جرنیل صحابہ رضی اللہ عنہم

جرنیل صحابہ رضی اللہ عنہم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

محمد عبید الرحمن، بہاولپور
اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ہر ہر صحابی جرنیل تھا۔ کیونکہ جیسی جوانمردی، قوت، شجاعت، دلیری، عزم، ہمت اور قربانی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے میدان جنگ میں پیش کی، اور جیسی جنگیں انہوں نے لڑیں، اس کی نظیر نہ کوئی آج تک پیش کر سکا ہے اور نہ تا قیامت پیش کر سکتا ہے۔۔۔ یہ انہی کی قربانی اور انہی کے جہاد کی برکت تھی کہ چشم زدن میں اسلام عرب کے صحراؤں سے نکل کر مشرق و مغرب میں پھیلتا چلا گیا۔۔۔ اور دنیا کی بڑی بڑی منظم فوجیں ان کے سامنے دم نہ مار سکیں ۔۔۔ اور پھر یہ بات بھی تو ماننے کی ہے کہ۔۔۔ جیسے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اخلاقی، تعلیمی، معاشرتی تربیت قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی ۔۔۔ اسی طرح ان کی جہادی تربیت بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے فرمائی تھی۔۔۔ پھر کیا خیال ہے ، ایسے لوگوں سے بڑا باتدبیر اور ماہر جنگجو اور جرنیل کوئی ہو سکتا ہے؟۔۔۔ یہ وصف اگرچہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں پایا جاتا تھا۔۔۔ لیکن جماعت صحابہ میں سے بعض حضرات میں یہ وصف پوری آب و تاب سے چمکا۔۔۔ جن میں سے چند ایک کا مختصر مختصر تذکرہ پیش خدمت ہے۔
(1) حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
مضبوط گٹھا ہوا اور پھرتیلاجسم، سرو قد، کشادہ سینہ، بارعب چہرہ، عقابی نگاہیں، بلند خیالی، شعلہ نوائی اور پختہ ارادی کا قابل رشک نمونہ، ظاہری و باطنی حسن و جمال اور جاہ و جلال کا پیکر، شجاعت، بہادری اور جرأت میں بے مثال، شہسواری، نیزہ بازی اور شمشیر زنی کا ماہر، بے خوف، زندہ دل اور مہم جو، غزوۂ اُحد میں مہارت، جرأت مندی اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجاہدین کا شیرازہ بکھیرنے والا جوان رعنا، غزوۂ موتہ میں اپنی شجاعت اور حسن تدبیر سے مٹھی بھر مجاہدین کو دشمن کے نرغے سے سلامتی و حفاظت سے نکال لانے والا جواں مرد و مدبر قائد، روم و فارس کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دینے والا ایک عظیم جرنیل، میدان کا رزار میں دشمنوں کی صفوں کو چیرنے والا ایک بہادر و نڈر جنگجو، اعدائے اسلام کے سروں پر لٹکنے والی شمشیر بے نیام، جس کی بہادری و بے جگری سے کفار کے دل دہشت زدہ ہو گئے، جس کے طوفانی حملوں اور فتوحات سے دنیا محو حیرت ہو گئی، جسے شاہ امم سلطان مدینہ ﷺ نے ’’سیف اللہ‘‘ (اللہ کی تلوار) کا لقب دے کر نشان حیدر عطا کیا، جو پوری دنیا کی عسکری تاریخ میں ایک عظیم جرنیل کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے، فتح و نصرت جس کی قدم بوسی کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی تھی، جس کی جنگی مہارت کے اپنے تو کیا بیگانے بھی معترف تھے۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بچپن ہی سے نہایت پھرتیلے، چاق و چوبند اور جرأت مند تھے۔ قبیلہ بنو مخزوم کے سردار ولید بن مغیرہ کے فرزند ارجمند ہونے کے سبب قبیلے کے ہر فرد کی آنکھ کا تارا تھے۔ جوان ہو کر آپ کے تدبر اور شجاعت کا رنگ اور نکھرا۔ آپ بنو مخزوم کے قابل رشک جوانوں میں شمار ہونے لگے۔ سڈول جسم میں بلا کی کشش تھی، دور جاہلیت میں اشراف میں شمار ہوتے تھے۔ بدر سے لے کر حدیبیہ تک قریش کے لشکر کی کمان ان کے سپرد رہی، اس کے بعد ان کا سینہ اسلام کی نورانی کرنوں سے منور ہو گیا۔ ان کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بھی نہایت دلچسپ و دل آویز ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام کے ہر معرکے میں شریک رہے اور بہت سے معرکوں میں سپہ سالار بنائے گئے۔ روم و فارس کی فتوحات میں آپ رضی اللہ عنہ کے جوہر کھل کر سامنے آئے اور آپ نے ایسی تاریخ رقم کی جو تاقیامت بھلائی نہ جا سکے گی۔ دمشق آپ کے ہاتھوں فتح ہوا۔ آپؓ کے جنگی کارنامے مشہور و معروف ہیں۔
نام و نسب
’’خالد بن ولید بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم القرشی المخزومی۔‘‘
والدہ کا نام: لبابہ بنت حارث۔ یہ ام المؤمنین حضرت میمونہ بنت حارث کی بہن تھیں۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آپ رضی اللہ عنہ کے ’’خالو‘‘ ہوئے۔
معرکے
جنگ موتہ، فتح مکہ، غزوۂ حنین، غزوہ طائف، غزوہ بنی المصطلق، غزوۂ تبوک، سریہ دومۃ الجندل، سریہ نجران، طلیحہ بن خویلد اور مالک بن نویرہ کی سرکوبی، مسیلمہ کذاب کی سرکوبی اور سرزمینِ عراق کی پندرہ جنگیں۔
رحلت
21ھ ؁ کو (علی اختلاف الاقوال) مدینہ منورہ یا حمص میں راہی عالم بقا ہوئے۔ وفات سے قبل اپنا گھوڑا اور اسلحہ جہاد کے لئے وقف فرما دیا اور جاتے جاتے اپنے شوقِ شہادت کا عجیب انداز میں اظہار فرما گئے اور ساتھ ساتھ بزدلوں کو پیغامِ بیداری دے گئے، ملاحظہ کیجئے:
’’لقد شہدت ماءۃ زحف أو زھاء ھا، و ما فی بدنی موضع شبر الا و فیہ ضربۃ أو طعنۃ أو رمیۃ، و ھا أنا اموت علی فراشی کما یموت العیر، فلا نامت أعین الجبناء، و ما من عمل أرجیٰ من ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ و انا متترس بھا۔‘‘
’’میں نے سو سے زیادہ جنگیں لڑیں، میرے بدن پر کوئی ایک بالشت جگہ بھی ایسی نہیں جہاں تلوار، تیر اور نیزے کا زخم نہ ہو، اور دیکھو! میری موت بستر پر آ رہی ہے، پس بزدلوں کی آنکھیں (کبھی میٹھی نیند) نہ سو سکیں۔ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ سے زیادہ امید والا عمل اور کوئی نہیں اور میں اسی کو ڈھال بنائے ہوئے ہوں۔‘‘
