو لتے رہتے ہیں، ہما رے تمام مسا ئل اور فر سودہ نظریات زندگی کی وجہ اس آ ب رواں کی قلت پر پا بندی کو قرار دیتے ہیں، اسی جام تمنا کی عدم فرا ہمی کو نئی نسل میں تخلیقی صلا حیتوں کے فقدان کا واحد ذمہ دار قرار دیتے رہتے ہیں۔
ہم یہ بھی مان لیتے ہیں ان کا گریہ بجا ہو تا ہے کہ ہما رے مقا می شیکسپئراس پا بندی کی وجہ سے پروان نہ چڑ ھ سکے اور ہما رے اصل مسا ئل کا دروازہ اس پیا لے کوعام کر نے سے کھلے گا، اس بر کھا کے برسنے سے ہما رے درد کا مو سم ختم اور اور آ مریت کے دھبے اسی سے دھلیں گے ۔
خا مو شی کی زبان میں جا ری ہو نے وا لا اعلا میہ اب ان کے قلم سے زبان بن کر نئے نئے منصو بے اور نئے احکامات صا در کر نے لگا ہے۔ ان کے حو صلہ اور شجا عت کی داد دینی پڑے گی کہ وہ ملک کے وزیر اعظم کے لئے رات کے ہنگا مہ میں سبق پڑ ھا نے کی بات کر تے ہیں ،جس رات کے سنا ٹے میں ان کا قلم سیا ہی بھر تا ہے اسی سے وہ ملک کی جمہو ریت کو فیضیاب ہو نے کا درس دے رہے ہیں۔اور انکا تا زہ حکم یہ ہے کہ رات کو کھلنے والے نئی روشنی سکول سے ملک کے وزراء اعلیٰ کو تعلیم با لغاں کے طور پر اسمبلیاں توڑ نے کا سبق پڑ ھا یا جا ئے۔
پیر مغاں نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ ان کی دیدہء نظر شناس کا انتخاب بھی جنرل را حیل شریف کی کا میا بیوں کے پیچھے چھپے جر نیلوں تک جا پہنچا ہے ، انہوں نے نہ صرف اشفاق ندیم کا نام بطور وزیر اعظم چن لیا ہے بلکہ لا ہور کے نئے کور کمانڈر اور جنرل را حیل کے دور میں ڈی جی ملٹری آ پریشنز کو یہ صلاح دی ہے کہ وہ رات کے اند ھیرے میں پنجاب کے خادم اعلیٰ سے اپنی اسمبلی توڑ نے کی خدمت لیں
انہی فر مودات کی وجہ سے قو می زندگی کی ٹرین وقت کی الٹی رفتار سے چل رہی ہے۔اسے ابھی تک جن منزلوں سے گزر جا نا چا ہئے تھا ابھی تک ان منز لوں کاکو ئی سراغ نہیں مل رہا۔ہما ری ستر سا لہ قو می زندگی میں صرف دو ہی حا لتیں ہما رے حصے میں آ ئی ہیں کچھ دیر کے لیے ہما ری آ نکھ لگ جا تی ہے تو خا مو شی کا سناٹا ہو تا ہے اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے اسے آ پ آ مریت سے تعبیر کر سکتے ہیں اور پھر کچھ دیر کے لیے آ نکھ کھل جا تی ہے تو اضطراب اور بے چینی کا سا مان ہو تا ہے جسے جمہو ریت کہہ سکتے ہیں ،یہی عہد ہے جہاں رات کے اند ھیروں میں کسی کو کان سے پکڑ کر کو ئی بھی سبق پڑ ھا یا جا سکتا ہے،گو یا سارا قو می سفر دو متضاد خوا بوں کی نذر ہو گیا ہے
میرے دور کا دانشور بھول رہا ہے جنہیں وہ رات کے اند ھیرے میں شبخون کے لیے اکسا رہا ہے ان کے پیشروؤں نے بھی کئی دفعہ ’’بندوق کی نال سے بہنے وا لی اصل طا قت‘‘ کے فلسفہ کی گر می سے ہاتھ تا پے ہیں ، نواز شریف انہی کی غیر آ ئینی خوا ہشات اور نقطہ نظر کا ترا شا ہوا بت تھا مگر اس ساری صو رت حال سے بر آ مد کیا ہوا؟ اس کو چہ ء ملا مت کے سفر سے ہا تھ کیاآ یا؟ جس وزیر اعظم کی اتھارٹی سے زیا دہ مقا می ایس ایچ او کی اتھا رٹی میں زیا دہ دم خم نظر آ رہا ہو ایسے وزیر اعظم کے لئے نا حق رات کے اند ھیرے میں قو می مفاد کے سبق کی بات کر رہے ہیں۔
