اپنا پانی بچا لیں
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے‘ بہاولپور سے آگے چولستان کے علاقے میں جانا ہوا‘ جسے مقامی زبان میں روہی کہا جاتا ہے۔ کوئی ضروری کام تھا اور مجھے دو دن قیام کرنا تھا۔ راستے میں سخت پیاس لگی تو ایک چھوٹی سی بستی میں رک کر پانی مانگا۔ ایک بوڑھی خاتون نے مجھے گھڑے میں سے مٹی کے ایک پیالے میں نکال کر پانی دیا۔ میں پانی پینے لگا تو اس خاتون نے پیالے پر ایک کپڑا رکھ دیا اور کہا کہ اس کپڑے میں سے پیو۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ پانی میں کیڑے ہوتے ہیں وہ چھن جائیں گے۔ دوسری طرف ہم ہیں جو گاڑیاں بھی اس پانی سے دھوتے ہیں‘ جن کا دور دراز کے دیہات والے تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اور محض گاڑیاں دھونے ‘ نہانے اور چھڑکاؤ کرنے پر ہی کیا موقوف‘ ہم تو ہر سال 29ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں ضائع کر رہے ہیں اور احساسِ زیاں تک نہیں۔
یاد رہے کہ ایک ایکڑ فٹ پانی ‘ پانی کی وہ مقدار ہے جو ایک ایکڑ جگہ پر ایک فٹ گہرے پانی سے بنتی ہے۔ یہ 43,560 کیوبک فٹ پانی ہوتا ہے۔ یہ سارا پانی بڑے ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے ضائع کرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ وی او اے کو جاری کی گئی خصوصی رپورٹ کے مطابق 27 ملین سے بھی زیادہ پاکستانی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر کالا باغ ڈیم بن چکا ہوتا تو آج پانی قلت اور توانائی کے بحران کی صورتحال یہ نہ ہوتی۔ آج بھی اگر اس معاملے پر غور کر لیا جائے اور اگر اس ڈیم کی تعمیر شروع کر دی جائے تویہ 2023ء میں مکمل ہوسکتا ہے ۔ اس میں 6.1 ایم اے ایف پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا، جس سے وسیع رقبے پر آب پاشی ممکن ہو گی اور3 ہزار 600 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔
پاکستان میں 75فیصد پانی گلیشئرز اور 25 فیصد بارشوں سے حاصل ہوتا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں درجہ حرارت بڑھ رہاہے‘ جس کی وجہ سے گلیشئرز کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ اگر درجہ حرارت بڑھنے کی رفتار کم کرنے کے لئے اقدامات نہ کئے گئے تو ایک دن آئے گا کہ دریاؤں اور ندی نالوں میں بھی پانی دستیاب نہ ہو گا۔اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں صرف دو تین ماہ کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہی موجود ہے۔ یعنی جمع کیا گیا پانی استعمال کر لیں اور مزید پانی نہ آئے تو ہمارے پاس آب پاشی کے لئے کیا‘ پینے کے لئے بھی پانی نہ بچے۔ پاکستان کو پانی کے جس طرح کے مسائل کا سامنا ہے اس کے نتیجے میں کاروبار، کھیت اور آبادیوں کو قحط جیسی سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پانی کی قلت کے باعث ہمارا ملک براہ راست ہی بالواسطہ طور پر بھی متاثر ہو رہا ہے‘ جس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے‘ جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان 180 ممالک کی فہرست میں 36 ویں نمبر پر ہے جہاں پانی کی کمی کی وجہ سے حکومت، معیشت اور عوام تینوں شدید دباؤ میں ہیں۔
حکومت کی ناقص حکمت عملی اور منصوبہ بندی‘ آبادی میں اضافہ، شہروں کی طرف ہجرت، کھیتوں میں زیادہ پانی کی ضرورت والی کاشت کاری، صنعتوں کا پھیلاؤ، ناقص انفراسٹرکچر، لیکیج کی وجہ سے سپلائی میں کمی‘ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں کی شرح میں کمی‘ گلیشئرز کا تیزی سے پگھلنا اور بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی ایسے عوامل ہیں جو پانی کی فراہمی میں رکاوٹ یا تخفیف کا باعث بن رہے ہیں۔ میری رائے میں ان سارے مسائل کا حل مندرجہ ذیل نکات پر عمل کرنا ہو سکتا ہے۔
* پانی کے ذخائر اور انفرا اسٹرکچر میں اضافہ، پانی کے مسائل کے بارے میں شعور پیدا کرنا۔ لوگوں کو بتانا کہ پانی کس قدر بیش قیمت ہے‘ اس لئے وہ اس کا بے جا استعمال نہ کریں۔ پانی ضائع بھی مت کریں۔ پانی کے بہتر اور کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کے لئے سکولوں میں اور میڈیا پرمہم چلائی جائے۔
* بڑے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہے‘حکومت کو اس سلسلے میں جلد فیصلے کرنا ہوں گے۔
* صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکومت کو زراعت اور توانائی کے شعبوں کو مربوط کرنا ہو گا۔
* بارش کے پانی سے زیادہ سے زیادہ کاشتکاری کی منصوبہ بندی کرنا۔
* گاڑیاں دھونے‘ سڑکوں پر چھڑکاؤ اور پودوں کے لئے ری سائیکلڈ پانی کا استعمال کرنا۔
* سپرنکلڈ اری گیشن کا دائرہ وسیع کرنا تاکہ مزید فصلوں کے لئے پانی بچایا جا سکے۔
* دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی کی حوصلہ شکنی کرنا۔
* عام استعمال کے لئے بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے ممکنات کا جائزہ لینا۔ بھارت میں ایسا تجربہ کیا گیا ہے‘ جو کامیاب بھی ہے۔ نیشنل جیوگرافک کی ایک رپورٹ کے مطابق آبی ماہرین نے ذخیرہ کئے گئے بارش کے پانی کو عام استعمال کے لئے بہتر پایا ہے اور کہا ہے کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے اس کا دائرہ وسیع کیا جانا چاہئے۔
* گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لئے پاکستان کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ اس کے لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ شجرکاری کی ضرورت ہے۔
* پانی کے استعمال کے بارے میں معلومات کو سکولوں کے نصاب کا حصہ بنانا تاکہ جب بچہ بڑا ہو تو اسے پوری طرح ادراک ہو کہ پانی کم سے کم استعمال کرنا ہے اور اسے ضائع ہونے سے بچانا ہے۔
* اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارت کے ساتھ آبی تنازعات طے کرنے کے لئے جلد از جلد ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ کوئی دوسرا ملک اس سلسلے میں ہماری مدد نہیں کرے گا۔ یہ مسئلہ ہمیں خود ہی حل کرنا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع کئے جائیں اور اگر وہ اس کے لئے تیار نہیں ہوتا تو پھر یہ معاملہ عالمی برادری کے سامنے رکھا جائے اور ہر بین الاقوامی فورم پر اس پر بات کی جائے۔ امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پاکستانی سمجھتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے دریاؤں پر ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کا پانی رک رہا ہے یہ اقدام 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ناقص پالیسیاں اور حکومت کی غفلت بھی آبی مسائل کی جڑ ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ حکمران اس غفلت کو ترک کریں اور پانی کے وسائل بڑھانے اور اس کے ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافہ کرنے کے سلسلے میں فوری اقدامات کریں۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