(اسد الغابہ)
رضی اللہ عنہ ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(2) حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ
خوش شکل، خوش گفتار، ہنس مکھ، اکہرا جسم، دراز قد، خوش حال، تیکھا نین و نقشہ، منکسر المزاج، با رعب و حیا دار، جلال و جمال کا پیکر، حلقۂ یاراں میں ریشم کی طرح نرم اور رزم حق و باطل میں فولاد کی طرح سخت، اگلے دو دانت غزوۂ احد میں سرور عالم ﷺ کے سر مبارک میں دھنسی ہوئی خود کی کڑیاں نکالتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔ امانت و دیانت کی بے مثال علامت، جسے سرور عالم ﷺ نے ’’امین الامت‘‘ کا لقب دے کر ممتاز بنا دیا۔
نام عامر بن عبداللہ بن جراح تھا لیکن ابو عبیدہ بن جراح کے نام سے مشہور ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’قریش میں تین شخصیات ایسی ہیں جن کے چہرے سب لوگوں سے بڑھ کر حسین، جن کا اخلاق سب سے عمدہ اور جن میں حیا سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اگر وہ کسی سے گفتگو کریں تو گویا الفاظ مصری کی ڈلیاں محسوس ہوں۔ کوئی ان کی طرف دیکھے تو دیکھتا ہی چلا جائے۔ میری نظر میں وہ شخصیات یہ ہیں:ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ۔
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کا شمار ان صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں ہوتا ہے، جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں سبقت لی۔ آپ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے بعد دوسرے روز ہی ان کی دعوت قبول کرتے ہوئے مسلمان ہو گئے تھے۔
نام و نسب
’’عامر بن عبد اللہ بن الجراح بن ہلال بن اُھیب بن ضبہ بن الحارث بن فِہر بن مالک بن نضر القرشی الفہری۔
آپ رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
معرکے
اسلام قبول کرنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ حق و باطل کے معرکوں میں پیش پیش رہے اور سپہ سالار بھی بنائے گئے۔ چند مشہور معرکے یہ ہیں۔
غزوۂ بدر، غزوہ اُحد، غزوۂ خیبر، معرکہ ذات الخبط میں قیادت، غزوۂ خندق، غزوۂ بنو قریظہ، جنگ سلاسل، جنگ دمشق، معرکۂ سہل،معرکۂ حمص ، جنگ یرموک، غزوۂ حدیبیہ،جنگ یرموک میں لشکر کے ایک حصے کی سپہ سالاری۔ ’’فاتح حمص‘‘ کا اعزاز آپ رضی اللہ عنہ کے سینے پر ثبت ہوا۔
رحلت
18ھ ؁کو طاعون عمواس میں شہید ہوئے۔
رضی اللہ عنہ ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(3) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
لمبا قد، گٹھا ہوا سڈول جسم، کڑیل جوان، گھنگھریالے بال، چوڑا سینہ، گندمی رنگ، پاکیزہ عادات و اطوار، خشوع و خضوع سے آراستہ، جرأت و شجاعت اور تحمل و بردباری کا خوگر، عابد اور شب زندہ دار، سخاوت، انکساری، ایثار، قربانی اور خشیت الہٰی جیسے اوصاف حمیدہ سے متصف، ان خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں سے ایک جنہیں رسول اللہ ﷺ نے زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی۔ اور وہ جلیل القدر صحابی جن کے متعلق شاہ امم ﷺ نے یوں دعا کی:
اللھم استجب لسعد اذا دعاک۔
’’یا اللہ! جب سعد آپ سے دعاء مانگیں تو ان کی دعاء قبول فرمانا۔‘‘
(ترمذی۔ کتاب المناقب، 5/ 607)
بیعت رضوان میں شریک ہو کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرتے ہوئے قرآن حکیم میں اپنا نام درج کرانے والے، غزوۂ بدر میں شرکت کا اعزاز حاصل کرنے والے نڈر سپاہی، غزوۂ احد میں دشمن پر تیروں کی بوچھاڑ کرنے والے تجربہ کار تیر انداز، جن سے خوش ہو کر شاہ امم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ارم فداک امی و أبی۔
’’سعد تیر چلاؤ! تم پر میرے ماں باپ قربان۔‘‘
(صحیح البخاری۔ 4/ 47، 5/ 124)
آپ رضی اللہ عنہ سترہ سال کی عمر میں مسلمان ہوئے، دار ارقم میں تربیت حاصل کی، شعب ابی طالب میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مصائب و مشکلات کو خندہ پیشانی سے جھیلا۔ پوری زندگی ایک عظیم جرنیل کی حیثیت سے میدان جنگ میں کارہائے نمایاں سر انجام دیتے رہے۔ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ عام مسلمانوں کے لئے بالعموم اور مجاہدین کے لئے بالخصوص مشعل راہ ہے۔
نام و نسب
’’سعد بن مالک (ابی وقاص) بن اُھیب بن عبد مناف بن زھرہ بن کلاب القرشی الزھری۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہ بھی عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ آپؓ رشتے میں حضور اکرم ﷺ کے ماموں بنتے ہیں، کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ حضرت آمنہ کے چچا زاد بھائی ہیں۔
معرکے
غزوۂ بدر، غزوہ اُحد، غزوۂ خندق سمیت تمام جنگوں میں نبی کریم ﷺ کے ہمرکاب رہے۔ حضور ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد فتوحاتِ اسلام میں آپ رضی اللہ عنہ نے قابل رشک کردار نبھایا۔ فارس کے خلاف جنگوں کی کمان اکثر و بیشتر آپ رضی اللہ کے ہاتھ میں رہی۔ جنگِ جسر، جنگ عراق، جنگِ قادسیہ آپ رضی اللہ عنہ کی جرأت و شجاعت کی گواہ ہیں، مدائن کے فاتح بھی آپ ہیں اور کوفہ شہر بھی آپ رضی اللہ عنہ نے تعمیر کیا۔
اسلام کے پہلے تیر انداز بھی آپؓ ہیں اور اسلام میں اللہ تعالیٰ کی خاطر سب سے پہلے اللہ کے دشمنوں کا خون بہانے کا سہرا بھی آپ رضی اللہ عنہ کے سر سجا، جب آپ رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ میں ایک مشرک کو اسلام کی توہین کرنے پر اونٹ کا جبڑا مار کر لہو لہان کر دیا تھا۔