قو می مفاد کے نام پر رات کے اندھیرے میں جو کچھ ہوتا آ یا ہے اس کا حساب کیا جا ئے تو اس قوم نے آ مریت کے وہ قرض بھی اتا رے ہیں جو وا جب بھی نہیں تھے ،جمہو ریت کے احتساب کا پیما نہ تو کرپشن کو قرار دیا جا رہا مگر چارمارشل لاؤں نے اس ملک کی جو حا لت بنا ئی ہے اس شرمندگی سے آ نکھ چرا نے کی کو شش ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ جس دو رمیں لو گوں نے ڈھا کہ ڈو بتے دیکھا اس دور کی شا میں بھی انہیں پُر رو نق لگتی ہیں
وزیر اعظم شا ہد خا قا ن عبا سی سے ہما ری گزارش ہے اب وہ جناب اسحٰق ڈار کا دفا ع کر نے کی بجا ئے طرزِ حکو مت بہتر بنا نے کا نصب العین اپنے سا منے رکھیں، دا من اس کو شش میں بھیگتا ہے توبھیگنے دیں، کچھ اپنے روٹھتے ہیں تو روٹھنے دیں، اس راہ میں کچھ کا نٹے دا من گیر ہو تے ہیں تو ہو نے دیں، بہتر تر جیحات اور بحران سے نکلنے کی حکمت عملی میں اتنا دم خم ہو نا چا ہئے جب چا ہا پو ری طاقت سے دامن نچوڑ کے رکھ دینا چا ہئے، در حقیقت اس وقت اسحٰق ڈار سے جان چھڑا نے کا مطب آ لو دگیوں سے تر دامن کو پو ری قوت سے نچوڑنا ہے، انکی وزارت عظمیٰ کے پہلے مر حلے میں اگر کو ئی فیصلہ کن لمحہ آن پہنچا ہے تو انہیں بہتر فیصلہ کر نے میں دیر نہیں کر نی چا ہئے وگر نہ انہوں نے وہی پرا نی روش رکھی تو سول ملٹری تنا ز عہ انہیں پستی کی جا نب کھینچتا رہے گا۔
شا ہد خا قان عبا سی کو اپنی حکو مت غلطیوں سے سرا سر پاک بھی نہیں بنا نی چا ہئے، سیا ست کو سیا ست بنا ئے رکھنے کے لیے خا رجہ پا لیسی کے میدان میں جو پو زیشن ان کی حکو مت نے لی ہے اسے جا ری رکھنا چا ہئے ۔کا میا بی کا معیار تو تب بنے گا جب اس طرح کی خرا بیاں راہ میں آ ڑے آ ئیں گی
سیا ست کے ایسے وا عظوں کے گروہ کی ہر وقت ان پر نظر ہے اگر انہوں نے اپنی تر جیحات درست سمت میں شروع نہ کیں تو پھر جمہوریت اور ان کی سیا ست سول ملٹری کے صحرا میں غا ئب ہو جا ئے گی۔پا نامہ انکشا فات اور میاں نواز شریف کی اقتدار میں مو جو دگی کے وقت اخلاقی روایات کا حوا لہ ٹھیک تھا مگر ان کی اقتدار سے بیدخلی کے بعد منتخب وزیر اعظم شاہد خا قان عبا سی کو اقتدار سے با ہر نکا لنے کا نیا فا رمو لا نواز شریف کی مزا حمت کا راستہ مزید صاف کر نے کے مترادف ہو گا۔
آ ئین کے تحت وزیر اعظم کی تا بع قوتوں نے ان کے ما وراء آ ئین فر مو دات پر توجہ دی تو یہ احتساب کے تا بوت میں آ خری کیل ٹھو نکنے کے مترادف ہو گا۔ اب یہ لازم ہے ان کے بے سرو پا خیا لات کا فیض ( جن ) بو تل میں بند رہے تو اچھا ہے ۔ مجھے حیرت ہے ان کے خیال کی بلندیوں کا نصب العین کیا ہے؟ ان کے اس ارادے اور مقصد کے پردے کے پیچھے محض تا ریکی اور آ مریت کے اندھیرے کے سوا کچھ نہیں، کسی رات بادہ و سا غر اگر خا لی بھی رہ جا ئے تو ما یوسی اتنی نہیں بڑ ھنی چا ہئے کہ قلم دلیل اور آ ئینی تقا ضوں کا راستہ بھول جا ئے، عقل و ادراک کے سا رے سہارے بجھ جا ئیں اور آ پکی ہرپیاس سیراب نہ ہو سکے،ایک ایسا دا نشور اور قلم کار جو پہلو میں دہکتا ہوا دل اور چہرے پر چمکتی ہو ئی پیشا نی رکھتا ہو وہ ایک بجھے ہو ئے دل اور سو کھے ہو ئے خیال کے ساتھ رات کے اند ھیرے میں وزیر اعظم کے ساتھ زور زبر دستی کر نے کا مشورہ دے تو حیرت ہوگی