اثاثہ جات ریفرنس،استغاثہ کے گواہ طارق جاوید پر جرح مکمل،اسحاق ڈار کیخلاف تمام اکاﺅنٹس کی تفصیلات عدالت میں پیش
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کیخلاف احتساب عدالت میں اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت،کیس کی سماعت جج محمد بشیر نے کی،وفاقی وزیر خزانہ اپنے وکلاءکے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ استغاثہ کے 2 گواہ طارق جاوید اورشاہد عزیز بھی موجود تھے،اس موقع پر سیکیورٹی کیلئے پولیس اورایف سی کے 200اہلکارتعینات کئے گئے،وفاقی وزراءدانیال عزیزاورانوشہ رحمان عدالت میں موجودتھے،دوران سماعت استغاثہ کے گواہ طارق جاوید نے اسحاق ڈار، ہجویری مضاربہ کمپنی سمیت دیگر کے بینک اکاﺅنٹس کی تفصیلات عدالت میں پیش کیں،عدالت میں بیان قلمبند کرواتے ہوئے طارق جاوید کا کہناتھا کہ کمپنی اکاﺅنٹ 3افراد عبدالرشید میاں، نعیم محبوب، ندیم بیگ چلاتے تھے،14 اکتوبر 2000 کو بینک اکاو¿نٹ کی اسٹیٹمنٹ شروع ہوئی اوربینک اسٹیٹمنٹ صفحہ 35 سے 39 تک فوٹو کاپی پر مشتمل ہے، میں 1991 ءسے البراکہ بینک سے وابستہ ہوں ،نیب نے مجھے بینک کے ذریعے بلوایاجس میں تصدیق شدہ دستاویزات پیش کرنے کا کہا گیا ،17 اگست کو ایک اکاﺅنٹ کی تفصیل لے کر نیب گیااورنیب لاہور کووفاقی وزیر خزانہ کی تمام دستاویزات پیش کیں ،گواہ کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار نے 1991 ءمیں لاہور کے بینک میں اکاﺅنٹ کھلوایا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بے نامی دار کو علم ہونا چاہئے کہ اس کی جائیداد زیربحث ہے ،نیب کی دستاویزات مکمل نہ ہونے عدالت نے نئی درخواست کے ساتھ مسنگ دستاویز جمع کرانے کی ہدایت کردی ،احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں،تصدیق شدہ کاپی منگوانے کا حکم دے دیتے ہیں۔
اسحاق ڈار کے وکیل خواجہ حارث نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ پیش کی گئیں دستاویزات گواہ نے تیارکیں نہ اسکی تحویل میں تھیں، کیایہ کاغذات اصل ہیں؟،ان کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی جائیداد ہے ہی نہیں ،انہوں نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ دستاویزات مکمل نہیں ہیں، اوریہ توبہت متنازع ہے،ایک دستاویز آنے کے بعد اضافی دستاویز نہیں آسکتیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ اب آپ مضمون ڈھونڈیں گے تو وہ ملیں گے نہیں، گواہ ان کے ہاتھ میں ہے اور جرم ان کو ثابت کرنا ہے،آپ انہی دستاویزات کی بنیاد پر آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو مقدمہ 2دن میں ختم ہوجائیگا۔وکیل اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پیش کی گئیں دستاویزات تصدیق شدہ نہیں ،قانون کے مطابق درست ثابت ہونے تک بطور شہادت استعمال نہیں کی جاسکتیں۔انہوں نے کہا کہ 14 اکتوبر 2000 کو بینک اکاﺅنٹ کی اسٹیٹمنٹ شروع ہوئی لیکن 2006 ءکے بعد کوئی ٹرانزیکشن نہیں ہوئی ،ہمارے اعتراضات کو ریکارڈکا حصہ بنایا جائے۔ الیکٹرانک اسٹیٹمنٹ کو بطور پرائمری ثبوت نہیں لیا جاسکتا،اس ریکارڈ پر عدالت کیس چلانا چاہے تو چلا لے،ہم نے عدالت عظمیٰ میں بھی کہاتھا اس طرح کیس 2دن میں ختم ہو سکتا ہے،الیکٹرانک ٹرانزیکشن ایکٹ 2000 کی شق 12 کا حوالہ ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے،دیکھنا ہے کہ تصدیق شدہ کاپی کا ثبوت موجود ہے کہ نہیں۔
نیب کے وکیل نے دستاویزات مکمل نہ ہونے پرسماعت میں15 منٹ کا وقفہ کرنیکی استدعاکرتے ہوئے کہا کہ دستاویز میں ایک صفحہ مسنگ ہے وہ نئی درخواست کے ساتھ جمع کرادینگے ۔نیب پراسیکیوٹرکا کہنا تھا کہ دستاویزات کو بطور شہادت استعمال کیا جاسکتاہے،یہ دستاویزات الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈیننس کے تحت پیش کی گئیں۔انہوں نے کہا کہ گواہ کی شہادت کو ابتدائی شہادت کے طور پر لیا جائے ۔عمران شفیق نے کہا کہ یہ عدالت کا کام ہے کہ وہ شہادت کو بنیادی شہادت تسلیم کرے،وکیل صفائی کا اعتراض درست نہیں۔
سماعت میں وقفے کے بعد خواجہ حارث نے گواہ طارق جاوید سے جرح کی ،اس دوران استغاثہ کے گواہ نے خواجہ حارث کے سوالوں کاجواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تفتیشی افسر سے کوئی بات نہیں چھپائی، میرا 17 اگست 2017 کونیب میں کوئی بیان ریکارڈ نہیں ہوا،تفتیشی افسر نے 30 اگست کو میرا بیان ریکارڈ کیا،میری ڈیوٹی تھی کہ نیب کو مقدمے کے دستاویزات فراہم کروں،میں نے تفتیشی افسر کو نہیں بتایا کہ بینک کے ساتھ 1999 سے منسلک ہوںاور بینک اکاﺅنٹ3 افراد آپریٹ کررہے ہیں،نیب نے اسحاق ڈار اور تینوں بچوں کے بینک اکاو¿نٹس کی بھی تفصیل مانگی، اسحاق ڈار یا اس کے بچوں کا اس بینک میں کوئی اکاونٹ نہیں تھا،گواہ طارق جاوید نے کہا کہ ٹرانزیکشن تفصیل پر دستخط کی بات تفتیشی افسر کو بتائی،تفتیشی افسر کو بتایا کہ اکاﺅنٹ اسٹیٹمنٹ پر برانچ اور آپریشن مینیجر نے دستخط کئے۔
مزید پڑھیں:۔حکومت سندھ نے رینجرز کے اختیارات میں تین ماہ کی توسیع کردی