رحلت
آپ رضی اللہ عنہ کی وفات حسرت آیات55 ھ ؁ کو مقام عقیق میں ہوئی، وہاں سے آپؓ کو مدینہ منورہ لایا گیا اور مسجد نبوی میں نماز جنازہ اداء ہوئی۔
رضی اللہ عنہ ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(4) حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
دراز قد، سرخ و سفید رنگ، خوب رو، روشن چہرہ، مضبوط و پھرتیلا جسم، گھنگریالے بال، تجربہ کار، دولت مند اور فیاض تاجر، حکمت و دانائی اور دین و دانش کا پیکر، صدق و صفا اور جود و سخا کے خوگر، غیرت، حمیت اور خود داری کا بہترین نمونہ، اُن خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں سے ایک جنہیں دنیا میں جنت کی بشارت دی گئی، دومۃ الجندل کے لئے امیر لشکر نامزد کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ جن کے سر پر اپنے ہاتھ سے عمامہ باندھا، تیس سال کی عمر میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، پہلے حبشہ اور پھر مدینہ منورہ کی طرف دوہری ہجرت کا اعزاز حاصل کیا، زمانہ جاہلیت میں اُن کا نام عبدِ عمرو تھا، لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد رسول اقدس ﷺ نے اُن کا نام عبدالرحمن رکھ دیا، جو بعد میں عبدالرحمن بن عوف کے نام سے مشہور و معروف ہوا، سلیم الفطرت ایسے تھے کہ شراب اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی ترک کر دی تھی۔
نام و نسب
’’عبد الرحمن بن عوف بن عبد عوف بن عبد بن الحارث بن زھرہ بن کلاب بن مرہ القرشی الزھری۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہ بھی عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
معرکے
بدر و احد سمیت تمام جنگوں میں شریک ہوئے۔ مشہور معرکے دومۃ الجندل اور غزوۂ تبوک ہیں۔
رحلت
آپ رضی اللہ عنہ نے 31 ھ میں وفات پائی، وفات سے قبل پچاس ہزار دینار جہاد میں دینے کی وصیت فرمائی۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(5) حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ
شجاعت، بے خوفی، استقلال، علم و حکمت اور عقل و خرد کے پیکر، ذکاوت و فطانت، عزم و ہمت اور فصاحت و بلاغت کے دھنی، جذبات و عواطف، قلب و نظر اور احساسات پر مکمل قابو پانے والے جوان رعنا، پاک دامن، شریف النفس اور عبادت گزار راہنما، سیادت، قیادت، سیاست اور امارت میں یدطولیٰ رکھنے والے جرنیل، مشکلات و مصائب میں پھنسے ہوئے لشکر اسلام کو اپنے تدبر اور تجربہ کی بنا پر آن واحد میں چھٹکارا دلانے والے عظیم قائد، ہر بات کا برملا اظہار کرنے والے، جری، بہادر اور پر خطر وادیوں میں بے دھڑک کود پڑنے والے مدبر سپاہی، قد چھوٹا اور گھٹا ہوا، پیشانی کشادہ، چہرہ کھلا ہوا، آنکھیں سیاہ اور موٹی موٹی، دیکھنے والے کو یوں محسوس ہوتا جیسے کوئی سردار چلا آ رہا ہے۔ اگرچہ اس دور میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا لیکن عمرو بن عاصؓ نے اوائل عمر میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ جوانی قریش کے نوجوانوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے گزری، شعر و شاعری میں شغف محض دل کو بہلانے کے لئے تھا، پوری زندگی اس سے مدح سرائی یا ہجو گوئی کا کام نہ لیا۔
مال و دولت کو اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ تصور کرتے تھے، باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تجارت کو بطور پیشہ اختیار کیا، ان کا باپ عاص بن وائل عطریات کا بہت بڑا تاجر تھا، اسی آبائی پیشے کو اختیار کرتے ہوئے عمرو بن عاص اعلیٰ قسم کے عطریات لے کر شام، حبشہ، یمن اور مصر جایا کرتے تھے۔ اس طرح انہیں مختلف نوعیت کے قبائل اور شخصیات سے مل کر بہت سے تجربات حاصل ہوئے۔ مشکل مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں انتہائی زیرک اور تجربہ کار تھے۔ ان کے دوست و احباب اور قبیلے کے لوگ جب کبھی کسی مشکل مسئلہ کو حل کرنے سے عاجز آ جاتے تو وہ ان کے سپرد کر دیتے، یہ منٹوں میں مشکل ترین مسائل کو اپنی خدا داد صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے حل کر دیتے۔ ان کے قبیلے بنو سہم میں ان جیسا عاقل و فہیم انسان کوئی اور نہ تھا، میدان جنگ اور میدان سیاست میں قابل رشک کارنامے سر انجام دیے، دور جاہلیت میں قریش کی جانب سے سفیر بن کر حبشہ کے حکمران نجاشی کے دربار میں گئے، اسلام قبول کرنے کے بعد مبلغ اسلام کی حیثیت سے متعدد عرب قبائل کی طرف گئے، حالت کفر میں متعدد جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف خم ٹھونک کر آئے، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد شام، فلسطین، مصر اور شمالی افریقہ میں کفر و الحاد کے خلاف تہلکہ مچا دیا، یہاں تک کہ وہ ایک عظیم جرنیل کی حیثیت سے معروف ہو گئے۔ پورے علاقے میں ان کے رعب و دبدبہ کی دھاک بیٹھ گئی۔
نام و نسب
’’عمرو بن العاص بن وائل بن ہاشم بن سعید بن سہم بن عمرو بن ھُصیص بن کعب بن لؤی بن غالب القرشی السہمی۔‘‘
معرکے
آپ رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ سے چھ ماہ قبل اسلام قبول کیا، اور پھر کفر و اسلام کے معرکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جن میں سے چند مشہور یہ ہیں۔
’’سواع‘‘ نامی بت کو توڑنے کی مہم، سریہ سلاسل، عراق، فلسطین اور شام کی جنگیں۔ ’’فاتح مصر‘‘ کا بیج آپ رضی اللہ عنہ کے سینے پر سجا۔
رحلت
آپ رضی اللہ عنہ کی وفات 43 ھ کو مصر میں ہوئی۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(6) حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
سید المؤمنین، شفیع المذنبین حضرت محمد ﷺ کے چچا زاد بھائی، سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے برادر حقیقی، لیکن عمر میں ان سے دس سال بڑے، یتیمیوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کے کام آنے والے، ہمدرد، فیاض اور سخاوت کے خوگر، عالی مقام مؤمن، حبشہ اور مدینہ کی جانب ہجرت کا اعزاز حاصل کرنے والے، میدان جہاد میں اپنے دونوں بازو کٹوانے کے بدلے دو پروں کے سہارے فرشتوں کے ساتھ جنت میں محو پرواز ہونے والے عظیم المرتبت مجاہد، پرسوز اور دل آویز انداز میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے خوش الحان قاری، فصاحت و بلاغت کے موتی پرونے والے کامیاب خطیب۔
جن کی جرأت، بے باکی اور حاضر جوابی سے عمرو بن عاص جیسا مشہور و معروف سیاستدان ورطۂ حیرت میں پڑ گیا۔
جنہیں شاہ امم، سلطان مدینہ ﷺ نے سیرت و صورت میں اپنی مشاہت کا مژدہ جانفزا سنایا۔
جنہیں لسان رسالت سے ذوالجناح، طیار اور ابو المساکین جیسے دلفریب القابات سے نوازا گیا۔
جن کی پیشانی کو چوم کر سروردو عالم ﷺ نے رفعت و عظمت کی بلندیوں پر پہنچایا۔
نام و نسب
’’جعفر بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی القرشی الہاشمی۔‘‘
معرکے
آپ رضی اللہ عنہ 7 ھ میں فتح خیبر کے موقع پر حبشہ سے مدینہ منورہ آئے ۔ 8 ھ میں غزوۂ موتہ کے لئے دربار رسالت سے مقرر ہونے والے تین سپہ سالاروں اور جرنیلوں میں سے ایک آپ تھے۔
شہادت
غزوۂ موتہ میں شہید ہوئے۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(7) حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ
سرکا ر دو عالم ﷺ کے راز دان، مدائن کے درویش منش گورنر، لشکر اسلام کے تجربہ کار، بہادر اور دلاور جرنیل، میانہ قد، مضبوط سڈول اور گٹھا ہوا جسم، سفید چمکیلے دانت، جن سے بسا اوقات ہیرے کی مانند شعاع نمودار ہوتی، عقابی نگاہ جس سے اندھیرے میں بھی تیر کا نشانہ باندھنے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی، عالم، زاہد اور شب زندہ دار، حافظ قرآن اور عالم حدیث، غزوۂ احزاب میں اپنی ذہانت و فطانت، زود فہمی، احتیاط اور تدبر کا قابل رشک نمونہ پیش کرتے ہوئے رضائے مصطفیٰ ﷺ کا اعزاز حاصل کرنے والے خوش قسمت صحابی، شہید احد حسیل بن جابر العبسی الیمانی کے فرزند ارجمند عظیم صحابیؓ۔
نام و نسب
’’حذیفہ بن الیمان بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن جِروہ بن الحارث بن مازن بن قُطیعہ بن عبس العبسی۔‘‘
معرکے
احد کے بعد کے تقریباً تمام غزوات میں شریک رہے۔ جنگ نہاوند میں حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ رضی اللہ عنہ لشکر اسلام کے سپہ سالار بنے۔ ھمذان، رَی، دینور آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں فتح ہوئے۔
رحلت
36 ھ میں وفات پائی۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(8) حضرت ضرار بن ازور اسدی رضی اللہ عنہ
سرزمین خیبر کے دولت مند، آسودہ حال، خوبصورت، بہادر، جوان مرد، کڑیل جوان۔۔۔ قبیلہ بنو اسد کے دلاور۔۔۔ شمشیر زنی، نیزہ بازی، تیر اندازی اور گھڑ سواری کے ماہر شہسوار، رومیوں کے لشکر میں چشم زدن میں بھگڈر مچادینے والے بے خوف مجاہد، ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل قیمتی گلے کی ملکیت رکھنے والے، دھاک بٹھا دینے والے سخت کوش، سرفروش اور جانباز جرنیل، جن کے حملہ آور ہوتے ہی رومی پکار اٹھتے۔۔۔ ’’جِن آ گیا، جن آ گیا۔‘‘
نام و نسب
’’ضرار بن ازور (مالک) بن اوس بن جذیمہ بن ربیعہ بن مالک بن ثعلبہ بن دودان بن اسد بن خذیمہ۔‘‘
معرکے
جنگ یرموک، مرتدین کے خلاف جہاد، رومیوں کے خلاف جہاد، جنگِ دمشق،جنگِ اجنادین۔
رحلت
عہد فاروقی میں کوفہ میں وفات پائی۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
ّ(9) حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ
بہادر، غیور اور نڈر مجاہد، زیرک، حساس، دانشمند اور تجربہ کار جرنیل، فصیح و بلیغ، قادر الکلام اور بارعب قائد، نرم خو، فیاض، منصف مزاج، درد مند، کریم النفس اور سخاوت کے خوگر حکمران، اکہرے بدن میں بجلی کی سی تیزی رکھنے والے پھرتیلے نوجوان، کوفے کے گورنر اور طبرستان وجرجان کے فاتح، جن کے مجاہدانہ کارنامے تاریخ اسلام میں سنہری باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
نام و نسب
’’سعید بن العاص بن سعید بن العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف القرشی الاموی۔‘‘
معرکے
طبرستان، جرجان اور آذربیجان کی دوسری فتح آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ہوئی۔
رحلت
آپ رضی اللہ عنہ نے 59 ھ میں وفات پائی۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(10) حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ
میانہ قد، گھنے بال، خوبصورت چہرہ، سڈول جسم، ام المؤمنین حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے حقیقی بھائی، سرور عالم، خُلق مجسم ﷺ کی پھوپھی امیہ بنت عبدالمطلب کے نور چشم و لخت جگر، بھوک اور پیاس میں صبر کی انتہا کرنے والے، نبی اکرم ﷺ کے دست مبارک سے سب سے پہلے پرچم لے کر مجاہدین کے ایک قافلے کی قیادت کرنے والے خوش نصیب جرنیل۔
معرکے
اسلام کے پہلے سریے ’’سریہ عبد اللہ ابن جحشؓ‘‘ کے سپہ سالار مقرر ہوئے، غزوۂ بدر و احد میں شریک ہوئے۔
سلسلۂ نسب
’’عبد اللہ بن جحش بن ریاب بن یعمر بن صبرہ بن مرہ بن کثیر بن غنم بن دودان بن اسد بن خزیمہ الاسدی۔‘‘
شہادت
غزوۂ احد میں شہید ہوئے۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(11) حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ
جنگ موتہ میں قیادت کے فرائض سر انجام دینے والے، جنگ بدر میں شرکت کا اعزاز حاصل کرنے والے، غزوۂ سویق کے دوران دربار رسالت کی جانب سے مسند خلافت پر جلوہ افروز ہونے والے، تیس مجاہدین کی قیادت کرتے ہوئے خیبر کے مشہور و معروف یہودی اسیر بن رزام کو تہہ تیغ کرنے والے، سرور عالم ﷺ کی جانب سے خیبر کی زمین اور اس کے مالی وسائل کا تخمینہ لگانے کی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نباہنے والے، رزم و بزم میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھلانے والے مشہور جرنیل صحابی۔
نام و نسب
’’عبد اللہ بن رواحہ بن ثعلبہ بن امرئ القیس بن عمرو بن امرئ القیس الاکبر بن مالک الاغر بن ثعلبہ الانصاری الخزرجی۔‘‘
معرکے
تمام غزوات میں شریک رہے۔
شہادت
جنگ موتہ میں تیسرے نمبر پر لشکر اسلام کی قیادت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(12) حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ
ہجرت سے تقریباً سات سال پہلے مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قریش کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں، تبلیغی میدان میں آپ ﷺ پر مسلسل حزن و ملال، غم و اندوہ اور مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں۔ اسی تلاطم خیز دور میں آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں ایک خوشی کی لہر دوڑتی ہے، کسی نے آپ کو خوش خبری سنائی کہ ام ایمن کے گھر اللہ نے بیٹا عطا کیا ہے۔ یہ خبر سن کر آپ ﷺ کے روئے انور پر بے انتہا خوشی کے آثار دکھائی دینے لگے۔ یہ خوش قسمت نو مولود اسامہ بن زیدؓ تھے۔ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کو بھی رسول اکرم ﷺ کی اس بے انتہا خوشی پر کوئی تعجب نہ ہوا، کیونکہ سب اس نو مولود کے والدین کا حضور اکرم ﷺ کے ساتھ قریبی تعلق جانتے تھے۔ اسامہؓ کی والدہ برکت نامی ایک حبشی عورت تھیں جو ’’ام ایمن‘‘ کے نام سے مشہور ہوئیں اور یہ رسول اللہ ﷺ کی والدہ ماجدہ کی کنیز بھی رہ چکی تھیں۔ انہیں یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ جب رسول اکرم ﷺ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تو انہوں نے آپ ﷺ کو گود لیا اور آپ ﷺ کی نگہداشت کی۔ آپ ﷺ اکثر فرمایاکرتے تھے کہ ام ایمن میری ماں کی مانند ہے اور یہ میرے اہل بیت میں سے ہے۔ یہ تو ہے اس خوش نصیب نومولود کی والدہ محترمہ کا تعارف۔ رہا اس کا باپ تو وہ محبوب رسول ﷺ حضرت زید بن حارثہؓ ہیں، جسے آپ ﷺ نے اپنا منہ بولا بیٹا بنا یا ہوا تھا۔ سفر و حضر میں اسے آپ ﷺ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا اور راز دان رسول اللہ ﷺ ہونے کی سعادت بھی ان کے حصے میں آئی۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی ولادت پر تمام صحابہ کرامؓ بہت خوش ہوئے۔ صحابہؓ کے خوش ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ جو چیز رسول اللہ ﷺ کی خوشی کا باعث بنتی وہی صحابہ کرامؓ کی خوشی کا سبب ہوتی۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم ﷺ کے نواسے حضرت حسن بن فاطمہ رضی اللہ عنہما کے ہم عمر تھے۔ حضرت حسنؓ تو اپنے نانا رسول اکرم ﷺ کی طرح حسین و جمیل تھے، لیکن اسامہؓ اپنی حبشی والدہ ام ایمن کی طرح سیاہ رنگ اور چپٹی ناک والے تھے، لیکن رسول اللہ ﷺ دونوں سے یکساں پیار کرتے تھے۔ شفقت بھرے انداز میں اسامہؓ کو ایک ران پر بٹھا لیتے اور حسنؓ کو دوسری ران پر۔ کبھی دونوں کو اپنے سینے سے لگاتے اور یہ دعا کرتے:
’’الہٰی! میں ان دونوں بچوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی انہیں اپنا محبوب بنالے۔‘‘
غرضیکہ اسامہؓ کے ساتھ رسول اکرم ﷺ کو بہت پیار تھا۔ ایک دفعہ اسامہؓ دروازے کی دہلیز پر لڑکھڑا کر گر پڑے، جس سے پیشانی پر زخم آیا اور خون بہنے لگا۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اس کا خون صاف کردیں۔ صدیقۂ کائناتؓ کسی کام میں مصروف تھیں، اس طرف فوری توجہ نہ دے سکیں۔ نبی اکرم ﷺ نے خود آگے بڑھ کر اپنے دست مبارک سے حضرت اسامہؓ کی پیشانی سے بہتا ہوا خون صاف کیا۔
نام و نسب
’’اسامہ بن زید بن حارثہ بن شراحیل بن کعب بن عبد العزیٰ بن زید بن امرء القیس بن عامر بن نعمان بن عامر بن عبد ود بن عوف بن کنانہ بن بکر بن عوف بن عذرہ بن زید اللات بن رفیدہ بن ثور بن کلب بن وبرۃ الکلبی۔‘‘
معرکے
آپ رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں اور آپ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد جوش و خروش سے رزم حق و باطل میں شریک ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ عین آنحضرت ﷺ کی رحلت کے وقت بھی آپ رضی اللہ عنہ ایک لشکر کے قائد و سپہ سالار تھے ۔ چند مشہور معرکے اور جنگیں جن میں آپ رضی اللہ عنہ نے داد شجاعت دی یہ ہیں۔ غزوۂ خندق، غزوۂ حنین، غزوۂ موتہ۔
رحلت
آپ رضی اللہ عنہ کی وفات 54 ھ کو مقام جرف میں ہوئی، جہاں سے آپؓ کو مدینہ منورہ لایا گیا۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(13) حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ
حسب و نسب کے اعتبار سے بنو مخزوم قبیلے کے سردار، عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھے جانے والے آتش جوان جرنیل، مال و دولت کے اعتبار سے قابل رشک زندگی بسر کرنے والے، تیر و تفنگ کے ماہر، تیز رفتار اتنے کہ منہ زور گھوڑا بھی ان کی گردِ پا کو نہ پہنچ سکے، سعد بن ابی وقاصؓ اور مصعب بن عمیرؓ کے ہم جولی۔ فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا۔
نام و نسب
عکرمہ بن ابی جہل بن ھشام بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم القرشی المخزومی۔‘‘
معرکے
فتح مکہ کے بعد کی اکثر جنگوں میں شریک رہے، خاص طور پر مرتدین کی سرکوبی میں آپ رضی اللہ عنہ نے لازوال کارہائے نمایاں سر انجام دئیے۔
شہادت
جنگ اجنادین یا جنگ یرموک میں داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(14) حضرت مثنیٰ بن حارثہ شیبانی رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ قبیلہ شیبان سے تعلق رکھتے تھے، سن 9 ہجری میں اپنی قوم کے وفد کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی خدماتِ عالیہ میں حاضر ہوئے اور کچھ گفت و شنید کے بعد اسلام قبول کر لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ بہت ذکی، بہادر، پاکیزہ نفس اور ذی رائے تھے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے ابتدائی دنوں میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے پہلے انہیں عراق کی مہم پر بھیجا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ہی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور مسلمانوں کو اہل فارس سے جنگ پر آمادہ کیا تھا۔ اہل فارس کے خلاف جنگ میں آپ رضی اللہ عنہ نے ایسی ایسی قربانیاں دیں اور ایسی مشقتیں اور تکلیفیں اٹھائیں کہ جن کا کوئی اور تصور بھی نہیں کر سکتا۔
نام و نسب
’’مثنٰی بن حارثہ بن سلمہ بن ضمضم بن سعد بن مرہ بن ذھل بن شیبان الربعی الشیبانی۔‘‘
معرکے
قبول اسلام کے بعد اکثر معرکوں میں شریک رہے، خاص طور پر اہل فارس کے خلاف جنگ میں آپ رضی اللہ عنہ نے لازوال داستان رقم کی۔
شہادت
14 ھ میں قس الناطف کی جنگ میں زخمی ہوئے اور جنگ قادسیہ سے پہلے شہید ہوئے۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(15) حضرت نعمان بن مُقَرِّن رضی اللہ عنہ
مُزینہ سرزمین عرب کا وہ خوش نصیب قبیلہ ہے جسے ایمان و یقین کے اعتبار سے بطور مثال پیش کیا جاتا تھا۔ یہ قبیلہ مدینہ منورہ کے قریب اس راستے پر رہائش پذیر تھا جو مکہ مکرمہ کی طرف جاتا تھا۔ محسن اعظم، سرورِ عالم، نیر تاباں، خلق مجسم، رسول اللہ ﷺ کے دنیائے فانی سے کوچ کر جانے کے بعد بہت سے عرب قبائل مرتد ہو گئے تھے، انہوں نے زکوٰۃ دینے سے صاف انکار کر دیا تھا، لیکن قبیلہ مزینہ کو یہ شرف حاصل رہا کہ یہ ایمان و یقین کا پہاڑ ثابت ہوئے اور بدستور زکوٰۃ دیتے رہے، نمازیں پڑھتے رہے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ نہ گھبرائے، نہ ڈگمگائے، نہ پائے استقلال میں لرزش آئی اور نہ دل میں کبھی بے یقینی پیدا ہوئی۔
حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ اسی قبیلہ کے سردار تھے۔ اپنے سات بھائیوں اور قبیلہ کے چار سو شہسواروں کے ساتھ بڑی شان و شوکت سے ایمان قبول کیا۔
نام و نسب
’’نعمان بن مقرن بن عائذ بن میجا بن ھُجیر بن نصر بن حبشیہ بن کعب بن عبد بن ثور بن ھدمہ بن لاطم بن عثمان بن عمرو بن أد بن طابخہ المزنی۔‘‘
معرکے
اسلام قبول کرنے کے بعد جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، فارسیوں کے خلاف بہت سی جنگیں لڑیں۔ مشہور زمانہ جنگ، جنگ نہاوند میں مسلمانوں کے سپہ سالار آپ رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ ’’اصبہان‘‘ آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں فتح ہوا۔
شہادت
21ھ کو جنگ نہاوند میں شہید ہوئے۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(16) حضرت شُرَحبِیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ
معرکہ یمامہ میں انتہائی شوق، ولولے اور قابل رشک جذبے کے ساتھ شریک ہونے والے جوان رعنا، سرورِ عالم ﷺ کی تربیت سے کندن بننے والے ایک عظیم سپاہی، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی قیادت میں میدان کا رزار میں حیرت انگیز کارنامے سر انجام دینے والے ایک بہادر، نڈر اور تجربہ کار مجاہد، ’’اردن‘‘ کے دروازے پر فاتحانہ دستک دینے والے ایک عظیم جرنیل، کاتب وحی کا اعزاز حاصل کرنے والے ایک قابل اعتماد صحابی، دعوت و ارشاد کے میدان میں اثر انگیز اسلوب اپنانے والے خوش اخلاق و خوش اطوار مبلغ، اردن میں عدل و انصاف کی بنیاد پر فرائض منصبی ادا کرنے والے ایک ہر دلعزیز گورنر۔
جسے پوری زندگی رسول اکرم ﷺ کا اعتماد حاصل رہا، جس نے ہر محاذ پر جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جس نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اسلام کی سربلندی کے لئے ہر دور میں نمایاں کردار اداء کیا۔ جو تاریخ اسلام میں شرحبیل بن حسنہ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔
نام و نسب
’’شرحبیل بن عبد اللہ ٖبن المطاع بن عبد اللہ بن الغطریف بن عبد العزیٰ بن جثامہ بن مالک بن ملازم بن مالک بن رھم بن سعد بن یشکر۔‘‘
معرکے
اسلام کی تمام اہم جنگوں میں شریک ہوئے۔ خاص طور پر غزوہ تبوک، مرتدین کے خلاف جہاد، جنگِ عراق، جنگِ یرموک، جنگِ دمشق۔
رحلت
18 ھ کو طاعون عمواس میں شہید ہوئے۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(17) حضرت قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ
لشکر اسلام کے ایک عظیم جرنیل، تسلیم و رضا کے پیکر، ملت اسلامیہ کے بطل جلیل، میدان جنگ کے ایک بہادر شہسوار، جرأت، شجاعت، عظمت اور دینی حمیت کا قابل رشک نمونہ، مشکل ترین لمحات میں لشکر اسلام کے کام آنے والے ایک تجربہ کار اور بہادر جنگجو، برق رفتاری سے مدمقابل پر چھا جانے والے ایک قوی ہیکل مجاہد۔
انہیں عہد نبوی ﷺ میں تو اپنی بہادری اور جنگی مہارت کے جوہر دکھانے کے چنداں مواقع میسر نہ آ سکے، کیونکہ یہ تاخیر سے حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے، البتہ جنگ قادسیہ، جنگ نہاوند اور مرتدین کے خلاف ہر معرکے میں جنگی مہارت کے ایسے نقوش چھوڑے جو تاریخ اسلام میں سنہرے باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سیدنا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کی بہادری، جوانمردی، برق رفتاری، ذود فہمی، شعلہ نوائی اور دشمن پر ماہرانہ حملہ آوری کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان کے متعلق ارشاد فرمایا:
’’لشکر میں قعقاع کی آواز ایک ہزار افراد پر بھاری ہے۔‘‘
نام و نسب
’’قعقاع بن عمرو التیمی۔‘‘
معرکے
فتح ایران میں لشکر کے ایک حصے کے سپہ سالار، جنگِ حیرہ میں چھاؤنی کے سپہ سالار، جنگِ یرموک، جنگِ قادسیہ، جنگ مدائن، جنگ نہاوند اور حروب ارتداد۔
(18) حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ
دراز قد، دلکش خد و خال، نورانی چہرہ، گداز دل، مضبوط اور گٹھا ہوا سڈول جسم، نیزہ باز، شمشیر زن اور ماہر شہسوار، پاکیزہ اخلاق، زاہد، عابد اور شب زندہ دار، میدان ہائے جنگ میں دشمنان اسلام پر کاری ضرب لگانے والے جرأت مند، بہادر اور دلاور جواں۔
نام و نسب
’’عتبہ بن غزوان بن جابر بن وُھیب بن نسیب بن زید بن مالک بن الحارث بن عوف بن الحارث بن مازن بن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس عیلان۔‘‘
معرکے
بدر و اُحد، خندق و خیبرسمیت تمام غزوات اور دیگر کئی معرکوں میں شریک رہے۔ ’’دستُ مِیسان‘‘ اور ’’ابلہ‘‘ کی فتح کی سعادت آپؓ کے حصے میں آئی۔
رحلت
17 ھ کو مقام ’’ربذہ‘‘ میں وفات پائی۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(19) حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ
یمن کے شاہی خاندان کا نامور و سجیلا جوان، قبیلہ بجیلہ کا ہر دلعزیز سردار، دراز قد، حسین و جمیل چہرہ، دلکش خد و خال، خوش لباس و خوش اخلاق، خوش اطوار و خوش گفتار، شیریں کلام و فصیح البیان۔
اتنی بے شمار خوبیوں کو دیکھتے ہوئے امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے انہیں ’’یوسف ثانی‘‘ کا لقب عطا فرمایا۔
نام و نسب
جریر بن عبد اللہ بن جابر بن مالک بن نصر بن ثعلبہ بن جشم بن عوف بن حزیمہ بن حرب بن علی بن مالک بن سعد۔‘‘
معرکے
’’ذو الخلصہ‘‘ نامی بت کدہ کو ڈھانے کی مہم، جنگِ حیرہ، جنگ قادسیہ، جنگِ یرموک، اہواز، تستر وغیرہ۔
رحلت
51 ھ کو وفات پائی۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(20) حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ
سلیم الفطرت، شریف النفس، ظریف الطبع، ذہین وفطین، فہیم وعقیل، خوش اخلاق و خوش اطوار، شیریں کلام و سحر البیان، فقیری میں سرمایہ سلطانی رکھنے والے بارعب وباوقار صحابی، جنہوں نے قیصر و کسریٰ کے دربار میں جان ہتھیلی پر رکھ کر جرأت و شجاعت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ دربار کے تمام حاشیہ نشین انگشت بدندان رہ گئے۔
نام و نسب
’’عبد اللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی بن سعد بن سہم بن عمرو بن ھصیص بن کعب بن لؤی القرشی السہمی۔‘‘
معرکے
بدر میں آپؓ کی شرکت مختلف فیہ ہے۔ البتہ بعد کی جنگوں میں شریک رہے۔ کسریٰ کے پاس آنحضرت ﷺ کا نامہ مبارک آپ رضی اللہ عنہ لے کر گئے تھے۔ قیساریہ کی جنگ میں رومیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور پھر رہائی پائی۔
رحلت
حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی خلافت میں مصر میں فوت ہوئے۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(21) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ
فتح مصر میں اہم کردار ادا کرنے والے، تجربہ کار، دلیر، بہادر اور نڈر جرنیل، شاہ مصر مقوقس کے دربار میں لشکر اسلام کی نمائندگی کا حق ادا کرنے والے ایک کامیاب سفیر، دربار خلافت کی جانب سے سرزمین فلسطین میں نامزد کردہ پہلے قاضی، اصحاب صفہ کو قرآن مجید کی تعلیم دینے پر مامور خوش نصیب صحابی، شب بیدار، خشیتِ الہٰی کے خوگر، دعا و استغفار میں ہر دم مشغول، اطاعت الہٰی اور اتباع رسول اللہ ﷺ کے دلدادہ، معصیت سے بیزار، احکام الہٰی کے پابند اور طاغوت کے خلاف برسر پیکار، رات کو مصلے اور دن کو گھوڑے کی پیٹھ پر سواری کرنے والے ایک قابل رشک مجاہد اور جرنیل۔۔۔ جنہیں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار جنگجؤوں کے ہم پلہ قرار دیا تھا۔
نام و نسب
’’عبادہ بن الصامت بن قیس بن اصرم بن فہر بن ثعلبہ بن قوفل بن عوف بن عمرو بن عوف بن الخزرج الانصاری الخزرجی۔‘‘
معرکے
تمام غزوات میں شریک رہے، فتح مصر کی جنگوں میں جرنیل مقرر ہوئے۔
رحلت
34 ھ میں رملہ یا بیت المقدس میں وفات پائی۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
(22) حضرت سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ
ایران کا صوبہ ’’اہواز‘‘ ایک دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے یہ بصرہ اور ایران کی درمیانی سرحد پر واقع ہے۔ عہد خلافت راشدہ میں یہاں ایک جنگجو اور بہادر قوم ’’کرد‘‘ آباد تھے۔ بصرہ ایک نیا شہر آباد ہوا تھا، جسے اسلامی لشکر کے لئے چھاؤنی کی حیثیت حاصل تھی۔ دفاعی اعتبار سے یہ انتہائی حساس اور اہم ترین علاقہ تھا۔ ایرانی فوج کے تابڑ توڑ حملوں سے بچنے کی ایک ہی صورت تھی کہ ایران کے مغربی صوبے ’’اہواز‘‘ پر مسلمانوں کا مکمل قبضہ ہوجائے۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ایک رات مدینے کی گلیوں میں گشت کر رہے تھے اور ساتھ ہی اس مسئلے پر غور و فکر بھی کر رہے تھے کہ اس اہم ترین محاذ پر جانے والے لشکر کا سالار اعلیٰ کس کو مقرر کیا جائے۔ تجربہ کار، دلاور اور بہادر مجاہدین کے نام یکے بعد دیگرے زبان پہ آ رہے تھے۔ جب سلمہ بن قیس اشجعیؓ کا نام آیا تو رک گئے اور فرمانے لگے:
’’واہ واہ! یہی تو میرا مطلوب ہے، یہی وہ جرنیل ہے جس کی مجھے تلاش تھی۔ اہواز پر حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد یہی مناسب رہے گا، اس میں قائدانہ صلاحیتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔‘‘
صبح ہوئی تو انہیں اپنے پاس بلایا اور فرمایا:
’’سلمہ! میں نے تمہیں ایران کے مغربی صوبے اہواز پر حملہ آور ہونے والے لشکر کا سالارِ اعلیٰ مقرر کیا ہے، مجھے امید ہے کہ تم اس منصب کا حق ادا کرو گے۔
معرکے
جنگ اہواز میں سالاراعلیٰ۔
(23) حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ
حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ ان ستر ہزار خوش نصیب انسانوں میں سے ہیں جنہیں بغیر حساب کے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ یہ وہ جلیل القدر صحابی ہیں میدان بدر میں کفار سے لڑتے ہوئے جب ان کی تلوار ٹوٹ گئی تو نبی کریم ﷺ نے کھجور کی ایک چھڑی ان کے ہاتھ میں تھما دی، وہ چھڑی تلوار بن گئی اور پھر یہ معجزاتی تلوار زندگی بھر ان کے پاس رہی۔
حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’میرا بھائی بہت خوبصورت تھا، علم و عمل، فضل و شرف اور حسب و نسب کے اعتبار سے وہ اعلیٰ مقام پر فائز تھا، نیز سیادت و قیادت میں اسے کمال حاصل تھا، جب رسول اللہ ﷺ نے دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اس وقت اس کی عمر چوالیس برس تھی۔ غزوۂ بدر، غزوۂ احد اور دیگر غزوات میں پورے جوش و ولولے سے حصہ لیا اور متعدد معرکوں میں جنگی مہارت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔‘‘ آپ محصن بن حرثان کے فرزند ارجمند تھے، بنو اسد قبیلے کے چشم وچراغ تھے ہجرت سے پہلے ساقی اسلام کے دست مبارک سے جام توحید نوش کیا، پھر ہجرت مدینہ کا شرف حاصل کیا۔
نام و نسب
’’عکاشہ بن محصن بن حرثان بن قیس بن مرہ بن کثیر بن غنم بن دودان بن اسد بن خزیمہ الاسدی۔‘‘
معرکے
غزوۂ احد، غزوۂ خندق اور دیگر تمام غزوات میں جوانمردی و بہادری کے جوہر دکھلائے۔
شہادت
مرتدین کے خلاف لڑتے ہوئے طُلیحہ بن خویلد کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ رضی اللہ عنہ
ان چند جرنیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تذکرے کے بعد آخر میں ان چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فہرست پیش خدمت ہے جنہیں نبی کریم ﷺ نے مختلف سریوں میں سالار بنا کر بھیجا۔ حضور ﷺ کا ان کو سالار بنانا ان کے جرنیل ہونے کی واضح دلیل ہے۔
(24) حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ
(25) حضرت عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ
(26) حضرت سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ
(27) حضرت کعب بن اشرف رضی اللہ عنہ
(28)حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ
(29) حضرت ابو سلمہ بن الاسد رضی اللہ عنہ
(30) حضرت عبد اللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ
(31) حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ
(32)حضرت عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ
(33) حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ
(34) حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ
(35) حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
(36) حضرت عمرو بن ابی امیہ الضمری رضی اللہ عنہ
(37) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
ّ(38) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
(39) حضرت بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ
(40) حضرت غالب بن عبد اللہ لیثی رضی اللہ عنہ
(41) حضرت بشیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ
(42) حضرت ابن ابی العوجاء رضی اللہ عنہ
(43) حضرت غالب بن عبد اللہ لیثی رضی اللہ عنہ
(44) حضرت شجاع بن وھب اسدی رضی اللہ عنہ
(45) حضرت کعب بن عمیر غفاری رضی اللہ عنہ
(46) حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ
(47) حضرت ابو حدرد اسلمی رضی اللہ عنہ
(48) حضرت سعد بن زید رضی اللہ عنہ
ّ(49) حضرت طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ
(50) حضرت عیینہ بن حصن الفزاری رضی اللہ عنہ
(51) حضرت قطبہ بن عامر رضی اللہ عنہ
(52) حضرت ضحاک بن سفیان کلابی رضی اللہ عنہ
(53) حضرت علقمہ بن مجزر مدلجی رضی اللہ عنہ
(ماخوذ و ملخص از: اسد الغابہ، الاصابہ، جرنیل صحابہؓ، تاریخ اسلام)
*۔۔۔*۔۔۔*

مزید :

ایڈیشن 1 -